• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر عمران خان مقبولیت کا سدباب تو بُری خبر کہ ناکامی منہ چڑا رہی ہے ۔ اڈیالہ جیل سے کچھ فاصلے پر عمران خان کی بہنوں کیساتھ پُرتشدد سلوک شرمناک۔ سڑک کنارے بیٹھی پُرامن معمر خواتین کی تضحیک سےبے وجہ بدنامی ہوئی۔ سورہ التین کی آیات نمبر4اور 5’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت ( احسن التقویم ) پر قائم کیا، اور وہ ہے کہ گراوٹ کی انتہا تک پہنچ گیا ( اسفل سفلین )‘‘۔ وطنی تاریخ گواہ ! جس کسی نے طاقتور مخالف بیانیہ اپنایا ، سیاست کو چار چاند لگ گئے، کئی بار قریب الموت سیاسی تن میں ایسی جان پڑی کہ مخالف کی جان کے درپے ہو گئی ۔ آج کئی بھگوڑے یوٹیوبرز کی ہزاروں ڈالرز کی کمائی کے پیچھے بھی یہی راز پنہاں ہے ۔

عمران خان نے جیسے ہی جنرل باجوہ کو للکارا پلک جھپکتے زمین بوس سیاست کو پَر لگ گئے ، یکایک بلندیوں کو چھونے لگی ۔ یہ سب تیرا فیض تھاباجوہ کہ عمران خان سیاست کی دھاک بیٹھ چکی ہے ، آج بلاشرکتِ غیرے ملکی سیاست کا مدارالمہام ہے۔ تین سال نو ماہ سے شد و مد کیساتھ عمران خان سیاست کا مکو ٹھپنے کی جستجو میں ملک کی چولیں ہل چکی ہیں ، جبکہ عمران خان سیاست ایسا دردِ سر بن چکی کہ درد کچھ اور بڑھ گیا میں نے جو کی دوائے دل۔ ستر برس سے مملکت تجربات کی بھینٹ چڑھ رہی ہے ۔ مملکت ایک قدم آگے بڑھا نہیں پاتی کہ دو قدم پیچھے پھسل جاتی ہے ، دائروں کا تھکا دینے والا سفر نہ ختم ہونے کو، جن لوگوں کو ریاست نے مرتبے اور مناصب دیئے ، کیا ان کے ہاتھوں ملک و قوم کا بھلا ہوا ؟ ۔

ایک عرصہ سے عمران خان کی اپنی بہنوں سے ملاقات بند تھی۔ بہنوں کی نفسیاتی کیفیت کا تقاضہ ، سڑک کنارے بیٹھ کر اپنی مایوسی میں آسودگی ڈھونڈتی تھیں ، بھڑاس نکالتی تھیں ۔ ملاقات کی آس میں اڈیالہ جیل سے دور سڑک کنارے بیٹھنا کیونکر جرم ٹھہرا ؟ ایک انسانی مطالبے کے عوض قانون کے محافظوں کا 70سالہ خاتون سے نامناسب و ناروا سلوک کتنی نیک نامی لایا ؟ رکھوالوں کی اس کارروائی کا فائدہ کیا ہوا ۔ نادان د وستوں کے ہاتھوں عمران خان کی مقبولیت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، دوسری طرف عوام الناس کا غم و غصہ مزید بڑھ گیا ہے۔ کل رات رانا ثناء اللہ بھی دفاع کرنے سے قاصر تھے۔ بدقسمتی کہ، اس واقعہ نے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ اور نظام کیخلاف خلقِ خدا کی نفرت کو مہمیز دی۔ موجودہ نظام کے گن گانے والے مین اسٹریم میڈیا کے اینکرز، تجزیہ کار، حمایتی سوشل میڈیا ولاگرز بھی مذمت پر مجبور ہو گئے۔ کرکٹ میچ کے دوران 1977 ء میں بیگم نصرت بھٹو کو سر پر ڈنڈا مار کر لہولہان کرنیوالے ، 2000 ء میں بیگم کلثوم نواز کی گاڑی بذریعہ ہائی رائز کرین اٹھا کر GOR لے جا کر حوالات بند کرنیوالے ، عید سے چند گھنٹے قبل آدھی رات کو فریال تالپور کو بیڈ روم سے گرفتار کرنیوالے ، کراچی کے فائیو اسٹار ہوٹل میں علی الصبح مریم نواز کا دروازہ توڑ سینہ تان کر کمرے میں گھسنے والے ، سب کے پیچھے آئین و قانون کے رکھوالوں کے نقش پا نظر آئیں گے ۔ گارنٹی دیتا ہوں، مملکت خداداد کسی طور کبھی منزل کی جانب بڑھ نہ پائیگی ۔

