• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کلثوم پارس

’’پانچ، سات سال کی عُمرتک جب آپ بچّے کے ساتھ بےجا ڈانٹ ڈپٹ یا مارپیٹ کرتے ہیں، تو آپ کی اس زیادتی کا جواب وہ آپ کو اُس وقت نہیں دیتا بلکہ بڑا ہو کر دیتا ہے۔ …،…،… کی صُورت میں۔‘‘ تین الفاظ مائیک ڈسٹرب ہونے کی وجہ سے کٹ گئے تھے اور سامعین کی سماعتوں تک نہیں پہنچے تھے۔ ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ میڈم صبیحہ احمد یزدانی کا لیکچر ختم ہونے کے بعد ایسے ہی تقریباً دومنٹ تک تالیاں گونجتی تھیں۔ 

میڈم صبیحہ اپنی جاذبِ نظر شخصیت اور اپنے لیکچرز کی بدولت تقریباً ہرمکتبۂ فکر کے لوگوں اور خصوصاً خواتین میں بہت مقبول تھیں۔ فیس بک، یوٹیوب، انسٹا گرام… سوشل میڈیا پر ان کے فالورز لاکھوں کی تعداد میں موجود تھے۔ ’’میم! آٹو گراف پلیز…‘‘’’میم! مَیں نے آپ کا وہ لیکچر…‘‘’’میڈم! مَیں آپ کابہت بڑا فین ہوں…‘‘ اِسی طرح کی مِلی جُلی آوازیں کانوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ 

میڈم صبیحہ ایسے ہی اپنے پرستاروں میں گِھری رہتی تھیں، جیسے شہد کا چھتّا شہد کی مکھیوں سے گِھرا ہوتا ہے۔ ایک جمِ غفیر تھا، جو لیکچر ختم ہونے کے بعد اُن کے گرد اُمڈ آیا تھا۔ وہ بہت مشکل سے اس ہجوم سے نکل کر اپنی گاڑی کی طرف جا رہی تھیں، جس کا دروازہ کھولے ڈرائیور پہلے ہی سے اُن کا منتظر تھا۔

عورتوں کو گھریلو معاملات میں کیسے سمجھ داری سے کام لینا چاہیے؟؟ اپنی ذات کو فراموش کیے بغیر دوسروں کاخیال رکھنا۔ ملازمت، گھر، بچے… سمجھوتے اور قربانی میں باریک سا فرق ہے۔ ان تمام نکات کو جوڑتے ہوئے وہ اپنے اصل مدعے پہ آگئی تھیں۔ اُن کا آج کا موضوع تھا، ’’بچّوں کی تربیت کیسے کی جائے؟‘‘ ’’آج کل کی مائیں جتنی پڑھی لکھی ہیں، تربیت کے مسائل اُتنے ہی بڑھتے جا رہے ہیں۔ 

اِس کی بہت سی وجوہ ہیں، مگر سب سے بڑی وجہ ہے، موبائل فون… بچّوں کا اسکرین ٹائم۔‘‘ اُن کے تقریباً آدھا گھنٹہ بولنے کے بعد سوال و جواب کا سیشن شروع ہوا۔ ’’میم! آج کل کے بچّے بہت تیز ہیں، جتنی بھی کوشش کروں…‘‘میڈم صبیحہ، خاتون کا سوال ختم ہونے سے پہلے ہی بول پڑیں۔ اِس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اُنھیں لمبے سوال سُننے کی عادت نہیں تھی یا پھر اِس طرح کے سوالات اُن کے لیے نئے نہیں تھے۔ ’’مَیں آپ کا مسئلہ سمجھ گئی ہوں۔ 

اِس کا بہترین حل یہ ہے کہ بچّہ ابھی چھوٹا ہے، تو آپ اُسے دن میں ایک سے زیادہ بار Hug کریں (گلےملیں)۔ اس سےآپ اُس کے اندر واضح تبدیلی دیکھیں گی۔‘‘ ’’میم! مَیں آپ سے بہت سیکھتی ہوں…آپ رول ماڈل ہیں۔‘‘ ’’بہت شکریہ…‘‘ میڈم نے مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔ ’’میم! میری زندگی میں ایک وقت ایسا آیا کہ مَیں اپنی زندگی سے مایوس ہوچُکی تھی۔ شادی کے سات سال تک میری اولاد نہیں تھی۔ 

میاں بیوی کا رشتہ، جسے دنیا کا خُوب صُورت ترین رشتہ کہا جاتا ہے، سوائے بوجھ کے کچھ نہیں تھا۔ آپ نے مجھ سے کہا کہ اپنے اردگرد پھیلی نعمتوں کو دیکھیں۔ کیا آپ ایک نعمت کے نہ ہونے کے سبب باقی سب نعمتیں فراموش کردیں گی؟؟ کیا اُن سب کا شکر نہیں ادا کریں گی، ایک چیز آپ کے بس میں ہی نہیں ہے، تو اس کےلیےزورزبردستی کیسی؟ زندگی کو انجوائے کرو، شُکر کے ساتھ۔۔ بچّے بھی ہوجائیں گئے۔ 

اِن شاء اللہ تعالیٰ۔‘‘ ٹی وی پر لیکچر سنتے ہوئے مسٹر احمد یزدانی اور میڈم صبیحہ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے ایک خُوب صُورت اور شگفتگی سے بھرپور مسکراہٹ کا تبادلہ کیا۔ اِن الفاظ کے ساتھ ہی ٹی وی اسکرین بلیک ہوگئی۔ حمزہ احمد ٹی وی بند کرنے کے بعد اپنے کمرے میں جا چُکا تھا۔ میڈم صبیحہ جیسے اپنی گفتگو میں گھروں کا منظر پیش کرتی تھیں، اُن کا اپنا گھر اس سے مختلف نہیں تھا۔

پڑھا لکھا گھرانہ، دو دو جوان بیٹے مُلک کے کام یاب بزنس مین تھے۔ بےانتہا چاہنے والا شوہر تھا۔ حمزہ احمد یزدانی، میڈم صبیحہ کا بڑا بیٹا تھا۔ بہت کم گو، شام میں اُس کی سال گرہ کے سلسلے میں بہت بڑی پارٹی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بڑی بڑی فیملیز کی بیگمات، این جی اوز کی کرتا دھرتا خواتین، بڑے بڑے بزنس مین، مصنف، شاعر سب اُس پارٹی کا حصّہ تھے۔ ’’میڈم صبیحہ جیسے جیسے چاہتی تھیں، بچّے ویسے ویسے بنتے گئے اور اب دیکھو، کیا کام یاب زندگی ہے اِن سب کی۔ سُنا ہے بہو بھی اپنی پسند کی لائی ہیں۔ 

اِس دَور میں بچّے ماں باپ کی ہر بات سُنیں، تو اور کیا چاہیے؟؟‘‘ ’’سُنا ہے، یہ اُن کے سگے بیٹے نہیں۔ مسٹر احمد یزدانی کی پہلی بیوی سے ہیں، لیکن صبیحہ نے انھیں سگے بچّوں کی طرح پالا ہے۔‘‘ ’’ارے چھوڑو، سگوں کی طرح کہاں، بس بچّوں کو ریموٹ کنٹرول سمجھ لیا اور ریموٹ اپنے ہاتھ میں رکھا۔ سوتیلی ماں بھی بھلا…‘‘ ’’ہاں جی۔ وہ خود موٹیویشنل اسپیکر ہیں۔ 

موٹیویٹ کرنے میں مہارت رکھتی ہیں، ویسے بھی جو یہ کہتے ہیں، پیساسب کچھ نہیں ہوتا، وہی سب سے زیادہ چارج کرتے ہیں۔‘‘ اُن کی پرانی جان پہچان والی نے سب سوالوں کے جواب ایک ہی جملے میں دے دیئے۔ عورتوں کے اس جُھرمٹ نے ستائش اور طنز کے مِلے جُلے قہقہوں میں تمام حاضرین کی توجّہ کچھ وقت کے لیے اپنی طرف مبذول کر لی تھی۔ کیک کٹنے کے بعد خوش گپیوں کو سمیٹتے ہوئے یہ شام اختتام پذیر ہوئی۔

اگلے دن پارٹی میں ملنے والے تحائف میں سے ایک قیمتی امپورٹڈ گل دان ٹوٹ چُکا تھا۔ میڈم صبیحہ اپنے غصّے پر قابو پاتے ہوئے اپنے پوتے سے مخاطب تھیں۔ ’’بیٹا! آپ کو اِسے کھولنے کے لیے کسی بڑے کی مدد لینی چاہیے تھی۔ اب آپ فوراً اپنے کمرے میں جائیں۔‘‘ ’’سوری دادو!‘‘ بچّہ نگاہیں جھکائے اپنے کمرے کی جانب دوڑ گیا۔ 

’’تم سب لوگ کہاں تھے۔ کچھ اندازہ ہے، کتنے منہگے تحائف ہیں یہ…کبھی دیکھے بھی ہیں۔ چلیں، اب جائیں، صاف کریں سب یہاں سے۔‘‘ میڈم صبیحہ بظاہر آہستہ آواز میں اپنے ملازمین کو ڈانٹ رہی تھیں، مگر ان کے الفاظ کی کڑواہٹ ملازمین اپنے اندر اُترتی محسوس کرسکتے تھے۔ میڈم صبیحہ نے اپنی عینک اتار کر سامنے پڑی میز پر رکھی اور صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موند لیں۔ وہ خُود سے ہم کلام تھیں۔ ’’ری لیکس…ری لیکس صبیحہ…ری لیکس…!!‘‘

صبح بیڈ ٹی لینے کے بعد اپنی عینک ڈھونڈتے ہوئے وہ ٹی وی لاؤنج تک آگئی تھیں۔ انہوں نے جلدی سے ٹی وی آن کیا، کیوں کہ اُن کا نیا لیکچر نشر ہونے والا تھا، مگراُن کی عینک مل کے ہی نہیں دے رہی تھی۔ گھر کی ملازمہ نے بتایا کہ اُن کی عینک ان کے پوتے سے ٹوٹ گئی ہے۔ ’’بہو…! مَیں دوسروں کو تربیت کے طریقے سکھاتی ہوں، مگر میری اپنی بہو؟ 

فائق بہت بدتمیزہوتاجارہا ہے۔ آئے دن گھر کی چیزیں توڑنا،میری عینک بھی… اپنے بچّے سے کمیونی کیٹ کرو۔‘‘ ’’سوری مما!! بچّہ ہے، آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ مَیں سمجھاؤں گی اِسے۔ میں بہت معذرت چاہتی ہوں آپ سے۔ بیٹا!! دادو کو سوری بولو۔‘‘ ’’نہیں، مَیں سوری نہیں بولوں گا۔‘‘ ’’فائق… فائق… فائق!‘‘مگرفائق دادی کو سوری کہے بغیر ہی وہاں سے بھاگ گیا تھا۔ ’’مَیں بہت شرمندہ ہوں مما!‘‘ بہو نے سر جُھکا کے کہا۔ میڈم صبیحہ نے ایسے اپنی بہو کو گھورا، جیسے اُسے ایک اچھی ماں نہ ہونے کا طعنہ دیا ہو۔ اُن کی ایک نظر میں کئی سوال تھے۔

شام کو حمزہ احمد جب آفس سے گھرلوٹا تو وہ اپنے کمرے سے آتی آواز سُن کر وہیں رُک گیا۔ ’’آئندہ اگر تم نے میرا کہنا نہیں مانا تو مَیں تمہیں باتھ روم میں بند کردوں گی۔‘‘ حمزہ کے کان میں یہ الفاظ پڑتے ہی اُسے اپنا بچپن یاد آگیا، کیوں کہ اس گھر کا اصول صرف پرفیکشن تھا۔ حمزہ اپنے والدین کے کمرے میں گیا اور اُنہیں ایک تحفہ دے کرالٹے قدموں واپس لوٹ آیا۔ 

تحفہ دیتے سمے وہ مسلسل نیچے دیکھتا رہا اور پھر اُنھیں اِس انداز میں خدا حافظ کہا، جیسے ہمیشہ کے لیے کہہ رہا ہو۔ تحفہ کھولتے ہی میڈم صبیحہ کے دماغ میں جھماکے سے ہونے لگے۔ اُن کے اپنے ہی الفاظ جیسے اُن کے کانوں میں گونجنے لگے۔ ’’جب آپ چھوٹے بچّوں کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ یا مارپیٹ کرتے ہیں، توآپ کی زیادتی کا جواب وہ اُس وقت آپ کو نہیں دیتے بلکہ بڑے ہوکر دیتے ہیں۔ چھوڑ کر جانے کی صُورت۔‘‘ میڈم صبیحہ ڈبّے میں پڑے تحفے کو گھورے جا رہی تھیں۔

مسٹر احمد یزدانی نے صبیحہ کے ہاتھ سے ڈبا پکڑا اور گویا ہوئے۔ ’’بچپن میں پرفیکشن کے چکر میں اپنی الماری سے چند روپے لینے پر جوچمٹا گرم کر کے تم نے اُس کے ہاتھ کو داغا تھا، اُس کا جواب اُس نے آج دے دیا ہے۔ چھوڑ کرجانے کی صُورت۔ لوسنبھالو، اب یہ چمٹا…‘‘

سنڈے میگزین سے مزید