یہ بات گویا ایک فیشن یا مشن بن گئی ہے کہ پنجاب کو’’ظالم‘‘ کہا جائے، استحصالی صوبہ قرار دیا جائے۔ سچ ہے کہ’’ظالم‘‘ پنجاب نے واقعی نے ظلم کیا اور یہ ظلم کسی اور پر نہیں بلکہ خود پر کیا۔اسکی شناخت گم ہو گئی مگر یہ برف کی سِل بنا رہا ،اسکی ثقافت کو بےچہرہ کیا گیا تو اس نے لمبی تان کر سونے میں عافیت جانی۔ پنجاب’’ظالم‘‘ہے کہ سندھیوں کے پاس سرکاری و غیر سرکاری سطح پر زبان و ثقافت کی ترقی کیلئے رسائل و اخبارات ہیں ۔خیبر پختونخوامیں اپنی شناخت کیلئے، اپنی زبان کی سلامتی کیلئے کتب و رسائل اور اخبار موجود ہیں ۔بلوچستان کے لوگ اپنی تہذیبی اور لسانی تشکیلات کیلئے ہر سطح پر کام کر رہے ہیں۔ پنجاب "ظالم" ہے کہ اس نے اپنی زبان کو کھو دیا ،تہذیب گم کر دی ،ثقافتی بے چہرگی کو قبول کر لیا اور پھر بھی ’’ٹھنڈا ٹھار‘‘ ہے۔پنجاب ظالم ہے کہ اس نے کسی بھی غیر منتخب اقتدار کو قبول نہیں کیاـ پنجاب ظالم ہے کہ ون یونٹ کے پورے عرصے میں اسے اپنی آبادی اور آمدنی کے تناسب سے ترقیاتی رقوم میں کم حصہ ملتا رہا۔ دوسرے علاقوں کی ترقی کیلئے اس کے وسائل استعمال کیے گئے۔یہی غریب اور بے چہرہ پنجاب کا اصلی گناہ ہے جسے بعض سیاسی جماعتیں اپنے مقاصدکیلئے استعمال کر رہی ہے اور جسکی ایک سزا یہ تجویز کی گئی ہے کہ اس کے کم از کم تین ٹکڑے سرائیکی،پوٹھواری اور پنجابی کے نام پر کر دیے جائیں اور بقول شخصے ’’ان کے جوہر بھی کھلے اپنی حقیقت بھی کھلی‘‘ پنجاب پرمسلسل یلغار کے سبب بعض سیاسی عناصر تو کیا بہت سے بزعم خود دانشورپنجابی بیرون پنجاب سے لگنے والے ہر جھوٹے سچے الزام کا اسی طرح ساتھ دینے لگے جس طرح کہا جاتا ہے کہ پنجابی ہربیرونی حملہ آورکے ساتھ ہو لیتےتھے۔ جھوٹ اور سچ میں تمیز کی توفیق ان پنجابیوں کوہے ہی نہیں مگر پھر بھی وہ بڑے لبرل دانشور کہلاتے ہیں۔ایک وہ پنجابی جو کل تک پنجاب کے ہر بُرے فعل میں برابر کے شریک تھے بلکہ ان بُرے افعال کی ترغیب دینے اور اس پر عمل درآمد کروانے میں پیش پیش تھے آج یہ پنجابی اس احساسِ جرم میں برابرکےحصے دار بننے کی بجائے گناہوں کا سارابوجھ مرکزی پنجاب پر ڈال کر بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں اور اپنے پنجابی ہونے سے بھی انکاری ہیں، یہی پنجابی بزعم خود دوسرے صوبوں کے دانشوروں ،سیاسی گروپوں سے مل کر یہ بھی فرماتے ہیں کہ پنجاب میں تین قومیتیں ہیں۔ پوٹھوہار جس علاقے سے فوج آتی ہے اور پشتو علاقے سے آنے والی فوج سے مل کر اٹوٹ اکائی بنتی ہے۔ سرائیکی علاقہ جہاں سے مرکزی پنجاب کو ہمیشہ جاگیردار قیادت ( سر سکندر حیات سے لیکر مخدوم سجاد حسین قریشی تک) میسر آئی یا تھوپی گئی اور مرکزی پنجاب جس نے سول بیوروکریسی پیدا کی۔اگر سرائیکی قومیت پنجابی قومیت سے الگ ہے تو خضر حیات ٹوانہ سے لے کر صادق قریشی تک کی سیاسی کارکردگی مرکزی پنجاب کے کھاتے میں ڈالنے کا کیاجواز کیا ؟ یہ بات ذہنوں سے ابھی محو نہیں ہوئی کہ مرکزی پنجاب کی بے چہرہ اور بے نام اکثریت نے نظام میں تبدیلی لانے کیلئے اسلام اور علاقائیت کے سبھی نعروں کو مسترد کر دیا تھا، یہ پنجابی بولنے والے مرکزی پنجاب کا کردار تھا۔ جس نے صدیوں پرانی مستند سیاسی ترکیبات میں رخنہ ڈال دیا اور پاکستان کے اندر گنتی کے خاندانوں کے سیاسی قلعے میں ایک ایسا شگاف ڈال دیا جس سے تمام قلعہ دار پریشان ہو گئے۔ سرائیکی اور پوٹھوہار کی تقسیم سے حالات بدلنے کی بجائے پنجاب میں بھی یوگوسلاویہ جیسی داغ بیل ضرور ڈال دی گئی۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ الجھنیں اور دشواریاں، اقتصادیات کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں آج جاگیرداری ختم کر دیں پاکستانی عوام کی گردن پر سے صرف ان تین فیصد پیرانِ تسمہ پا کو اتار پھینکیں،یہ معاملات اپنی موت مر جائیں گے۔ اصل مسئلہ پنجاب کو اسکی غلامی سے نکالنا ہے اگر کسی قوم سے اسکی زبان چھین لی جائے تو وہ غلام بن جاتی ہے اور غلام کو جو بھی گالی دی جائے وہ اسےتسلیم کر لیتا ہے۔ غلام پنجاب کا پاکستان بننے کے بعد کوئی ترجمان اور پُرسان حال پیدا نہیں ہوا ۔جسکی وجہ سے بعض سیاسی عناصر نے ایسے راگ الاپے جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سیاسی مشاعرے میں وہ لوگ بھی شامل ہو جاتے ہیں جن کو پنجابی میں ماہ وسال کے نام بھی نہیں آتے۔ ایسی صورتحال میں پنجابی کو ذریعہ تعلیم بنانے کا مطالبہ اور پنجاب اور پنجابی کی الجھی ہوئی بے چہرہ شناخت کو نمایا ںکرنے کی جائز خواہشوں اور کوششوں کا اردو بولنے والوں کی طرف سے یہ رد عمل ہونا چاہیے کہ وہ کل تک پنجابی کو اردو کی ماں ماننے کے بعد اب اس کے تین ٹکڑے کر کے اسے بے گورو کفن چھوڑ دیں؟ کیا پنجاب کو اس کے بُرے بھلے ’’کرتوتوں‘‘ کی (جس میں پنجابی شاعروں، ادیبوں، صحافیوں اور دانشوروں کی طرف سے اردو کی بے بہا خدمات بھی شامل ہے) یہ سزا ملنی چاہیے کہ اس سے بابا فرید ،شاہ حسین، بابا بلھے شاہ، میاں محمد بخش، سلطان باہو، علی حیدر، شاہ مراد چھین لیے جائیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ صوبوں کے نام آپ چاہے کچھ بھی رکھ لیں مگر پنجابی زبان وادب کی تاریخ سے شاہ حسین، بُلھے شاہ، سلطان باھو، علی حیدر ،خواجہ فرید کو الگ کر ہی نہیں سکتے کہ یہ ہاشم شاہ اور وارث شاہ والے سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اور کیا بزعم خودبعض سیاست دانوں اور دانشوروں نے پنجاب اور پنجابیوں کے تمام’’جرائم‘‘ کیلئے یہ آخری سزا سنا دی ہے؟ ان کیلئے میرا ایک شعر حاضر ہے ۔ـ
روشنی کو سنبھال کر رکھنا
کل اندھیرے میں کام آئیگی