حال ہی میں کیے گئے ایک مطالعے میں انکشاف ہوا ہے کہ کھانے کی بیماریاں جیسے اینوریکسیا، بلیمیا اور بنج ایٹنگ ناصرف فوری بلکہ طویل المدتی صحت کے لیے بھی شدید خطرات کا باعث بنتی ہیں۔
بی ایم جے میڈیسن میں شائع تحقیق کے مطابق یہ خطرات تشخیص کے پہلے سال میں سب سے زیادہ ہوتے ہیں، لیکن کئی سال تک برقرار رہ سکتے ہیں۔
تحقیق میں مانچسٹر یونیورسٹی کے محققین نے 10 سے 44 سال کی عمر کے 24 ہزار 700 افراد کے طبی ریکارڈ کا تجزیہ کیا اور انہیں 4 لاکھ 93 ہزار افراد سے موازنہ کیا جنہیں کھانے کی بیماری نہیں تھی۔
مطالعے کے نتائج کے مطابق ابتدائی سال میں خطرات میں گردے کی ناکامی کا خطرہ چھ گنا زیادہ، جگر کے امراض کا خطرہ تقریباً سات گنا زیادہ، اوسٹیوپروسس کا خطرہ چھ گنا زیادہ، دل کی ناکامی کا خطرہ دوگنا، ذیابیطس کا خطرہ تین گنا شامل ہیں۔ ڈپریشن، خود کو نقصان پہنچانے اور خودکشی کے امکانات میں بھی نمایاں اضافہ ہوتا ہے جبکہ قبل از وقت موت کا مجموعی خطرہ چار گنا سے زائد اور غیر فطری وجوہات جیسے خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
مطالعے میں یہ بھی سامنے آیا کہ پانچ سال بعد بھی گردے اور جگر کے امراض کے امکانات 2.5 سے 4 گنا زیادہ رہتے ہیں، قبل از وقت موت کا خطرہ برقرار رہتا ہے، ایک دہائی بعد بھی خودکشی کا خطرہ تقریباً تین گنا زیادہ رہتا ہے۔
ماہرین نے کہا ہے کہ یہ نتائج اس بات کی ضرورت کو واضح کرتے ہیں کہ کھانے کی بیماریوں کے شکار افراد کی طویل المدتی نگرانی ضروری ہے، ان کی آگاہی اور تعلیم میں اضافہ کیا جائے، ابتدائی طبی دیکھ بھال فراہم کرنے والے افراد کو مضبوط سپورٹ فراہم کی جائے تاکہ مریضوں کو مسلسل مدد مل سکے۔