• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی آئینی عدالت نے ریلوے اراضی پر تجاوزات اور قبضہ کی رپورٹ طلب کرلی

--فائل فوٹو
--فائل فوٹو

وفاقی آئینی عدالت نے پاکستان ریلوے کی ملکیتی اراضی پر تجاوزات اور غیرقانونی قبضوں پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریلوے حکام سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ 

جسٹس حسن رضوی اور جسٹس کے کے آغا پر مشتمل دو رکنی آئینی بینچ نے  کیس کی سماعت کی۔

وفاقی آئینی عدالت نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ریلوے کی زمین قوم کی امانت ہے اور اس کے تحفظ میں سنگین غفلت برتی گئی ہے۔

عدالت میں جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ ریلوے کے بہترین کلب، ہسپتال اور سروسز ختم ہوگئیں جبکہ زمینوں پر کچی آبادیاں، صنعتیں اور گوٹھ بن گئے ہیں۔

عدالت نے ریلوے افسران کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ افسران ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھیں گے تو قبضے بڑھیں گے، کسی نے ریلوے کے ہاتھ نہیں باندھ رکھے، زمینوں کی واگزاری کا اختیار خود ریلوے کے پاس ہے۔

عدالت نے پوچھا کہ ریلوے نے ملکیتی زمین کی واپسی کے لیے کیا اقدامات کیے؟ ریلوے اراضی پر تجاوزات اور قبضے کے ذمہ داران آفیشل کےخلاف ریلوے نے کیا کارروائی کی؟

دورانِ سماعت ریلوے کے وکیل شاہ خاور نے بتایا کہ راولپنڈی میں 1359 کنال ریلوے زمین پنجاب حکومت نے کچی آبادی کو الاٹ کردی تھی، جس میں ریلوے اسٹیشن کا بڑا حصہ بھی شامل تھا۔

وکیل کے مطابق پنجاب حکومت نے غلطی تسلیم کرلی ہے اور 1288 کنال اراضی دوبارہ ریلوے کے نام منتقل ہوچکی ہے۔

وفاقی آئینی عدالت نے ریلوے سے تجاوزات کے مکمل ریکارڈ، زمین کی واگزاری کے اقدامات اور ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس امین الدین خان نے وفاقی آئینی عدالت کے لیے تین بینچ تشکیل دیے ہیں۔

بینچ ون میں چیف جسٹس امین الدین خان، جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس ارشد حسین شامل ہیں جبکہ بینچ 2 میں جسٹس حسن رضوی اور جسٹس کے کے آغا شامل ہیں۔ بینچ 3 جسٹس عامر فاروق اور جسٹس روزی خان پر مشتمل ہے۔

قومی خبریں سے مزید