آج کل جنوبی افریقہ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر ہے اور شادیوں کا سیزن بھی عروج پر ہے ۔ایک وقت تھا کہ میں قذافی اسٹیڈیم میں کھیلے جانے والے میچ دیکھنے کیلئے ”مسلح“ ہو کر گھر سے نکلا کرتا تھا۔ بیٹھنے کے لیے گدی (براہِ کرم گدی کو گدھی نہ پڑھیں) شور مچانے کے لیے بگل ساتھ ہوتا تھا۔ سامنے سے گزرنے والے شائقین اور سپاہیوں کو چھلکے مارنے کیلئے ایک لفافے میں مالٹے ہوتے تھے اور ان سب ”سرگرمیوں“ کیلئے وافر مقدار میں وقت میرے پاس ہوتا تھا۔ مگر جب سے یہ میچ ”آن ایئر“ ہونا شروع ہوئے ہیں یعنی انھیں براہِ راست ٹیلی ویژن پر دکھایا جانے لگا ہے، تب سے میں گھر بیٹھ کر ہی میچ دیکھنے کا ٹھرک پورا کر لیتا ہوں اور بگل بجانے والوں، چھلکے مارنے اور کھانے والوں کو بھی ٹی وی اسکرین پر دیکھ لیتا ہوں (اور دل شاد کرتا ہوں)۔ تاہم میری دلچسپیاں ان لہو و لعب کے کاموں تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ میں ماہِ رمضان میں الحمد للہ شبینے کی محفلوں میں بھی شرکت کیا کرتا تھا۔ میں نے حج کا ارادہ بھی باندھا ہوا تھا۔ اب ان مقدس محفلوں اور مقامات میں شرکت اور دید یعنی شبینہ کی محفلیں اور حج کا فریضہ میں ٹی وی پر براہِ راست ادا ہوتے دیکھتا ہوں اور اپنا ایمان تازہ کر لیتا ہوں۔اور اب کچھ عرصے سے میرے اندر کچھ مزید تبدیلیاں بھی واقع ہوئی ہیں، جن میں ایک یہ ہے کہ میں نے شادی بیاہ کی محفلوں میں شریک ہونا بھی چھوڑ دیا ہے۔میچ کا ٹھرک تو ٹیلی ویژن اسکرین کے ذریعے پورا ہو جاتا ہے اور اب شادیوں میں عدمِ شرکت کی تلافی بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ہو جاتی ہے چنانچہ اگلے روز مہندی سے لے کر ولیمے تک کی ساکت اور متحرک تصویریں دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ میں شادی میں خود شریک تھا۔ یہ تصویریں دیکھ کر نہ صرف یہ کہ شادی میں عدم شرکت کا افسوس نہیں رہتا بلکہ بسا اوقات تو مسرت و انبساط کا یہ عالم ہوتا ہے کہ محسوس ہوتا ہے جیسے کسی اور کی نہیں، خود میری اپنی شادی ہو رہی ہے۔ ان تصویروں کے سامنے آنے سے ایک اور جو بڑا خلا پُر ہوا ہے وہ یہ ہے کہ بڑے سے بڑے ماڈرن گھرانوں میں بھی ان رسومات کا آغاز مخلوط اجتماعات سے ہوتا ہے مگر تھوڑی دیر کے بعد مردوں کی ٹولیاں علیحدہ ایک دائرے میں بیٹھ جاتی ہیں اور عورتیں الگ کسی کونے میں جا بیٹھتی ہیں۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔ تاہم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا شکریہ کہ اب ہم ڈائریکٹ زنان خانے میں جا پہنچتے ہیں۔ دلہن کا میک اپ ہوتے دیکھتے ہیں، اس کے حنا کے ہاتھ دیکھتے ہیں، اس کی سہیلیوں کی چہلیں نظر آتی ہیں، ڈھولک پر لڑکیوں کے گیت سنتے ہیں، بسا اوقات لُڈی ڈانس بھی دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ غرض کہ وہ سب کچھ دیکھتے ہیں جو پہلے صرف قریبی عزیز اور رشتے دار ہی دیکھ سکتے تھے، اور یوں یارانِ نکتہ داں کے لیے صلائے عام ہے۔ اس ضمن میں ایک سہولت یہ بھی حاصل ہوتی ہے کہ دلہن کی منہ دکھائی کیلئے کچھ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ یوں ہوتا ہے کہ چاند نکلتا ہے تو سارا عالم دیکھتا ہے اور فی سبیل اللہ دیکھتا ہے۔اور ہاں! ایک ضروری بات کا بیان تو میں بھول ہی چلا تھا اور وہ یہ کہ میڈیا کی بدولت نہ صرف یہ کہ ہم گھر بیٹھے شادی کی تمام رسومات میں شریک ہو جاتے ہیں، بلکہ ہمیں یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ مینو میں کیا کچھ تھا۔ کیونکہ پلیٹیں ہاتھ میں پکڑے خواتین و حضرات کی جو تصویریں شائع ہوتی ہیں ان میں پلاؤ کا انبار بھی نظر آتا ہے، اس پر مرغی کی ٹانگیں بھی دھری نظر آتی ہیں، بکرے کی بوٹیاں بھی نظر آ جاتی ہیں، کسی تصویر میں روغنی نان اور کسی میں سویٹ ڈش کی جھلک نظر آتی ہے اور یوں پورا مینو آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے، بلکہ نتھنوں میں اس کی خوشبو بھی محسوس ہوتی ہے جسے اشتعال انگیز بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔تاہم اس سارے معاملے کا ایک منفی پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ خواتین کے بارے میں جو یہ مشہور ہے کہ وہ کھاتی کم اور بولتی زیادہ ہیں، ان میں سے کم از کم کھانے والے معاملے کی تردید ہو جاتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے ڈائٹنگ وغیرہ کا محض ”شوشا“ کھڑا کیا ہوا ہے کیونکہ میں نے ان تصویروں میں ایک خاتون کی پلیٹ میں دو دو پاؤنڈ خوراک پڑی دیکھی ہے اور یوں کم کھانے کے علاوہ ایک پراپیگنڈا یہ بھی زائل ہو جاتا ہے کہ وہ بولتی زیادہ ہیں کیونکہ جن کی پلیٹ اور پیٹ بھرے ہوئے ہوں وہ بولا نہیں کرتے ، ہمیشہ کیلئے اپنی زبان بند کر لیتے ہیں۔خیر یہ تو ضمنی باتیں تھیں جو یونہی درمیان میں آگئیں۔ میں نے تو آخر میں میڈیا کیلئے دعائے خیر کرنی ہے اور ”جزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء“ کہنا ہے کہ اس کی بدولت اب کسی کو روزنِ دیوار سے جھانکنے کی ضرورت نہیں رہی اور یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ اسے تھوڑا سا مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ان تصویروں کی اشاعت کے باوجود جس تھوڑی بہت تشنگی کا احساس رہتا ہے اس کا ازالہ بھی ہو سکے۔ یہاں اس امر پر اظہار اطمینان ضروری ہے کہ ہمارے میڈیا میں معروف جوڑوں کی شادی کے بعد ان کی شادی کے فالو اپ بھی دیئے جاتے ہیں یعنی یہ کہ دلہن اب امید سے ہے، اب اس کا تیسرا مہینہ ہے، اب چھٹا مہینہ ہے، اب نواں مہینہ ہے اور اب ماشاءاللہ چاند سے بیٹے کی ولادت ہوئی ہے۔عوام کو اس تمام صورتحال سے باخبر رکھنا اپنی جگہ ایک اطمینان بخش امر ہے تاہم ابھی مزید انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے، یعنی عوام کو عائلی امور سے باخبر رکھنے کی حد تک تو ہمارے میڈیا نے اپنا قومی فریضہ بہ طریقِ احسن انجام دیا ہے مگر آج بھی شادی کے حوالے سے کچھ چیزیں چھپا کر رکھی جاتی ہیں جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو ہر معاملے میں عینی شاہد بنایا جائے۔ اس سلسلے میں آہستہ آہستہ پیش رفت ہو رہی ہے تاہم اس پیش رفت کی رفتار مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی