• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی میں بڑھاپا ایک ایسی حقیقت ہے، جس سے فرار ممکن نہیں۔ یہ زندگی کے سفر کا وہ مرحلہ ہے، جہاں جسم، دماغ اور جذبات ایک نئے دَور میں داخل ہوتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بڑھاپے کو کم زوری، بیماری اور بوجھ سمجھ لیا گیا ہے۔ حالاں کہ جدیدِ طب، نفسیات اور عُمرانی علوم سب اِس امر پر متفّق ہیں کہ بڑھاپا کوئی بیماری نہیں، بلکہ انسانی جسم کے قدرتی ارتقائی عمل کا حصّہ ہے۔ 

جدید اصلاحات کی روشنی میں بزرگوں کے لیے چند مفید مشورے یہ ہیں کہ بہت سی علامات، جنہیں ہم بیماری سمجھتے ہیں، دراصل عُمر بڑھنے کے ساتھ جسم کے فطری تغیّرات ہیں۔ ذیل میں اِنہی نکات کو طبّی، نفسیاتی اور سماجی تناظر میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

یادداشت کی کم زوری…بیماری نہیں، دماغ کی خود حفاظتی حکمتِ عملی:

عُمر کے ساتھ دماغ کے خلیے(Neurons) آہستہ آہستہ سُست ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک نیورولوجیکل حقیقت ہے کہ بڑھاپے میں دماغ غیر ضروری معلومات حذف کرنے لگتا ہے تاکہ توانائی محفوظ رکھی جا سکے۔ 

اِسی عمل کو ہم’’یادداشت کی کم زوری‘‘ سمجھ لیتے ہیں۔ اگر کوئی بزرگ وقتی طور پر چابیاں یا موبائل فون کہیں رکھ کر بھول جائیں، مگر کچھ دیر بعد یاد آجائے، تو یہ الزائمر یا ڈیمنشیا نہیں، بلکہ دماغ کی قدرتی رفتار میں کمی ہے۔

دماغ اِس مرحلے میں صرف اہم چیزوں کو ترجیح دیتا ہے۔ تحقیق کے مطابق، 65سال کے بعد60 فی صد افراد معمولی Short-term Memory Loss کا تجربہ کرتے ہیں، لیکن ان میں سے صرف5 فی صد حقیقی ڈیمنشیا(Dementia)کے مریض ہوتے ہیں۔

طبّی مشورہ: دماغی صحت کے لیے مطالعہ، پہیلیاں حل کرنا، نئی زبان سیکھنا اور گفتگو میں حصّہ لینا مفید ہے۔ یہ سرگرمیاں دماغی خلیوں کو متحرّک رکھتی ہیں۔

چلنے میں سُستی یا لڑکھڑاہٹ…(Physical Activities) جسمانی حرکت کی کمی، فالج نہیں:

بڑھاپے میں پٹّھے(Muscles) آہستہ آہستہ سکڑنے لگتے ہیں، جسے (Sarcopenia) کہا جاتا ہے۔ یہ پٹّھوں کی کم زوری جسم کا توازن متاثر کرتی ہے۔اکثر بزرگ اسے فالج یا اعصابی بیماری سمجھ لیتے ہیں، حالاں کہ اصل وجہ حرکت اور جسمانی سرگرمی میں کمی ہے۔

تحقیقات کے مطابق، روزانہ30 منٹ کی ہلکی چہل قدمی یا ہلکی ورزش پٹّھوں کے زوال اور کم زوری کو40فی صد تک کم کر سکتی ہے۔ لہٰذا علاج دوا نہیں، بلکہ جسمانی حرکت ہے۔

طبّی مشورہ: ہر بزرگ کو روزانہ چہل قدمی، ہلکی پُھلکی ورزش یا یوگا جیسی سرگرمی اپنانی چاہیے۔ ورزش نہ صرف جسم کو مضبوط بناتی ہے بلکہ دل، دماغ اور اعصاب کے نظام کو بھی فعال رکھتی ہے۔

نیند نہ آنا / انسومنیا(Insomnia)…جسم کی حیاتیاتی گھڑی کی تبدیلی:

عُمر کے ساتھ انسان کے جسم میں میلیٹونن ہارمون کی پیداوار کم ہو جاتی ہے، جو نیند کا تسلسل برقرار رکھتا ہے۔ اِسی وجہ سے بزرگوں میں نیند کے اوقات بدل جاتے ہیں اور رات کے وقت نیند کم آنے لگتی ہے۔

یہ کیفیت بیماری نہیں، بلکہ سرکیڈین ردھم (Circadian Rhythm) کے بدلنے کا نتیجہ ہے۔ اکثر لوگ نیند کی گولیاں استعمال کرتے ہیں، جو وقتی سکون تو دیتی ہیں، مگر دماغی خلیوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ مطالعات کے مطابق، نیند آور ادویہ کے مسلسل استعمال سے یادداشت کم زور، توازن متاثر اور گرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

طبّی مشورہ: بزرگوں کے لیے’’ نیند کی بہترین دوا‘‘ دھوپ ہے۔ دن کے وقت سورج کی روشنی لینا، میلیٹونن کی قدرتی پیداوار کو متوازن کرتا ہے۔ نیند کا شیڈول مقرّر رکھنا، کیفین سے پرہیز اور نماز یا مراقبے جیسی پُرسکون سرگرمیاں نیند بہتر بناتی ہیں۔

جسم میں درد…اعصابی بڑھاپے کی علامت: بڑھاپے میں اکثر جسم کے مختلف حصّوں میں درد محسوس ہوتا ہے۔ یہ ’’Rheumatism‘‘ نہیں، بلکہ اعصاب کی سُست رفتاری کا نتیجہ ہے۔ اعصاب جب پرانے ہو جاتے ہیں، تو وہ دماغ کو زیادہ ’’Pain Signals‘‘ بھیجنے لگتے ہیں۔ 

یہ کیفیت’’Central Sensitization‘‘ کہلاتی ہے، جس میں دماغ درد کو بڑھا چڑھا کر محسوس کرتا ہے۔ دوا سے وقتی آرام مل سکتا ہے، مگر اصل علاج حرکت، گرمی اور جسمانی سرگرمی ہے۔ گرم پانی سے پاؤں دھونا، ہلکی مالش اور نیم گرم کپڑا درد کو مؤثر طریقے سے کم کر دیتا ہے۔

طبّی مشورہ: دردکُش ادویہ کا زیادہ استعمال گُردوں اور معدے کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ اِس لیے ورزش، پانی کی مناسب مقدار اور متوازن غذا اختیار کرنا سب سے مؤثر علاج ہے۔

میڈیکل رپورٹس…بیماری نہیں، معیار کی تبدیلی: اکثر بزرگ طبّی معائنے کی رپورٹس دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں، لیکن ان رپورٹس میں’’غیر معمولی نتائج‘‘ ہمیشہ بیماری کی نشان دہی نہیں کرتے۔اصل میں یہ عُمر کے لحاظ سے بدلتے معیار (Age-adjusted reference values) کی وجہ سے ہوتا ہے۔

مثلاً، کولیسٹرول کا تھوڑا سا زیادہ ہونا نقصان دہ نہیں، بلکہ بزرگوں میں لمبی عُمر کی علامت ہو سکتا ہے۔ کولیسٹرول، خلیوں اور ہارمونز کے لیے بنیادی جزو ہے۔ اِسی طرح بلڈ پریشر کا تھوڑا سا بڑھا ہوا ہونا نارمل سمجھا جاتا ہے، جسے کم کرنے کے لیے غیر ضروری دوا لینا خطرناک ہو سکتا ہے۔

طبّی مشورہ: ہر بزرگ کو اپنی رپورٹس کے نتائج ڈاکٹر سے عُمر کے لحاظ سے تشریح کروانی چاہیے، نہ کہ خود سے نتیجہ اخذ کرلیں۔

بڑھاپا اور نفسیاتی صحت: بڑھاپے کا سب سے بڑا مسئلہ جسمانی نہیں، بلکہ نفسیاتی ہوتا ہے۔ تنہائی، عدم توجّہ اور احساسِ بے کارگی انسان کو اندر سے کم زور کر دیتے ہیں۔ تحقیقات کے مطابق، 70سال سے زائد عُمر کے 40فی صد افراد ڈیپریشن یا اینزائٹی کا شکار ہوتے ہیں، جن میں سے اکثر کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ اب”کسی کام کے نہیں رہے۔“ یہ سوچ دراصل معاشرتی رویّوں کا نتیجہ ہے۔اولاد، والدین کو اسپتال تو لے جاتی ہے، مگر اُن کے ساتھ وقت نہیں گزارتی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بزرگوں کے لیے بہترین دوا ”محبّت، گفتگو اور ساتھ (Gatherings)“ ہے۔

طبّی مشورہ: خاندان کے نوجوان روزانہ چند منٹ والدین اور بزرگوں کے ساتھ بات چیت کریں، اُن کے تجربات سُنیں اور اُنہیں اُن کی اہمیت محسوس کروائیں۔

بڑھاپے کے ادوار…عُمر کے ساتھ ذہنی ارتقاء:

برازیل کے ایک انکولوجسٹ کے مطابق بڑھاپے کے چارادوار ہیں۔

پہلا دَور60 :سے 80 سال، عام بڑھاپا۔ دوسرا دَور80 : سے 90 سال۔ تیسرا دور: 90 سال کے بعد، طویل العمری۔ اور چوتھا ’’عمرانی مرحلہ۔‘‘ اِن میں سے ہر مرحلہ اپنی خُوب صُورتی رکھتا ہے۔ بڑھاپا، دراصل زندگی کے تجربوں، فہم اور سکون کا مجموعہ ہے۔ اِس مرحلے میں انسان دنیا کو زیادہ حقیقت پسندی سے دیکھتا ہے اور خواہشات کی جگہ اطمینان لے لیتا ہے۔

بڑھاپے میں خود مختاری…عزّتِ نفس کی محافظ:

انسان جب تک اپنے فیصلے خُود کرنے کی صلاحیت برقرار رکھتا ہے، اُس کی ذہنی صحت بہتر رہتی ہے۔ بزرگوں کو اپنی مرضی سے کھانے، سونے، ملنے اور پہننے کا اختیار دینا اُن کی خود اعتمادی بڑھاتا ہے۔ جب بزرگوں کو ہر فیصلہ دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑنا پڑتا ہے، تو وہ احساسِ کم تری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

طبّی مشورہ: بزرگوں کو روزمرّہ کے معمولات میں آزادی اور اختیار دیا جائے۔یہ اُن کی نفسیاتی تن درستی کے لیے دوا سے زیادہ مؤثر ہے۔

مثبت سوچ…بڑھاپے کا اصل علاج: ولیم شیکسپیئر کا قول ہے-”مَیں ہمیشہ خوش رہتا ہوں، کیوں کہ مَیں کسی سے اُمید نہیں رکھتا۔“یہ جملہ بڑھاپے کی نفسیات کی بہترین تشریح ہے۔ اُمیدوں میں کمی اور قبولیت میں اضافہ، انسان کو اندر سے آزاد کر دیتا ہے۔

زندگی کے مسائل ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتے، ہر دُکھ کے پیچھے کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ بزرگوں کو چاہیے کہ وہ خود کو دوسروں پر بوجھ سمجھنے کی بجائے زندگی کے تجربات کا خزانہ مانیں۔ اِس ضمن میں زندگی کے چھے سنہری اصول یاد رکھیں:٭ ردِ عمل دینے سے پہلے سانس لیں۔٭بولنے سے پہلے سُنیں۔٭تنقید سے پہلے خُود کو دیکھیں۔٭لکھنے سے پہلے سوچیں۔ ٭حملہ کرنے سے پہلے رُک جائیں۔ اور٭مرنے سے پہلے زندگی کو خُوب صُورت بنائیں۔

نتیجہ…بڑھاپا قدرت کی حکمت ہے

بڑھاپا کسی بیماری کا نام نہیں، بلکہ یہ قدرت کی ترتیب کا ایک حصّہ ہے۔یہ وہ دَور ہے، جب انسان اپنی زندگی کے تجربات اگلی نسل تک منتقل کرتا ہے۔ اسے خوف یا شرمندگی کی بجائے فخر کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ 

اگر ہم بڑھاپے کو بیماری کی بجائے فطری تبدیلی سمجھ لیں، بزرگوں کو تنہا کرنے کی بجائے اُن کا ساتھ دیں اور اگر حرکت، دھوپ، محبّت اور مثبت سوچ اپنالیں، تو بڑھاپا کم زوری نہیں، بلکہ وقار اور سکون کا استعارہ بن جائے گا۔

یاد رکھیں، بڑھاپا دشمن نہیں، رُک جانا، ٹھہر جانا دشمنی ہے۔ حرکت (Physical Movement)، تعلق (Relations) اور اُمید ہی بڑھاپے کا بہترین علاج ہیں۔ (مضمون نگار، پبلک ہیلتھ اسپیشلسٹ اور چیف میڈیکل آفیسر، سروسز اسپتال کراچی، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ سندھ ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید
صحت سے مزید