• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جمہوریت ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے کبھی اسے آمریت نے کچلا، کبھی ذاتی مفادات نے۔ لیکن اگر اس تاریخ میں چند شخصیات کو جمہوری تسلسل کا حقیقی معمار کہا جائے تو صدر آصف علی زرداری کا نام صفِ اوّل میں آئیگا۔ انکا کردار صرف ایک سیاسی رہنما کے طور پر نہیں بلکہ ایک ایسے مفاہمتی مدبر کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، جس نے تصادم کے بجائے بات چیت، انتقام کے بجائے استحکام، اور طاقت کے بجائے آئین کو ترجیح دی۔ 2008 ء میں جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی، ملک دہشت گردی، عدالتی بحران اور معیشت کی زبوں حالی کا شکار تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی المناک موت کے بعد پوری قوم صدمے میں تھی، مگر آصف علی زرداری نے اس موقع پر قوم کو انتشار سے نکال کر جمہوری راستے پر گامزن کیا۔ انہوں نے اپنے قول پر عمل کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان کھپے‘‘ یہ نعرہ اُس وقت محض جذباتی نہیں تھا بلکہ سیاسی بلوغت کا مظہر تھا۔ انکی قیادت میں اٹھارہویں آئینی ترمیم پاس ہوئی، جس نے صدارتی اختیارات واپس پارلیمان کو منتقل کیے، صوبوں کو خودمختاری دی، اور آمریت کے دور کے زخموں پر مرہم رکھا۔ یہ آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت تھی کہ انہوں نے اپنے ہی اختیارات کم کیے مگر جمہوریت کو مضبوط کیا۔ یہ وہی عمل تھا جس نے پہلی بار پاکستان میں یہ روایت ڈالی کہ ایک منتخب جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے اور دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کرے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب پاکستان نے جمہوری استحکام کی طرف پہلا حقیقی قدم اٹھایا۔ زرداری صاحب کے مخالفین نے انہیں ’’مفاہمت کا بادشاہ‘‘ کہا مگر یہی مفاہمت پاکستان کے جمہوری مستقبل کی بنیاد بنی۔ انہوں نے سیاست کو دشمنی نہیں بلکہ مکالمے کا میدان بنایا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے ہمیشہ یہ مؤقف اپنایا کہ اختلافِ رائے جمہوریت کا حسن ہے، اور اگر تمام سیاسی قوتیں آئین کی بالادستی پر متفق ہوں تو ملک کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ انکے دور میں پارلیمان نے تاریخی قانون سازی کی، عدلیہ نے خودمختاری حاصل کی، میڈیا کو وسعت ملی، اور صوبائی حکومتوں کو فیصلہ سازی میں بااختیار بنایا گیا۔ یہ سب اقدامات ان کے اس نظریے کی عکاسی کرتے ہیں کہ جمہوریت کا تسلسل شخصیات کے نہیں بلکہ اداروں کے استحکام میں ہے۔اب نومبر 2025ء کے تناظر میں جب پاکستان ایک نئے سیاسی مرحلے میں داخل ہو رہا ہے، صدر آصف علی زرداری ایک بار پھر آئینی استحکام اور وفاقی ہم آہنگی کے ضامن کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ملک میں 27ویں آئینی ترمیم پر جاری بحث نے سیاسی فضا کو ایک بار پھر حساس بنا دیا ہے۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ یہ ترمیم جلد پارلیمنٹ میں پیش کی جائیگی، جسکے تحت بعض وفاقی اور صوبائی اختیارات، نیشنل فنانس کمیشن (NFC) ایوارڈ اور آرٹیکل 243سے متعلق امور پر نظرِ ثانی تجویز کی گئی ہے۔اس مجوزہ ترمیم پر جہاں کچھ حلقوں نے خدشات ظاہر کیے کہ یہ اٹھارہویں ترمیم کے اختیارات کو کم کر سکتی ہے، وہیں پیپلز پارٹی نے ایک متوازن اور اصولی مؤقف اپنایا ہے۔ سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے واضح کیا کہ اگر صوبائی خودمختاری کو نقصان پہنچا تو پیپلز پارٹی اسکی مزاحمت کریگی۔ مگر صدر زرداری اور پارٹی قیادت نے یہ بھی کہا کہ اگر ترمیم کا مقصد آئینی اداروں کے درمیان بہتر توازن اور وفاقی نظام کی بہتری ہے تو اسے بات چیت کے ذریعے طے کیا جا سکتا ہے۔یہی وہ سیاست ہے جو پیپلز پارٹی کو دوسری جماعتوں سے ممتاز کرتی ہے اصولی اختلاف کیساتھ شراکتِ مکالمہ۔

زرداری صاحب کا فلسفہ ہے کہ ’’آئین جامد نہیں بلکہ ایک زندہ دستاویز ہے جو عوام کے تقاضوں کے مطابق ارتقا پذیر رہتی ہے‘‘۔ انکا ماننا ہے کہ اگر کوئی ترمیم جمہوری ڈھانچے کو بہتر بنائے اور وفاق کو مضبوط کرے، تو اسے محض سیاسی تعصب کی نذر نہیں کرنا چاہئے۔ 2025ء کے سیاسی منظرنامے میں آصف علی زرداری کا کردار ایک بردبار ثالث اور قومی مفاہمت کے مرکز کے طور پر نمایاں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ سیاسی انتشار، ذاتی مفادات اور ادارہ جاتی تصادم پاکستان کیلئے زہرِ قاتل ہیں۔ اسی لئے وہ بار بار اس پیغام کو دہراتے ہیں کہ سیاست کا مقصد اقتدار نہیں، بلکہ عوامی خدمت اور نظام کا تسلسل ہے۔ پیپلز پارٹی کا موجودہ کردار بھی اسی سوچ کا تسلسل ہے۔ سندھ میں حکومت کے تجربے سے لے کر وفاق میں پارلیمانی کردار تک، پارٹی نے ہمیشہ آئین، جمہوریت اور وفاقی ہم آہنگی کو ترجیح دی۔ آصف علی زرداری کی قیادت میں یہ بات واضح ہے کہ پیپلز پارٹی کسی ایسی ترمیم کی مخالفت نہیں کریگی جو قومی یکجہتی، ادارہ جاتی توازن اور عوامی فلاح کیلئے ہو، مگر وہ کسی ایسی تبدیلی کو بھی برداشت نہیں کریگی جو صوبائی حقوق کو پامال کرے یا جمہوری اصولوں کو کمزور بنائے۔

پاکستان آج جس سیاسی دوراہے پر کھڑا ہے، وہاں زرداری صاحب کی پالیسی صبر، مفاہمت اور آئینی تسلسل ہی وہ راستہ ہے جو ملک کو انتشار سے نکال کر استحکام کی جانب لے جا سکتا ہے۔ انہوں نے بارہا کہا کہ’’جمہوریت کا درخت خون، قربانی اور وقت مانگتا ہے۔ اگر ہم اسے ہر بار جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کریں گے تو یہ کبھی تناور نہیں ہو گا‘‘۔

یہ جملہ آج پہلے سے کہیں زیادہ بامعنی ہے۔ پاکستان کو ایسے ہی بردبار رہنماؤں کی ضرورت ہے جو طاقت کے نہیں بلکہ نظام کے وفادار ہوں۔ آصف علی زرداری نے اس فلسفے کو اپنے عمل سے ثابت کیا اختیارات چھوڑ کر، مخالفین کو ساتھ بٹھا کر، اور پارلیمان کو فیصلہ سازی کا مرکز بنا کر۔ جمہوریت کی اصل کامیابی اقتدار کے تسلسل میں نہیں بلکہ آئینی رواداری میں ہے۔ صدر زرداری کی سیاست نے یہ حقیقت پاکستانی قوم کے شعور کا حصہ بنا دی ہے۔ تاریخ جب بھی پاکستان کے جمہوری سفر کا ذکر کریگی، آصف علی زرداری کا نام ان رہنماؤں میں سنہری حروف سے لکھا جائیگا جنہوں نے طاقت سے زیادہ آئین کو، سیاست سے زیادہ استحکام کو، اور اختلاف سے زیادہ اتحاد کو ترجیح دی۔

تازہ ترین