• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان اپنی زندگی کے سفر میں جن گھاٹیوں سے گزرتا ہے، اسکے نقش اسکی روح، دل اور ذہن پرمرتسم ہو جاتے ہیں بظاہر وہ مسکراتا ہوا زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا جاتا ہے مگر اندر کہیں بوجھ موجود رہتا ہے ۔اگر ماضی سے متعلق یہ تکلیف دہ احساسات، سوچ کے صندوق میں بند رہیں اور ان کا کسی صورت اظہار نہ ہو پائے تو یہ بوجھ انسان کو بیمار کر سکتا ہے سائنس اس حقیقت کو ثابت کر چکی ہے۔جدید دور میں ڈاکٹر گیبر میٹے نے اس حقیقت کو اپنے کئی سالہ میڈیکل کے تجربےکے ذریعے ثابت کیا۔

ڈاکٹر گیبر میٹے نامور برطانوی فزیشن ہیں جو فزیشن سے بڑھ کر انسان کی نفسیات کے پارکھ ہیں انہوں نے جسم اور ذہن کے درمیان بنیادی تعلق کو دریافت کیا۔ ڈاکٹر گیبے میٹے کی مشہور کتاب when body says no:the cost of hidden stressہے۔یہ بیسٹ سیلر کتاب 2003 میں شائع ہوئی اورمیڈیکل کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔یہ کتاب کا 15 زبانوں میں ترجمہ کی گئی اورکئی اعزازت اس کتاب کے حصے میں آئے۔

ڈاکٹرگیبر میٹے اس حوالے سے دنیا بھر میں مختلف سیمینارز اور کانفرنسوں میں جاتے ہیں اور ذہن و جسم کے تعلق کے موضوع پر لیکچر دیتے ہیں ۔اس کتاب میں ڈاکٹر گیبر نے لکھا کہ اگر کوئی شخص صدمے سے گزرا ہے اور اسکے اندر ایسے پریشان کن پوشیدہ جذبات ہیں جسکا اظہار کہیں نہیں ہوا تو اس شخص کے اپنی زندگی میں کسی بڑی بیماری کا شکار ہونے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔پریکٹس کےدوران انہوں نے بے شمارکیسز کا معائنہ کیا جس میں بیماری اور مریضوں کی کیس ہسٹری جان کر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمارے وہ تکلیف دہ جذبات جن کا اظہار ہم نہیں کرتے وہ جمع ہوتے رہتے ہیں اور پھر جسمانی بیماری کی صورت ظاہر ہوتے ہیں ۔

ڈاکٹر نے اس کتاب میں بڑی نئی قسم کی تحقیق پیش کی ہے اس نے کہا ہے کہ صرف خوش رہنے کی کوشش کرنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جذبات کا وہ بوجھ جو ہم اپنے دل اور دماغ میں اٹھائے پھر رہے ہیں اس کو باہر نکالا جائے۔ زندگی تو بہرحال اونچ نیچ اور اتار چڑھاؤ سےعبارت ہے ۔ جدائی، بے وفائی، نفرت، ناکامی ،تکلیف یہ سب زندگی کا حصہ ہیں ۔ان حالات میں ایک انسان جذبات کے مد و جزر سے گزرتا ہے بعض اوقات وہ ان جذبات کا بہتر طریقے سے اظہار نہیں کرتا یا وہ اظہار کا سلیقہ نہیں جانتا اور اپنے اندر ان منفی اور تکلیف دہ احساسات کو دبائے رکھتا ہے۔کچھ لوگ اپنی زندگی میں خوش رہنے کی کوشش میں ان کونظر انداز کئے رکھتے ہیں جو اندر ہی اندر انسان کے جسم کو کھا رہے ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر گیبر میٹے نے ایک دلچسپ کام یہ کیا کہ کسی شخص کے مرنے پر اسکے پیاروں کی طرف سے اظہار کیے گئے احساسات جسے انگریزی زبان میں Obituaries کہا جاتا ہے انہیں اکٹھا کیا ۔ڈاکٹر نے بڑی دلچسپ بات کی کہ ان ابیچریز ہی میں دراصل اس شخص کے مرنے کی وجوہات لکھی ہوتی ہیں۔

