ترمیم سے جو اوپر تلے ہونا تھا، ہو چکا، جو اوپر ہوئے انہیں مبارک، جو مستعفی ہوئے ان کا بھی بھلا، اور جن کا جی اوپر تلے ہو گیا ان کیلئے ہم بےچارے نیک تمناؤں کا اظہار ہی کر سکتے ہیں۔ خیر، سیاست میں گرگٹ کے رنگ اب عالمی مسئلہ بن چکا، یہ سب محض پاکستان ہی میں نہیں۔ چلئے، ایک نئے رنگ کی بات کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر پہلے لاہور کی تعریفوں کے پُل عام تھے پھر دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کے حسن و عشق کی باتیں بھی سامنے آنے لگیں۔ ہاں، یہ کوئی بری بات نہیں، شہروں کے درمیان گر مقابلہ حُسن کے بازار گرم ہوں تو اس میں مضائقہ نہیں، لیکن ذائقے کا فرق بہرحال مدنظر رہنا چاہئے۔ ناروے میں دیکھا کہ وہاں ضلعی حکومتیں بھلائی اور برائی میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی ہیں۔بیتے دنوں میں ایک دوست سے رابطہ ہوا تو اس نے یاد کرایا ’’ماضی میں ایک دفعہ آپ نے لاہور کو پاکستان کا دل، کراچی کو دماغ اور کشمیر کو احساس لکھا!‘‘اُس دیارغیر میں بسنے والے کی مہربانی کہ اس نے یاد رکھا ورنہ یہ کچھ سارے ہی لکھتے ہیں۔
اجی، کراچی اور لاہور میں بڑا فرق یہ ہے: میں دونوں شہروں کو کم جانتا ہوں یا زیادہ لیکن کراچی کا وہ سب میں نہیں لکھ سکتا جو لکھا جانا چاہیے، اور لاہور کا سب کچھ لکھنے کا اجازت نامہ جیب میں ہے۔ بہرحال دونوں ہی شہر بڑے دل اور مضبوط اعصاب والے ہیں مگر دونوں میں لاہوریوں اور کراچی والوں کی تعداد بتدریج کم ہوتی جا رہی اور مہمان میزبان بنتے جارہے ہیں تاہم لاہور آج بھی مونو کلچر شہر ہے بھلے ہی سیاسی کلچر میں واضح تبدیلی آ چکی جسے دیکھنے کیلئے عام نظر کافی ہے کسی چشم بینا کی ضرورت نہیں۔ لہور، لہور اے! رہی بات کراچی کی تو کراچی مِنی پاکستان تھا اور مِنی پاکستان ہے۔ کراچی ایئرپورٹ پر اترتے ہی آپ کو دھنک رنگ احساس اور کہکشاں کا خیال آتا ہے، پختون، پنجابی، بلوچ، اپر سندھ اور کراچیانہ دلبری کے واضح رنگ ملتے ہیں اور کُل ملا کر یہ پاکستان کا رنگ بن جاتا ہے، یہ ہے کراچی۔ کراچی کو دیکھ کر پورے پاکستان اور پاکستان کو دیکھ کر کراچی کی سمجھ آجاتی ہے، ان دونوں میں ایک ٹھیک، تو سب ٹھیک!
سیاسی و غیر سیاسی آب و ہوا اور چیلنجز نے کراچی کے ایکوسسٹم کو پیچیدہ اور رنجیدہ بنا رکھا ہے، اور میں چھٹی کلاس میں تھا جب پہلی دفعہ گیا، اور آج تک، جب گیا اس کے مخصوص ایکوسسٹم اور چیلنجز کو ایک سا پایا ، دیکھتے دیکھتے بڑے فرق کا دور ختم ہو کر موازنے کا دور شروع ہو گیا۔ سب باتیں اور فلسفے اپنی جگہ کراچی ایک ساحل ہی نہیں سمندر بھی ہے۔ روشنیوں کا شہر کہلانے والے اس نگر کی لہروں نے بڑی لاشیں بھی اچھالیں اور بھاری بھرکم دکھوں میں ڈبویا بھی خود کو۔۔ لاہور اپنی صدیوں کی ثقافت میں ابھرتا چلا گیا مگر کراچی کو ثقافتوں اور ریاستوں نے ڈبویا بہت ہے۔ پھر بھی کراچی بہادر ہے اور صابر بھی۔ کسی نے اس سے دارالحکومت کا درجہ چھینا اور کسی نے حکومتیں۔ وہاں کی آب و ہوا کراچی کو لاہور کی طرح سرسبز و شاداب تو نہیں بنا سکتی لیکن اکنامکس کی شادابی اور ادب کی دستیابی پر کراچی نے آنچ نہیں آنے دی ، سڑکوں کو کشادہ اور کراچی والوں کو ایک صفحہ پر آمادہ کرنا کبھی آساں نہیں رہا۔ پانی کی کمیابی اور ارضی عناصر کے کسیلے ذائقوں نے کراچی کے باغ و بہار اور باسیوں کو صحیح طرح سیراب ہی کب ہونے دیا ، ایک ایک پھول اگانے اور پتہ بچانے پر لاگت ہی بہت رہی پھر بھی کراچی کو سلام کہ کھانوں کے ذائقے اور زندگی کے رنگ نہیں بدلے!
ماضی میں کراچی گیا تو ڈی جی رینجر زجنرل بلال اکبر نے جو دکھایا وہ بھولا نہیں۔ ہاں، بھلا ہو کراچی کے میئرز کا نعمت اللہ ہوں، مصطفیٰ کمال یا پھر مرتضٰی وہاب انہوں نے کراچی کا حق ادا کرنے کی اپنے تئیں بھرپور کوششیں کیں مگر ذہن نشین رہے، لاہور کو اپنے دست مبارک سے سنوارنے اور نکھارنے والے ایک وقت میں بیک وقت وزرائےاعظم اور وزرائےاعلیٰ رہے ہیں جو خود لاہوریے ہیں اور سلسلۂ شرفا سے بھی۔ کہاں مئیرز کی حقِ شناسی اور کہاں وزرائےاعلیٰ و وزرائےاعظم کی فرض شناسی ۔ گویا یہ ایک فرق بھی بڑا فرق رہا ہے۔ ہفتہ قبل، ممبر قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل کے صاحبزادہ عباس پٹیل کے ولیمہ پر گئے تو کراچی میں وزیر اعلیٰ کی تصاویر تو کیا دیکھنی تھیں بلاول بھٹو کی بھی آٹے میں نمک برابر نہ تھیں، اور لاہور میں وزیراعلیٰ کی تصاویر نمک میں آٹا برابر سے تجاوز کر رہی ہوتی ہیں۔ یہ ہوتا ہے ’کام‘ اور اسے کہتے ہیں تجاوزات خیالی!
بھلا ہو کراچی والوں کا لاہوریوں کو کسی بہانے کراچی یاترا کی دعوت دیتے رہتے ہیں، اللّٰہ کرے یہ سلسلے توانا رہیں میثاقِ جمہوریت کی طرح، اور پاکستان کھپے! ولیمہ کیا تھا ایک آل پارٹی کانفرنس ہی سمجھئے، اور نظر آرہا تھا پٹیل صاحب کو لوگوں سے اور لوگوں کو پٹیل صاحب سے پیار ہے۔ اسمبلی اور غیر اسمبلی سیاستدانوں کی اس گلیکسی میں اسپیکر قومی اسمبلی اور مولانا فضل الرحمن یا سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اور تمام صوبوں کے کچھ سیاسی اکابرین سے ملاقات ہو گئی تاہم بڑے ہماری پہنچ سے بڑے دور تھے۔ تقریب میں ہم داخل ہو رہے تھے تو چوہدری منظور اور قمرزمان کائرہ نکل رہے تھے، ہم حسبِ عادت نظر اٹھا سکے نہ ملا سکے۔ آخر ، نکلنے لگے تو آئی جی پولیس سندھ اور پھر سے پٹیل صاحب سے سامنا ہوا، نکلتے ہوئے من میں یہی خیال تھا کہ ولیمہ کا دلکش اکٹھ ’’پری ستائیسویں ترمیم‘‘کی بیٹھک کا حسین نظارہ بھی تھا۔ خدا کرے کہ ان ترامیم کا آپس ہی میں بانٹے جانے والے اختیارات و انتظامات کے علاوہ کراچی و لاہور بلکہ پورے ملک میں وقار و افتخار کے سائے میں بسنے والی رعایا کو بھی کبھی فائدہ ہو!