• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاست میں شاید کبھی کوئی لمحہ اتنا فیصلہ کن نہ رہا ہو جتنا وہ گھڑی جس میں 27ویں آئینی ترمیم پارلیمان سے منظور ہوئی اور باقاعدہ قانون بن کر نافذ ہوگئی۔ یہ وہ موڑ ہے جس نے نہ صرف ریاست کے اندر طاقت کے توازن کو نئے سرے سے ترتیب دیا بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے تاریخی مؤقف کو بھی ایک طرح سے تسلیم کر لیا کہ اس ملک میں مستقل سیاسی استحکام کا راستہ مضبوط، شفاف اور غیر جانبدار آئینی نظم سے ہی ہو کر گزرتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے نقطۂ نظر سے یہ ترمیم محض ایک قانونی شق نہیں، بلکہ ایک سیاسی اعتراف ہے،اعتراف اس حقیقت کا کہ اس ملک کی سیاست کو تین دہائیوں تک عدالتی یک طرفہ فیصلوں، جوڈیشل ایکٹوازم اور مخصوص نوعیت کے احتساب نے بری طرح متاثر کیا ہے، اور اب تبدیلی کا وقت آ چکا ہے۔27ویں آئینی ترمیم منظور ہونے کے بعد ایک نئے عہد کا آغاز ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیے اس ترمیم کی حیثیت اس لیے بھی خصوصی ہے کہ یہ ترمیم ماضی کے ان زخموں کو مندمل کرنے کی طرف پہلا قدم ہے جو عدالتوں کے غیر متوازن رویوں نے اس جماعت کو دیے۔ یہ وہی پیپلز پارٹی ہے جس کی قیادت کو 90 کی دہائی میں نہ صرف سیاسی انتقام کا سامنا کرنا پڑا بلکہ عدالتی فیصلے بھی اکثر سیاسی خواہشات کے تابع نظر آتے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف مقدمات ہوں یا آصف علی زرداری کی طویل نظربندیاں، ہر مرحلے پر عدالت کے فیصلوں کا وزن انصاف سے زیادہ سیاست کے پلڑے میں دکھائی دیتا تھا۔

یہی وہ پس منظر ہے جس میں 90 کی دہائی کا بدنامِ زمانہ ’’جسٹس ملک پاسپورٹ‘‘ واقعہ آج بھی ہمیں ماضی کے اندھیروں کی یاد دلاتا ہے۔ جب ایک ایسے جج کے فیصلے کے تحت آصف علی زرداری کو قصوروار قرار دیا گیا، اور پھر بعد میں سامنے آنے والے شواہد نے ثابت کیا کہ وہ جج نہ صرف سیاسی اثرات میں گھرا ہوا تھا بلکہ سفارتی پاسپورٹ کے حصول جیسے غیر مناسب فوائد کامبینہ خواہاں بھی تھا، تو سوال یہ اٹھا کہ آخر انصاف کا یہ نظام کس کے لیے تھا؟ اور کس کے خلاف تھا؟ اس واقعے نے پوری پیپلز پارٹی کو یہ احساس دلایا کہ عدالتی مشینری کس طرح طاقتور سیاسی دھڑوں کے یک طرفہ بیانیے کو قانونی لبادہ پہنانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔اسی تاریخی تسلسل میں 27ویں ترمیم کی منظوری پیپلز پارٹی کے لیے محض ایک قانونی تبدیلی نہیں بلکہ ایک علامتی کامیابی بھی ہے۔ اس ترمیم نے ججوں کے تقرر کے طریقہ کار، عدالتی دائرہ اختیار اور آئینی معاملات کی تشریح کے عمل کو نئی بنیادوں پر استوار کیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے برسوں سے یہ مؤقف اپنایا ہوا تھا کہ عدالتی نظام کو اندرونی اور بیرونی سیاسی اثرات سے آزاد کیا جائے، اور آج یہ بات قانون میں ڈھل چکی ہے۔ اس ترمیم کے تحت آئینی عدالت کا قیام، ججوں کے تبادلوں میں شفافیت اور صوبائی نمائندگی کا متوازن کردار وہ عناصر ہیں جن کے لیے پیپلز پارٹی کئی برسوں سے جدوجہد کرتی رہی۔