حبیب جالب نے ایک بار مجھے خط میں لکھا تھا ’’آخر ہمارے ساتھ کیا خرابی ہے کہ بحیثیت قوم کوئی دوسری قوم ہم پر اعتماد نہیں کرتی ۔ہمارے الفاظ، ہمارا چہرہ کیوں نہیں بن پاتے ،ہمارے احساسات ،ہمارے جذبات آخر دوستی کی طرف کیوں ہاتھ نہیں بڑھاتے؟ ہمسائے جو کہ اس دوستی کے بہترین حقدار ہیں وہاں بھی دشمنی اپنا رنگ کیوں جمائے ہوئے ہے‘‘-
حبیب جالب میرا دوست تھا۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اس نے سورج کے اُگنے کی تمنا کی تھی لیکن وہ اس روشنی کی ہلکی سی لکیر دیکھنے سے قبل ہی چل بسا۔ بہت سال ِادھر کی بات ہے عالمی اردو کانفرنس کی دعوت پر میں دہلی گیا تو میں نے وہاں سے اسے کارڈ لکھا۔’’ موقع ملے تو اس پار بھی آؤ کہ لوگ تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں‘‘- جب میں دہلی سے واپس ایمسٹرڈیم پہنچا تو اس کا خط آیا رکھا تھا، ـ اس نے لکھا تھا ۔’’تم خوش قسمت ہو جب چاہو دونوں ملکوں میں آ جا سکتے ہوـ خدا کرے کہ دونوں ملکوں میں جلد دوستی ہو امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہو ،شانتی کا رنگ گاڑھا ہو‘‘ـ آگے چل کر لکھتا ہے’’ آخر خرابی ہے کہاں؟ دونوں ملکوں میں یہ پس ماندگی اور زبوں حالی کیوں ہے؟ کیا ہمارے ہاں ذہین لوگوں کا قحط ہے؟ یہاں کی زمینیں بانجھ ہیں؟ کیا اس علاقے سے گزرنے والی ہوائیں نا مہربان ہیں؟ گردشیں ہمارے نصیب میں لکھ دی گئی ہیں کیا یہاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رات ٹھہر گئی ہے؟‘‘
وہ اکثر کہتا تھا کہ کسی بھی نظریہ پہ ایمان رکھنا بُری بات نہیں لیکن اپنی زندگی کے خلاف زندگی گزارنا مکروہ عمل ہے۔جالب کو ہم سے بچھڑے بہت سال گزر گئے۔ اس دوران پانچ دریاؤں کے پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے دونوں ملکوں پر ٹھہری ہوئی رات میں صبح کے آثاردور دور تک دکھائی نہیں دیتے ۔جالب کا کھلی آنکھوں سے دیکھا سپنا، امن دوستی کا خواب بکھر کر رہ گیا ہے ۔پون صدی سے زائد بیت گئی ہے ہم نے بہت کچھ دیکھا اور سُنا ہے لیکن جو حاصل ہے وہ کیا ہے دشمنی اور جنگیں؟۔ اس تناظر میں جب ہم جالب کی امن پسندی، عقل دوستی، سیکولرزم ،خیر سگالی ،عدم تشدد ،بھائی چارہ اور خوشحالی کی خواہش کو دیکھتے ہیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ پاک بھارت دوستی کی اشد ضرورت ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں بھی بھارت کی طرح امن و سلامتی، بھائی چارہ ،حقیقت پسندی ،وقار ،انسانی عظمت اور دیانتداری کی فضا سازگار ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی جماعت یا گرو ہ اس سفرِ دوستی کی مخالفت کرتا ہے تو بلا شبہ یہ اقدام قومی اور ملکی مفادمیں دکھائی نہیں دیتا ۔
امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ میں دونوں ملکوں کے سربراہوں کے اس غیر معمولی اقدام، ہمت و حوصلے کی داد دیتا ہوں کہ انہوں نے جنگ ختم کرنے کی حمایت کی۔گزشتہ پون صدی سے مسئلہ کشمیر نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بے حد کشیدہ اور پیچیدہ کر دیا ہے معاہدہ لاہور سے پہلے بھی کئی بار مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا لیکن مسئلہ کشمیر مزید الجھتا چلا گیا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ کشمیر دونوں ملکوں کی انا کا مسئلہ بن چکا ہے اور دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر اٹل ہیں۔ آج تک اگر بھارت اپنے اس موقف پر قائم رہا ہے کہ کشمیر بھارت کا ٹوٹ انگ ہے اور بھارت کے ساتھ اس کا الحاق آئینی ہے تو پاکستان بھی اپنے مضبوط موقف کو بار بار دُھراتا رہا ہےکہ رائے شماری کروائی جائے ۔ایسی صورتحال میں دونوں ملکوں کے درمیان امن اور دوستی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ دونوںملکوں کو اپنے اپنے موقف میں نرمی پیدا کرنی چاہیے کہ ایک دوسرے کی مشکلات کا خیال کرتے ہوئے’’کچھ لو کچھ دو‘‘کی پالیسی ہی سے یہ معاملہ طے ہو سکتا ہے۔ـ دونوں ملکوں کے حکمران اپنے عوام کےذہنوںکو بے جا خدشات پاک کریں کہ دونوں ملکوں کے عوام کا نظریہ ایک دوسرے کے متعلق بہت ہی غلط رخ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ادھر پاکستانی عوام سوچتے ہیں کہ بھارت نے آج تک پاکستان کو دل سے قبول اور تسلیم نہیں کیا اور یہ کہ ہندو دھرم اسلام سے عناد رکھتا ہے ہندو لیڈرشپ نے بنگلہ دیش بنوایا اور مستقبل میں بھی وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دے گا ۔ادھر بھارتی عوام یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان امریکہ اور چین کا آلہ کار ہے اور یہ کہ وہ بھارتی سیکولرزم جمہوریت اور مشترکہ سماج کو تباہ و برباد کرنے کا خواہاں ہے وغیرہ وغیرہ۔ برصغیر کی تاریخ میں ہمیشہ یہی دیکھا گیا ہے کہ جب بھی دو ہمسائیوں کے درمیان کوئی تنازع پیدا ہوا تو ایسی صورت میں ہمیشہ کسی تیسرے فریق ہی نے فائدہ اٹھایا ۔یہاں میں یہ عرض کرتا چلوں کہ اگر سیاسی مسائل کے حل میں دشواریاں حائل ہیں تو ان کی قیمت پر تجارتی اور سماجی تعلقات کو خسارے میں نہیں رہنا چاہیے کہ آج کے دور میں جب یورپی ممالک ایک مشترکہ تشخص کی تلاش میں سر گرداں ہیں برصغیر کے ممالک کو ان کے مقابل کہیں زیادہ اتحاد اور مشترکہ تشخص کی ضرورت ہے۔میں سمجھتا ہوں پاک وہند کے لوگ ایک دوسرے کے لیے خیر سگالی اور تعاون کا جذبہ رکھتے ہیں ان کے درمیان نفرتیں سطحی اور مصنوعی ہیں اور جب بھی دوستی اور خیر سگالی کی بات ہوتی ہے تو سرحد کے دونوں طرف آباد کروڑوں لوگ نفرت کے جذبے کو فراموش کر کے ایک دوسرے کے لیے بانہیں وا کردیتے ہیں۔ان میں سے ایک میں بھی ہوں ۔
میں دے نہ سکا اُس کی کسی بات کا جواب
خانہ خراب تجھ سے وہی کام رہ گیا