ایک سیمینار کے اندر انہوں نے اس ابچریز کو پڑھ کر سنایا مثلاً ایک عورت55 برس کی عمر میں کینسر سے فوت ہوئی اس کی ابیچری میں اس کے شوہر نے لکھا کہ میری بیوی بہت ہی وفا شعار تھی وہ ہر وقت کام کرتی رہتی تھی ۔اس نے گھر اور باہر کا بوجھ خوش دلی سے اٹھایا اور کبھی شکایت نہیں کی ۔ وہ ملٹی ٹاسکنگ کی ماہر تھی اور ایسا لگتا تھا کہ اس نے اپنی زندگی دوسروں کیلئے جی ہے ۔

ڈاکٹر نے کہا کہ ایک ایسا شخص جو اپنے لیے زندگی ہی نہیں جی رہا اسکے مرنے پہ حیرت کیسی ۔اسی طرح انتہا کی تنہائی کے بعد اگر کوئی شخص دنیا سے چلا جاتا ہے یا اس کو کوئی بیماری لگ جاتی ہے تو اس پہ حیرت نہیں ہونی چاہیے۔بعض اوقات تنہائی بظاہر نظر نہیں آتی لیکن ایک بھرے ہوئے گھر میں بھی کوئی شخص بہت تنہا ہو سکتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ایسے بہت سے مریضوں کی کیس ہسٹری جان کر انہیں حیرت ہوئی کہ جو اپنی روزمرہ کی زندگی میں بہت خوش نظر آتے تھے لیکن وہ اپنی زندگی میں کئی بڑی بیماریوں کا شکار ہوئے۔

ڈاکٹر گیبر کا کہنا یہ ہے کہ ہمیں یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ ہم ڈپریشن اور انزائٹی کی کیفیت کواپنے اندر چھپا کر نہ رکھیں اسکا سامنا کریں اور ان زہریلی سوچوں کو اپنے شعور اور لاشعور سے باہر نکال دیں۔

وہ لوگ جو اپنے جسم کے اندر مختلف منفی جذبات کو روکے رکھتے ہیں اوران جذبات کواظہار کا موقع نہیں دیتے تویہ ناراضی اورنفرت سے بھرے جذبات جسم کے مدافعتی نظام کو تباہ کر دیتے ہیں ۔بالآخر ایک دن پتہ چلتا ہے کہ وہ شخص کسی بیماری کا شکار ہو گیا ۔سننے والے حیران ضرور ہوتے ہیں کہ وہ تو ٹھیک ٹھاک تھا اور اپنی زندگی میں خوش باش نظر آتا تھا پھر اسے کیا ہوا؟

ڈاکٹر گیبر کا کہنا ہےکہ جب انہوں نے ایسے کئی کیسوں کی ریسرچ کی تو پتہ چلا کہ مریض جو خطرناک بیماری کا شکار ہوا دراصل وہ کئی زمانوں سےذہنی دبائو،دماغی انتشار سے گزر رہا تھا۔ پریشان کن جذبات اور احساسات کا سمندر تھا جس کا وہ اظہار نہیں کر پاتاتھا اسی چیز نے اسکےاندر بیماری کو جنم دیا۔اس لیے یہ سلیقہ اور ہنر ضرور سیکھیں اور سکھائیں کہ نا خوشگوار تکلیف ،احساسات اور جذبات سے کس طرح چھٹکارا پایا جائے۔

پہلے کہا جاتا تھا کہ صحت مند جسم ہی صحت مند ذہن کو جنم دیتا ہے لیکن جدید تحقیق کہتی ہے کہ ایک مثبت سوچنے والا ،تاریکی میں بھی امید کی روشنی دیکھنے والا ذہن ایک صحت مند زندگی اور صحت مند جسم کی ضمانت ہے ۔یہی وہ مائنڈاینڈ باڈی کنکشن ہے جسے ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین