ایک نئی طبی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر ایسے افراد جن میں موروثی طور پر کولیسٹرول بڑھنے اور کم عمری میں دل کی بیماری لاحق ہونے کا خطرہ ہوتا ہے وہ اپنی اس کیفیت سے لاعلم رہتے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق محققین نے حال ہی میں جریدے سرکولیشن جینوومک اینڈ پریسیشن میڈیسن میں رپورٹ کیا ہے کہ تحقیق میں شامل تقریباً 90 فیصد افراد جو خاندانی ’ہائپرکولیسٹرولیمیا‘ نامی موروثی بیماری کے جینیاتی اثرات رکھتے تھے، تاہم انہیں اس خطرے کا اندازہ نہیں تھا، ان لوگوں کو اپنی حالت کا علم اس تحقیق کے دوران کیے گئے ڈی این اے ٹیسٹ سے ہوا۔
بدقسمتی سے ان میں سے ہر 5 میں سے 1 شخص کو پہلے ہی دل کی وہ بیماری لاحق تھی جو شریانوں کے بند یا سخت ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔
تحقیق کے مرکزی مصنف ڈاکٹر نیلائے جیول سمدر کے مطابق ہمارے نتائج اس حوالے سے رہنما اصولوں میں موجود اس خامی کی نشاندہی کرتے ہیں، جن میں جینیاتی ٹیسٹ کے لیے صرف کولیسٹرول کی سطح اور خاندانی تاریخ کو بنیاد بنایا جاتا ہے، اگر ہم ان لوگوں کو جلد تلاش کر لیں جنہیں دل کی بیماری کا خطرہ ہے تو ہم بر وقت علاج کر کے ان کی زندگیوں کو بچا سکتے ہیں۔
خاندانی ہائپر کولیسٹرو لیمیا دنیا میں سب سے عام جینیاتی بیماریوں میں سے ایک ہے جو ہر 200 سے 250 افراد میں سے 1 شخص کو متاثر کرتی ہے، اس میں پیدائش سے ہی خراب ایل ڈی ایل کولیسٹرول کی سطح بہت زیادہ ہوتی ہے۔
نئی تحقیق میں محققین نے 80 ہزار سے زائد مریضوں کے جینیاتی نمونوں کا جائزہ لیا، ان میں سے 419 افراد میں ایسے جینیاتی اثرات پائے گئے جو اس بیماری کا سبب بنتے ہیں جن میں سے 9 میں سے 10 افراد کو اپنے اس خطرے کا شکار ہونے کا پہلے سے علم نہیں تھا۔
تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ کولیسٹرول کے جینیاتی خطرے کی تشخیص کے لیے ٹیسٹنگ کے رہنما اصولوں کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے زیادہ مریضوں کی بروقت شناخت ہو سکے، ایسے افراد کو کولیسٹرول کم کرنے والی ادویات وقت پر دی جا سکتی ہیں تاکہ ان کا بڑھا ہوا کولیسٹرول دل کی بیماری، دل کے دورے یا فالج کا سبب نہ بنے۔
محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ کن افراد کی اسکریننگ سب سے موزوں ہو گی۔