عمران خان کا اپنا سیاسی بحران مختلف، انکی کنفیوژن زیادہ ہے ۔ غیرمعمولی مقبولیت نے عمران خان کے اوسان خطاکر رکھے ہیں ۔ اگرچہ ہمہ گیر مقبولیت موجود مگر فہم و فراست کی غیرموجودگی بندگلی میں دھکیل چکی ہے ۔ عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے بیک وقت مفاہمت اور مخاصمت ، مکالمہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ آج یہ عالم کہ دونوں سے دور ہو چکے، آج مفاہمت اور مخاصمت دونوں محاذوں پر پسپائی کا سامنا ہے ۔ عمران خان کا نفع اتنا کہ کروڑوں لوگوں کو اسٹیبلشمنٹ کیخلاف اُکسا رکھا ہے ، چشم تصور میں عوام النّاس کو اسٹیبلشمنٹ کیخلاف بھڑکا کر اپنا بدلہ چُکتا سمجھ بیٹھے ہیں۔ درحقیقت عمران خان جئےیا مرے ، عمران خان نے وطنی سیاست کو اپاہج و مفلوج بنا رکھا ہے ۔ جس عمران خان کو میں جانتا ہوں ، وہ اپنے اس حاصل حصول اور کارکردگی پر مطمئن اور شانت ہوگا ۔ اپنی ذات کی تزین و آرائش میں مصروف کہ ذات مضبوط تو امابعد پاکستان کو مضبوط بنانا آسان ہوگا ۔ اچھنبے کی بات نہ حیرانی کہ آئے دن سیاسی و نیم سیاسی شوشے چھوڑے جاتے ہیں ۔ کبھی عمران خان کی تیسری جگہ منتقلی ، کبھی جنرل فیض کے ٹرائل پر خبریں لیک کرنا ، کبھی عمران خان کو بطور گواہ فیض ٹرائل کا حصہ بنانا ، کئی ارادے باندھ ، سوچ کے توڑے جا چکے ہیں۔

پچھلے تین دنوں سے من پسند وی لاگرز اور میڈیا اینکرز کو جنرل فیض حمید ٹرائل اور اسکے ممکنہ انجام پر خبریں فیڈ کی گئی ہیں ۔ میں ایسی خبروں کو خاطر میں نہیں لاتا کہ ایسی تدبیر کرنیوالوں کی عقلی حدود و قیود سے کماحقہ واقفیت ہے، تدبیریں الٹی پڑتی دیکھ چکا ہوں ۔ مملکت کیلئے عمران خان مقبولیت نیا تجربہ نہیں، 1970 ء کی سیاست میں مقبولیت اور قبولیت کے ٹکراؤ کے بعد دوسری بار سامنا ہے۔ مہینوں ہفتوں پہلے کئی بار لکھا کہ جنرل فیض کا مقدمہ ،لب لباب عمران خان تک پہنچنا ہے ۔ 2سال سے ’’ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں، کہیں ایسا نہ ہو جائے ،کہیں ایسا نہ ہو جائے‘‘ ، آج کے معاملات بھی مختلف نہیں۔ آنیوالے ماہ عمران اور ملکی نظام دونوں کے مستقبل پر بے یقینی کا راج رہنا ہے۔ خاطر جمع ! عمران خان کا ملٹری ٹرائل تذبذب کا شکار رہنا ہے، ارادے باندھنے سوچنے اور توڑنے میں خرچ ہونگے ۔ جس نے موجودہ سیٹ اَپ کو ساتھ متزلزل رکھنا ہے ۔ میرے پاس میرے ذرائع یا خصوصی ذرائع تو نہیں ہیں۔ البتہ تعین کرنا راکٹ سائنس نہیں کہ سیاسی نابلد اپنے اصل ارادوں کو عملی جامہ نہ پہنا سکیں گے ۔ ویسے سیاسی حقیقتوں کے تناظر میں حالات کا جبر اپنا راستہ اختیار کرتا ہے اور میں اسی راستے کا تعین اپنی محدود عقل و دانش کےمطابق کرتا ہوں ۔ میری ناقص رائے کےمطابق اسٹیبلشمنٹ کے سامنے اس وقت دو ممکنہ راستے موجود ہیں ۔ (1 ) یا تو عمران خان کی سزا موخر کر دی جائے گی اور موجودہ صورتحال کو برقرار رکھتے ہوئے ایک سال بعد یعنی 2026ء میں RTS اور فارم 47 پلس عام انتخابات کروائے جائیں گے ، یعنی کہ پی ٹی آئی کے بغیر اگلی حکومت قائم ہو گی ۔ ( 2) یا پھر عمران خان کو پہلے انجام کو پہنچائیں گے، بصورت دیگراگلے عام انتخابات کو 5/7سال یا غیرمعینہ مدت تک جبری رخصت پر بھیج دیا جائیگا ۔ جو راستہ بھی چنا گیا ، وطن کی فکر ثانوی رہنی ہے ۔ بات حتمی !بے یقینی مملکت خداداد کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے، نہ اُگلتے بنے گی نہ نگلتے ۔

تازہ ترین