ڈاکٹر محبوب حسن
ولیم شیکسپیئرکا شمار انگریز ی کے عالمی شہرت یافتہ ادیبوں وفن کاروں میں ہوتا ہے۔ان کی پیدائش26اپریل 1564 ایک چھوٹے سے قصبے میں ہوئی۔ زندگی کے ابتدائی دنوں میں معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ نامساعد حالات کے سبب ان کی تعلیمی زندگی بری طرح متاثر ہوئی۔ ناسازگار حالات میں ان کارابطہ لندن کی مختلف تھیٹریکل کمپنیوں سے ہوا۔قدرت نے ولیم شیکسپیئرکو بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ اگر ان کے بے مثل ادبی کارناموں کوایک الگ دبستان کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ لندن میں دوران قیام شیکسپیئرنے وہاں کی مختلف تھیٹریکل کمپنیوں کے لیے بہت سے ڈرامے تحریر کیے۔ شاعری اور نثر دونوں میدانوں میں اپنی انفرادیت کا پرچم لہرایا لیکن ان کی کلیدی شناخت ایک ڈرامہ نگار کی حیثیت سے ہے۔
انھوں نے کل 38ڈرامے تخلیق کیے ہیں،جن میں "Macbeth""King Lear""Othelo" اور "Hamlet"بطور المیہ غیر معمولی شہرت سے ہم کنار ہوئے۔ شیکسپیئر کی ادبی عظمت کی روشن دلیل یہ ہے کہ ان کے ڈراموں کے ترجمے دنیا بھرکی زبانوں میں ہوئے۔ اردو میں احسن لکھنوی اور آغا حشر کاشمیری نے ولیم شیکسپیئر کے ڈراموں کے حوالے سے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ آغاحشر کاشمیری نے الفریڈ اور شیکسپیئر تھیٹریکل کمپنی کے تحت ان کے چند اہم ڈراموں کو اسٹیج پربھی پیش کیا۔
ہر چند کہ ولیم شیکسپیئر نے ٹریجڈی اورکامیڈی دونوں نوعیت کے ڈرامے تخلیق کیے ہیں،تاہم ٹریجڈی کے میدان میں ان کا فن اپنے عروج پرنظرآتا ہے۔ مختلف دبستان تنقید سے وابستہ انگریزی کے بلند پایہ نقادوں نے شیکسپیئرکی تخلیقی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ شاہکارالمیہ ڈرامہ"''Macbeth"ان کے فن کی معراج ہے۔ اس ڈرامے کی بنیاد خیروشر کے تصادم پر رکھی۔انگریزی کے بلند پایہ نقاد Edward Dowdenنے حق و باطل کی کشمکش کوہی ان کے ڈراموں کی کلیدی اساس قرار دیا ہے۔
انگریزی ادب میں وہ ایک روایت شکن فنکار کی حیثیت سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ جدت پسند تخلیقی مزاج کے حامل ولیم شیکسپیئر نے اپنی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کی بنیاد پر انگریزی ڈرامے کی رگوں میں جمالیاتی حسن کا تازہ لہو دوڑایا۔ انہوں نے اپنے پیش رو ڈرامہ نگاروں کی قائم کردہ روایات کو یکسرنظر انداز نہیں کیا بلکہ اسے نت نئی تخلیقی جہتیں عطا کیں۔المیہ ”میکبیتھ“ ان کی جدت پسندطبیعت اور تخیل کی بلندپروازی کا اعلی نمونہ ہے۔ اس میں خیرو شر کی کشمکش اورجرم وتشدد کی انتہا آشکارہے۔ڈرامے کی بنیادپر مختلف زبانوں میں بہت سی کامیاب فلمیں بھی بنیں۔ پانچ ایکٹ پر مشتمل ڈرامہ "Macbeth" میں کرداروں کی خاصی تعدادہے۔
ڈرامے کاآغازجنگ و جدال کے خطرناک ماحول سے ہوتا ہے۔بادشاہ ڈنکن کا ایک قریبی رشتہ دار میکڈونوالڈ اس کے خلاف بغاوت چھیڑ دیتا ہے۔ اس غیر متوقع صور ت حال سے ڈنکن بے انتہا فکرمند ہوتا ہے۔وہ اپنے دونوں سپہ سالار وںمیکبتھ اور بینکو کو اس بغاوت کو کچلنے کے لیے بھیجتا ہے۔دونوں میکڈونو الڈ کی فوج کے خلاف نہایت بہادری سے لڑتے ہوئےکامیاب ہوتے ہیں یہ دونوں میدان جنگ سے واپس آ رہے تھے کہ راستے میں ان کی ملاقات تین چڑیل بہنوں سے ہوتی ہے،جو میکبیتھ اور بینکو کے متعلق پیشین گوئی کرتی ہیں۔ پہلے وہ میکبیتھ کو مستقبل قریب میں اسکاٹ لینڈ کا راجہ بننے کی بات کہتے ہوئے اس کا خیرمقدم کرتی ہیں۔
بینکو کے بارے میں کہتی ہیں کہ وہ بذات خود راجہ نہ بن سکے گا لیکن اس کا بیٹاکبھی نہ کبھی اسکاٹ لینڈ کا حکمراں ضرور ہوگا۔ چڑیلوں کے دام فریب میں پھنس کر میکبیتھ اسکاٹ لینڈ کا راجہ بننے کا خواب دیکھتا ہے۔وہ ایک خط کے ذریعے اپنی بیوی لیڈی میکبیتھ کوبھی اس بات کی خبر دیتا ہے۔ یہ خبر پڑھتے ہی اس کی بیوی بے چین ہو جاتی ہے۔اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے وہ راجہ ڈنکن کے قتل کی خوف ناک سازش رچتاتی ہے۔ فتح کی اس خوشی میں ڈنکن میکبیتھ کے یہاں مہمان بن کر جاتا ہے۔اپنی بیوی لیڈی میکبیتھ کے باربار سمجھانے کے باوجود وہ ڈنکن کا قتل کرنے سے انکار کر تا ہے۔ لیکن اپنی بیوی کے بار بار اکسانے پر وہ اس گناہ عظیم کے لیے راضی ہو جاتا ہے۔ڈینرکے بعد راجہ ڈنکن کوآرام کرنے کے لیے ایک الگ کمرے کا انتظام کیا جاتا ہے۔
میکبیتھ تیز دھار ہتھیار کے ساتھ ڈنکن کی خواب گاہ میں داخل ہوتا ہے۔ خنجرکے ایک ہی وار سے راجہ کا سر دھڑ سے الگ ہو جاتاہے۔ لیڈی میکبیتھ گہری نیند میں سو رہے ڈنکن کی خدمت میں مامور دونوں ملازمین کے جسم پر نہایت چالاکی سے خون کے چھینٹے ڈال دیتی ہے، تاکہ قتل کا الزام ان پر لگ سکے۔ڈنکن کے قتل کے بعدمیکبیتھ بار بار اپنے جسم پر لگے خون کے دھبوں کو دھونے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ اپنے والد کے قتل کی خبرسنتے ہی اس کے دونوں صاحبزادے میلکم اور ڈونالبین انگلینڈ اور آئرلینڈ بھاگ جاتے ہیں۔
ڈنکن کے قتل کے بعد میکبیتھ اسکاٹ لینڈ کا حکمراں بن جاتاہے۔اس طرح چڑیلوں کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوتی ہے۔اسکاٹ لینڈ کا حکمراں بننے کے بعد میکبیتھ ظلم کی ساری سرحدیں پار کر جاتا ہے۔ہے۔ آخر کارمیکبیتھ میکڈف کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔حق کی فتح اور باطل کی شکست کے ساتھ ہی "Macbeth" اختتام پذیر ہوتا ہے۔
ولیم شیکسپیئر نے پوری دنیا میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ انہوںنے اپنے ڈراموں کی فنی وتکنیکی خوبیوں پر خصوصی توجہ صرف کی ۔ولیم شیکسپیئرکے ڈرامے پلاٹ وکردار کی چستی، مکالمے وزبان و بیان کی دلکشی اور اسلوب وطرز بیان کی ندرت کے اعتبار سے اپنا جواب نہیں رکھتے۔ گر چہ انہوںنے ڈرامہ نگاری کے فن پر کوئی مستقل کتاب نہیں لکھی لیکن "Whole world is stage" جیسے مقولے کو اپنی تخلیقی بصیرت کا ذریعہ تصور کیا۔ ارسطو کے قائم کردہ اصول ”وحدت ثلاثہ“پر عمل کرتے ہوئے اپنے تخلیقی حسن کو آب و تاب عطا کی۔
ان کے ڈراموں میں وحدت زماں ، وحدت مکاں اور وحدت عمل کا خوبصورت امتزاج نظر آتا ہے۔ کرداروں کی تشکیل میں نیکی وبدی اور خیروشر دونوں پہلوؤں کو ملحوظ خاطر رکھا ،یہی وجہ ہے کہ ان کے مرکزی کردارفطری انداز میں ناظرین کو اپنی جانب متوجہ کر نے میں کامیاب ہوئے۔
کارلائل نے ولیم شیکسپیئرکو فطرت کانباض کہا ۔ہ ”میکبیتھ“ کی تخلیقی انفرادیت کی ایک خاص وجہ اس کی جاندار کردار نگاری اور مکالمہ نگاری ہے۔ پیش نظر ڈرامے کے کردار ناسازگار حالات سے گھبراتے نہیں بلکہ اس کے اندر بے رحم وقت سے آنکھ ملانے کا حوصلہ موجود ہے۔ کرداروں کی زبان سے ادا ہونے والے مکالمے ان کی ذہنی کیفیت اور ان کے طبعی مزاج ومیلانات کے عین موافق ہیں۔ اپنی فکری بصیرت، فنی ادراک،سماجی شعور، سیاسی آگہی اورتخلیقی توانائی کو بروئے کار لاتے ہوئے شیکسپیئر نے انگریزی ادب کو کئی لازوال کردار دیے ۔
شیکسپیئرنے چڑیلوں کوتخریبی قوت کی علامت کے طور پر پیش کیا ، یہ ایک فطری امر ہے کہ نیک اور وفادار انسان حد سے بڑھی ہوئی امیدولالچ کے سبب بربادی وتباہی کے خونی پنجے کا شکارہو جاتا ہے۔شاد عظیم آبادی نے حد سے بڑھی ہوئی امیدوں کو طلسمی سانپ سے تشبیہ دی ۔ شیکسپیئر نے اپنے لازوال کردار میکبیتھ اور لیڈی میکبیتھ کے توسط سے زندگی کی اس تلخ حقیقت کو آئینہ دکھایا۔Thrillاور Suspenceکی فضامیں سانس لینے والے یہ کردار انسانی زندگی کی آفاقی قدروں کی فلسفیانہ توضیحات پیش کرتے ہیں۔ ڈرامے کا ہیرومیکبیتھ اپنے گناہوں کے شعلوں میں جھلسنے پر مجبور ہوتا ہے تو لیڈی میکبیتھ اپنے گناہوں کا بوجھ برداشت نہیں کر پاتی۔میکبیتھ اضطرابی کیفیت میں کبھی خنجر کو ہوا میں لہراتے ہوئے دیکھتا ہے توکبھی نیندکی حالت میں یکایک چیخ اٹھتاہے۔
شیکسپیئر کا یہ ڈرامہ کشمکش حیات کی ایک نئی شعریات پیش کرتا ہے۔ ڈرامے میں داخلی تصادم پیدا کرنے کے لیے اساطیری عناصر کو شعوری طور پرشامل کیا۔در اصل ولیم شیکسپیئرکے عہد میں دیومالائی و اساطیری عناصر کے استعمال کا چلن عام تھا۔ اس ڈرامے میں شیکسپیئر نےاپنی شاعرانہ خوبیوں سے بھی خوب اجاگر کیا۔انھوں نے لندن کے تہذیبی اور روایتی لوک گیتوں سے خاطر خواہ استفادہ کیا ہے۔
اس کے عہد میں کورس ڈراموں کااہم حصہ ہوا کرتا تھا،جسے چند کردار اسٹیج پر ایک ساتھ گاتے تھے۔ شیکسپیئرنے ”میکبیتھ“ میں کورس کا خوبصورت اہتمام کیا ۔ اس ڈرامے کے آغاز میں چڑیل بہنیں "Fair is foul and foul is fair"کوبطور کورس گول گول دائرے میں گھومتے ہوئے گاتی ہیں۔ اسے ”میکبیتھ“ کے "کی نوٹ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