اگرچہ پیپلز پارٹی نے کچھ نکات پر اصولی تحفظات کا اظہار کیا تھا،خصوصاً اٹھارہویں ترمیم کے تسلسل اور صوبائی خودمختاری کے دفاع کے حوالے سے،لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ 27ویں ترمیم کی حتمی شکل میں صوبوں کے حقوق کو چھیڑا نہیں گیا۔ یہ بات پیپلز پارٹی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی تھی، اور اب ترمیمی قانون میں 18ویں ترمیم کی روح برقرار رہنے سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ کم از کم اس محاذ پر جمہوریت کے خلاف کوئی شب خون نہیں مارا گیا۔ اس کامیابی کا سہرا پیپلز پارٹی کی اصولی سیاست، اس کی مزاحمت اور اس کی مذاکراتی بصیرت کے سر جاتا ہے۔لیکن 27ویں ترمیم کی منظوری کے بعد اب اصل سوال یہ ہے کہ یہ قانون ملک کے سیاسی اور عدالتی ماحول میں کیا تبدیلی لائے گا؟ پیپلز پارٹی کے مطابق اب وقت آگیا ہے کہ عدالتیں اپنی اصل ذمہ داری یعنی آئینی نگرانی اور غیر جانبدار انصاف تک محدود رہیں۔ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ جب عدالتیں سیاسی فیصلوں میں کردار ادا کرتی ہیں تو نہ صرف سیاست عدم استحکام کا شکار ہوتی ہے بلکہ خود عدلیہ کا وقار بھی متاثر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی پی پی نے ہمیشہ کہا کہ عدالتیں فیصلہ کریں مگر وہ فیصلہ آئین کے مطابق ہو، جذبات یا دباؤ کے تحت نہیں۔اس ترمیم کے بعد اب سیاسی جماعتوں کے لیے یکساں مواقع پیدا ہونے کی امید ہے۔ یہ ملک اس دوہرے معیار کا بہت نقصان اٹھا چکا ہے جس میں ایک رہنما کے خلاف چھوٹا سا الزام بھی سیاسی پھانسی کا باعث بن جاتا تھا اور دوسرے رہنما کے خلاف ٹھوس شواہد بھی وقت، طاقت یا روابط کی دھول میں گم ہو جاتے تھے۔ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ اس ترمیم کے بعد کوئی جج اب کسی طاقت یا دباؤ کے تحت اپنے آپ کو ’’مسلط‘‘ نہیں کر سکے گا، جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا۔ آئینی عدالت کا قیام اور شفاف تقرری کا نظام سیاسی انتقام اور فیصلوں کے اس دوہرے معیار کو ختم کرنے کی سمت ایک بڑی پیشرفت ہے۔لیکن پیپلز پارٹی یہاں پر نہیں رک سکتی۔ قانون بن گیا ہے، مگر اصل امتحان اس کا نفاذ ہے۔ اگر اس ترمیم کو اسی سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ نافذ کیا گیا جس کے ساتھ اسے منظور کیا گیا، تو پاکستان کا سیاسی مستقبل زیادہ روشن ہو سکتا ہے۔ مگر اگر اس ترمیم کو بھی صرف کتاب کے ایک صفحے تک محدود رکھا گیا، یا اس پر عملدرآمد کے راستے میں روایتی ادارہ جاتی مزاحمت کھڑی ہوئی، تو یہ اصلاح محض ایک کاغذی خواہش بن کر رہ جائے گی۔پیپلز پارٹی آج بھی وہی بات دہرا رہی ہے جو ہمیشہ کہتی آئی ہے’’ریاست کو سیاست سے اوپر رکھو، عدالت کو آئین کا وفادار بناؤ، اور صوبوں کو ان کا حق دو۔ اگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے تو یہی راستہ ہے‘‘۔27ویں آئینی ترمیم اب ریاست کے پاس ایک نیا موقع ہے،موقع اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا، اپنے زخم بھرنے کا، اور مستقبل کو بہتر بنانے کا۔ پیپلز پارٹی اس موقع کا خیرمقدم کرتی ہے، مگر ساتھ ہی اس پر کڑی نظر بھی رکھے گی کہ کہیں وہی پرانی قوتیں اسے اپنی خواہشات کے مطابق موڑنے کی کوشش نہ کریں۔ کیونکہ اس ملک کی سیاست نے بہت سا وقت ضائع کیا ہے۔ اب مزید غلطیوں کی گنجائش نہیں۔

تازہ ترین