کل پاکستان میں جمہوریت کی جدوجہد کرنے والے پہلے شہید حسن ناصر کی برسی ہے، جسے مشہور زمانہ شاہی قلعہ میں ریاستی تشدد کا نشانہ بناکر ہلاک کیا گیا تھا۔ یہ برسی ایک ایسے وقت منائی جارہی ہے جب ’’آئین اور جمہوریت‘‘ کے مکمل خاتمے کی تیاریاںآخری مراحل میں ہیں، کچھ اگر بچ جائے گا تو وہ27ویں کے بجائے 28 ویںمیں آجائے گا، بس آپ تیاری کریں آخر، جمہوریت کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے۔ حسن ناصر سے شروع ہوئے شہدائے جمہوریت کے اس سفر میں کچھ ٹارچر سے مارے گئےنظیر عباسی جیسے اور کچھ پھانسی چڑھ گئے۔ 1983ء کی تحریک بحالی جمہوریت میں کئی سو لوگ آئین و قانون کی بالادستی کی جدوجہد کی بھینٹ چڑھ گئے۔ آج کل ان کی قربانیوں پر ’’سودے بازی‘‘ جاری ہے۔ افسوس ہے تو اس بات کا کہ اس جدوجہد کے کچھ ہمارے ساتھی بھی اپنا ’’ووٹ‘‘ ایسی غیر جمہوری ترامیم کے حق میں ڈال کر1973ء کے آئین کی آخری رسومات میں شریک ہیں۔ جب باقیات ہی سودا کررہی ہیں تو کارکنوں سے کیا شکایات۔
ہم اس آئین و جمہوریت کو ایک ایسے وقت میں ختم کرنے کے درپے ہیں،جب سال2026ء کو ’’ماڈرن ڈیمو کریسی‘‘ کے250سال مکمل ہونے پر منایا جائے گا۔ یہاں ’’جمہوریت، آئین اور قانون‘‘ سے تاحیات استثنیٰ حاصل کیا جارہا ہے۔ 1973ء کے آئین کے خالق کی باقیات وہ ساری جماعتیں ہیں جنہوں نے اس پر دستخط کیے اور آج بھی پارلیمنٹ کی ایک خصوصی گیلری میں ان کے مجسمہ بناکر رکھے ہوئے ہیں۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں شاذو نادر ہی آپ کو ’’تاحیات یا استثنیٰ‘‘ جیسی اصطلاحات ملیں گی مگر ہم تو جمہوری معاشرے سے کوسوں دور ہیں۔ سچ پوچھیں تو ہمارے مزاج میں ہی جمہوریت نہیں ، ہمیں عادت ہے ’’مغل بادشاہت‘‘ کی۔ بس ’’قصر شاہی‘‘ سےحکم صادر ہوا اور ہمارے اراکین اسمبلی نے دستخط کردیے، نہ پڑھنے کی ضرورت ہے، نہ سوچنے کی آزادی۔ حسن ناصر، نظیر عباسی کا تو خیر تعلق کمیونسٹ پارٹی سے تھا مگر جن لوگوں اور پی پی پی کے کارکنوں ناصر بلوچ، ایاز سموں، ادریس توطی اور دیگرنے ’’جئے بھٹو‘‘ کا نعرہ لگاتے پھانسی کے پھندے کو قبول کیا، کچھ ان کا ہی خیال اس پارٹی کی قیادت کرلیتی، سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی نے تو اس ملک کی سیاست کا رخ ہی تبدیل کردیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے اس لیے بھی گلہ نہیں کہ وہ آمریت کا سب سے مستند ’’پروجیکٹ‘‘ تھی اور جنرل ضیاء کی پیداوار، البتہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اور بعد میں عمران خان کے دور میں ان کے بہت سے رہنمائوں بشمول مرحومہ کلثوم نواز کی قربانیاں تاریخ کا حصہ ہیں۔ اب آتے ہیں 27ویں آئینی ترمیم پر، اتفاق سے جب یہ ترمیم تقریباً ’’لاپتہ‘‘ تھی اور اراکین پارلیمنٹ اس سے لاعلم تھے، بس انہیں یہ حکم تھا کہ ’’اسلام آباد‘‘ میں رہیں تو میری ان میں سے چند ایک سےملاقات ہوئی ایوان کی راہ داریوں میں، جن میں حکمراں اتحاد مسلم لیگ (ن) پی پی پی، ایم کیو ایم کے دوست بھی تھے اور اپوزیشن تحریک انصاف، جمعیت علما اسلام اور خود ’’تحریک تحفظ آئین‘‘ کے سربراہ محمود خان اچکزئی صاحب سے بھی ملاقات کا موقع ملا۔ پی پی پی اور مسلم لیگ کے کچھ دوستوں... مسرور احسن، وقار مہدی، شہادت اعوان یا مسلم لیگ کے پرویز رشید سے تعلق ان کے ان جماعتوں میں آنے سے پہلے کاہے، زیادہ تر کا تعلق زمانہ طالب علمی میں این ایس ایف سے رہا۔ ’’حالات‘‘ پر تو وہ بھی شرمندہ نظر آئے مگر شاید پارٹی ڈسپلن آڑے آگیا۔ بس میں یہ سوچتا رہا کہ کیا رضا ربانی کے آنسو کام آئے اور کچھ نہیں تو خود ان جماعتوں کی قیادت1973ء کے آئین، میثاق جمہوریت اور18ویں ترمیم کی ہی لاج رکھ لیتی۔ ان میں سے کچھ نے تو ’’شاہی قلعہ‘‘ بھی دیکھا ہے۔ اگر یہ حضرات ووٹ نہ دیتے تو کون سی جیل ہوجانی تھی، بس پارٹی سے شوکاز ملتا اور سینیٹ سے رخصتی خیر ان مڈل کلاس دوستوں سے کیا گلہ جب اوپر کے لیول پر کھیل ہی کچھ اور ہورہا ہو۔ غرض یہ کہ27ویں ترمیم آنے سے ایک دن پہلے تک اراکین لاعلم تھے کہ اس میں جمہوریت، عدلیہ اور آئین کتنا کمزور ہوا ہے۔ ترمیم منظرعام پر آئی تو اس میں بہت کچھ تھا، ماسوائے آئین و قانون کے تحفظ کے میڈیا کا تو پہلے ہی کنٹرول شاید تاحیات ہی کسی اور کے پاس چلا گیا ہے۔
اعلیٰ عدلیہ خاص طور پر سپریم کورٹ کے ساتھ جوہوا وہ تو پی سی او ججز کے ساتھ بھی نہیں ہواتھا۔ جس طرح سیاست میں صحافت میں تنقید برداشت نہیں، اب یہی حال اعلیٰ ترین عدلیہ کے ججز کے ساتھ ہوسکتا ہے، یعنی اپنے ٹرانسفر پر وہ ’’نہیں‘‘ نہیں کہہ سکتے، ورنہ گھر بھیج دیے جائیں گے۔ ہماری عدلیہ کی تاریخ کبھی تابناک نہیں رہی، اس ملک کو یہاں تک لانے اور آمریت کو مضبوط کرنے میں اس کا اہم بلکہ فیصلہ کن کردار رہا ہے، لہٰذا یہ تو ہونا ہی تھا۔ اس وقت بھی چند آوازیں عدلیہ میں ’’انکار‘‘ کی جرات کرنے والوں کی تھیں اور آج بھی ہیں، چاہے وہ جسٹس منصور علی شاہ کی شکل میں ہو یا جسٹس بابر ستار اور ان جیسے چند دیگر ججز کی صورت میں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت آئینی عدالت کے نام پر جو کھیل تماشہ شروع ہونے جارہا ہے، اس کا شکار مخالف تو ہوں گے ہی مگر آنے والے وقت میں ترمیم لانے والے حکمراں بھی اسوقت اس کا شکارہوں گے، جب وہ حکمران نہیں ہوں گے۔ (B) 58-2 اور 184-3 سے شروع ہونے والا یہ سفر اب ختم ہونے والا نہیں ، سیاستدانوں نے اپنے لیے خود ہی گڑھا کھود ڈالا ہے۔
’’جمہوریت‘‘ اخلاقی قدروں کا نام ہے۔ استثنیٰ تو دور کی بات، الزام بھی لگ جائے تو وزیراعظم اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہیں، استعفیٰ دے دیتےہیں۔ اگر شہبازشریف اور اسپیکر نے یہ شق قبول نہیں کی جو قابل تحسین بات ہے تو صدر آصف علی زرداری نے تاحیات کیوں قبول کی۔ خیر جن ممالک میں ’’جمہوریت‘‘ ہے وہاں تو صدر یا وزیراعظم یا وزراء، اراکین سب کی زندگی میں سادگی نظر آئے گی۔ کوئی ٹرین سے سفر کرتا ہے، تو کوئی بس سے، ایسی بھی مثالیں ہیں کہ منتخب لوگ سائیکل پر جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو مڈل کلاس اراکین کو بڑی کلاس میں جانے کی جلدی ہوتی ہے۔ ہمارا نظام جاگیردارانہ سوچ کا عکاس ہے، یہ ’’شہدائے جمہوریت‘‘ کی قربانیوں کا ثمرنہیں۔ بات صرف ایک یا دو آئینی ترامیم کی نہیں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کی ہے، جس میں اب ملاوٹ آرہی ہے یا لائی جارہی ہے۔ اسے داغ داغ اجالا نہ کہوں تو اور کیا کہوں۔ سبق تو ہم نے کیا سیکھنا ہے 1958ء سے اسپیس دینے کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ اب اپنے اختتامی مراحل میں ہے، اب آپ ان دستاویزات کو1973ء کا آئین یا2025ء کا ’’ہائبرڈ آئین‘‘ کہیںیہ ذمہ داری تو سیاستدانوں کو اٹھانی پڑے گی۔ حسن ناصر جیسے جمہوریت کے شہید کیلئے بس یہی کہاجاسکتا ہے۔
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں