افغانستان میں شعر و ادب کی تاریخ پر لمز یونیورسٹی کی استاد کا ایک تحقیق شدہ مقالہ پروفیسر معین نظامی صاحب کے توسط سے مجھ تک پہنچا ۔یہ دو چار برس پیشتر کی بات ہے۔جو حقائق اس میں بیان کیے گئے تھےوہ چونکا دینے والے تھے اس وقت اس حوالے سے کالم لکھے تھے۔یہ خوں چکاں حقائق آج کل ایک بار پھر مجھے یاد آتے ہیں۔کہ کیسے شعر کہنے والی عورتوں کو ان کے اپنے سگے رشتوں نے قتل کر ڈالا۔
افغانیوں کی سوچ اور نفسیات پر غور کریں اور اس سرزمین پر اتری بے برکتی اور جہالت پر سوچیں تو ذہن میں ایک ہی بات آتی ہے کہ جو ظلم انہوں نے اپنی عورتوں اور بچوں پر کیے ان پر علم روشنی اور زندگی کے دروازے جس طرح بند رکھے تو اس زمین پر بے برکتی ہی اترنی تھی۔ وہ بے برکتی ہے جس کے اثرات پاکستان تک بھی آتے ہیں۔
افغانیوں نے اپنی عورتوں کو ہمیشہ دبایا انہیں بنیادی حقوق سے محروم رکھا۔ ان کو علم کی روشنی سے دور رکھا ان پر زندگی کے کئی روشن دروازے بند رکھے ۔ عورتوں کو لکھ کر اظہار کرنے کی آزادی نہیں تھی ۔ طالبان کے پہلے دور میں گولڈن نیڈل کے نام سے اسکول بنایا گیا تھا جس میں افغانی لڑکیاں بظاہر کشیدہ کاری سیکھتی تھیں لیکن اس کشیدہ کاری کے پردے میں دراصل وہ اپنی تخلیقی سوچ کا اظہار کرتی تھیں۔ یہ ایک چھوٹا سا شعر و شاعری ادب سے جڑی سرگرمیوں کا مرکز تھا ۔انہی میں ایک افغانی شاعرہ نادیہ انجمن تھی جو شعر کہتی تھی۔ تاریک گلاب کے نام سے اس کی کتاب بھی منظر پر آئی جب اس کے شوہر کو پتہ چلا تو ظالم شخص نے اس جرم میں نادیہ انجمن کو قتل کر دیا انسان سوچ کر ہی کانپ جاتا ہے ۔
افغان سرزمین حساس عورتوں شعر کہنے والی خوبصورت سو چ خواتین کی سرزمین ہے مگر افغان مردوں کے ڈی این اے کی کیمسٹری بالکل مختلف ہے ۔ انہیں جنگ و جدل سے محبت ہے ۔ زندگی کے ملائم ریشمی اور نرم منظروں میں ان کا دم گھٹتا ہے۔شعر و شاعری کے ذریعے اور لکھ کر اپنی ذات کا اظہار کرنے والی بہت سی عورتوں کو افغانستان میں ان کے اپنے سگے رشتوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔دنیا اتنی بدل چکی ہے مگر اب بھی طالبان بچیوں پر تعلیم کے دروازے بند کر کے جہالت کا بدترین مظاہرہ کر رہے ہیں۔
اور جہاں عورت ظلم سہتی ہے ،وہ خوش نہیں ہوتی، اس کو سوچنے بولنے اظہار ذات کا موقع نہیں ملتا، وہاں کبھی بھی برکت نہیں ہوتی۔ مجھے لگتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے جیسے برکت رخصت ہو گئی ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے ساتھ بہتر ہے۔اس حدیث پاک کی روشنی میں افغان جنگجوؤں کا کردار دیکھ لیں۔ہمارے زخم ہمیں بھولنے نہیں دیتے کہ افغانی اپنے کردار میں کس قدر احسان فراموش ہیں۔ لاکھوں افغانی پناہ گزینوں کو اپنی زمین پر پناہ دی اور یہ ہماری ہی پیٹھ پر خنجر گھونپ رہے ہیں۔
تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سلگتی آگ ٹھنڈی نہیں ہو پارہی ۔پاکستان دشمن کے وار کا مقابلہ بھی کر رہا ہے اور سفارتی ہنر بھی آزما رہا ہےکیونکہ معاملات جنگوں سے نہیں مکالموں سے حل ہوتے ہیں۔اب ایران نے بھی ثالثی کی پیشکش کی ہے ترکیہ بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے دوست ملکوں کی ثالثی کے باوجود معاملات طے ہونے کے بجائے بگڑتے جا رہے ہیںاور اس کا واضح اظہار گزشتہ دنوں اسلام آباد میں خودکش دھماکے سے ہوا۔اس سے افغانی دہشت گردی کے اثرات جوپاکستان کے سرحدی علاقوں تک محدود تھے دارالحکومت اسلام آباد کی کچہری میں ایک خودکش دھماکہ کر کے افغانستان نے پاکستان کے ساتھ ہونے والے تمام امن معاہدوں کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا۔
ایک چشم کشا رپورٹ نظر سے گزری 2020 سے اب تک جتنے معاہدے افغان طالبان نے کیے ہیں کسی پر بھی انہوں نے عمل نہیں کیا ۔امریکہ کے ساتھ معاہدہ ہوا۔ پاکستان کے ساتھ معاہدہ ہوا ۔ترکیہ اور یو اے ای کے ساتھ معاہدے ہوئے۔ مگر کسی معاہدے کی پاسداری طالبان حکومت نے نہیں کی۔ یہ وہ معاہدے ہیں جن کی پاسداری کے لیے افغانستان نے ان ملکوں سے بھاری فنڈز لیے۔
افغانستان کا سماجی تعلیمی معاشی انفراسٹرکچر دہائیوں کی جنگوں میں تباہ ہو چکا ہے۔ افغانستان امریکہ سے یو این سے ملین ڈالرز امداد لے رہا ہے لیکن اس امداد سے افغانستان کے تعلیمی اور سماجی انفراسٹرکچر میں کہیں بہتری دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ اس پیسے کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔اس کے شواہد صرف پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی تحقیقی ٹیم نے بھی یہی شواہد اکٹھے کیے ہیں۔
اسلام آباد میں ہونے والے خود کش دھماکے کے بعد پاکستان نے بھی افغانستان میں واضح پیغام دیا ہے کہ وہ افغانستان کے شر پسندوں کو کھل کر جواب دے گا۔ اس وقت افغانستان میں جن طالبان کی حکومت ہے اس میں 80 فیصد جنگجو طالبان ہیں پھر اس حکومت کے سیٹ اپ میں افغانستان کے دوسرے گروہوں کی نمائندگی تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان کے دشمن کی گود میں بیٹھ کر اپنے برادر اسلامی ملک کے خلاف کارروائیاں کرنے والے بے سمت بھٹکے ہوئے طالبان جنگجوؤں کو کاش کوئی ثالث دوست ملک آگ کے اس کھیل سے روک سکے۔
کاش کوئی انہیں سمجھا سکے کہ ملین ڈالرز کی امداد کو اپنے ملک کے انفراسٹرکچر کو بہتر کرنے کے لیے استعمال کرو ۔اسکول کھولو، بچیوں پرا سکولوں کے دروازے بند نہ کروا علم کی روشنی سے اپنےتاریک راستوں کو منور کرو ،اپنی عورتوں کی تکریم کرو اور زندگی کے دروازے ان پر بند مت کرو تاکہ کل کو کوئی نادیہ انجمن جیسی شاعرہ اظہار ذات کرنے پر اپنے شوہر کے ہاتھوں قتل نہ ہو۔
کاش اب کی بار ترکیہ یو اے ای یا ایران کوئی ثالث ملک ،ان احسان فراموش طالبان کو احساس دلاسکے کہ امن کے ساتھ رہنا دوستی رواداری کا مظاہرہ کرنااور مکالمے کے ذریعے معاملات کو حل کرنا کمزوری نہیں بلکہ اصل طاقت ہے۔
کاش اب کی بار روشنی جہالت کی تاریکی میں دراڑ ڈال سکے کاش۔۔!