• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں یکدم چونک گیا۔ جیسے دل میں کسی نے دہکتا انگارہ رکھ دیا ہو۔ فیس بک کی اسکرین پر نفرت سے بھری پوسٹ سامنے آئی، پھر دوسری، پھر ٹویٹر پر دیکھ کر تو سانس جیسے رک گئی۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کون لوگ ہیں یہ؟ کس لہجے میں بول رہے ہیں؟ اپنے ہی مٹی کے بیٹے، اپنے ہی قومی ہیرو، اپنے ہی فخر شاہد خان آفریدی کے خلاف جھوٹ اور زہر کا سیلاب تھا۔ وہ نام جس کے ایک چھکے پر پورا پاکستان جھوم اٹھتا تھا، آج اسی نام پر غبار اچھالا جا رہا ہے۔ اور پھر اچانک سمجھ آیا کہ یہ کون ہیں۔

یہ وہی مخالفین اور حاسدین ہیں جو دوسروں کی روشنی دیکھ کر آنکھوں میں جلن محسوس کرتے ہیں۔ وہی جو اپنے پسندیدہ لیڈر کی خوشنودی کے لیے سچ کو قربان کر دیتے ہیں۔ وہی سیاسی گروہ کے نعرہ بردار جن کی دشمنی کی بنیاد دلیل نہیں، صرف حسد اور ناکامی کا زہر ہے۔ جنہیں یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ ایک شخص عوام کے دلوں پر حکمرانی کرے بغیر ان کی صفوں میں کھڑا ہو۔ وہ اپنے ایک بت کو بلند رکھنے کیلئے قوم کےدوسرے ہیرو کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں جیسے کسی اور کی عظمت انہیں چھوٹا کر دے گی۔ یہ سب دیکھ کر دل جیسے زخمی ہو گیا…اور ذہن کے پردے پر وہ سب منظر لوٹ آئے جب آفریدی نے اس ملک کیلئے اپنا سب کچھ دے دیا تھا۔

مجھے وہ دن یاد آگیا جب پاک بھارت کشیدگی نے پورے ملک کو خوف اور بے یقینی میں لپیٹ لیا تھا۔ مئی کی جھلسا دینے والی گرمی، گرد اڑاتی ہوائیں اور سرحدوں سے فائرنگ کی خبریں۔ ایسے وقت میں جب لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے تھے اور چہروں پر خوف تھا، شاہد آفریدی خاموش نہیں بیٹھے۔انہوں نے صرف بیان نہیں دیا، صرف سوشل میڈیا ٹویٹ نہیں کی وہ خود اگلے مورچوں تک پہنچے۔ فوجی یونٹس کے درمیان بیٹھے، پسینے میں بھیگے جوانوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور کہا:’’یہ جنگ تمہاری نہیں… یہ ہماری جنگ ہے۔ ہم ایک ہیں، ایک ساتھ ہیں، اور ایک ساتھ رہیں گے‘‘۔یہ الفاظ نہیں تھے، یہ وہ آگ تھی جس نے پوری قوم کے دل میں نئی سانس دوڑا دی۔فوج کا حوصلہ بلند ہوا، قوم ایک لڑی میں جڑ گئی۔ نوجوان گھروں سے نکل آئے، قومی ترانے بلند ہوئے، پرچم لہرائے اور پیغام واضح تھا:’’پاکستان کبھی تنہا نہیں ہوتا‘‘۔اور پھر یہ منظر جب بھارت کے میڈیا تک پہنچا تو وہاں کہرام مچ گیا۔

اینکر پاگلوں کی طرح چیخنے لگے، سوشل میڈیا لرز اٹھا، اور پورا ایک ارب پچاس کروڑ لوگوں کا ملک حیران تھا کہ ایک آدمی پاکستان کی سرحد پر کھڑا ہو کر ان کے اعصاب پر کیسے سوار ہو گیا؟کیسی عجب شان ہے پاکستان کا ایک شیر پوری بھارتی میڈیا مشین کے خوف کی وجہ بن گیا۔

پھر کرکٹ کا میدان…صرف 16 سال کی عمر میں 37 گیندوں پر تیز ترین ون ڈے سنچری وہ لمحہ جب ایک نو عمر لڑکا دنیا کا سب سے خوفناک بلےباز بن گیا۔پھر 2009 ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ، جب سیمی فائنل اور فائنل دونوں میچوں میں انہوں نے اپنی شاندار پرفارمنس سے قوم کو جیت کا تحفہ دیا۔ اور جب ٹرافی اٹھاتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو تھے، تو وہ صرف جذبات نہیں تھے،وہ پاکستان کی فتح کا آنسو تھا، وہ امید کا آنسو تھا۔ان کی کرکٹ کے اعداد و شمار خود بولتے ہیں:395 ون ڈے، 8064 رنز، 395 وکٹیں، ٹی ٹوئنٹی میں سب سے زیادہ چھکے، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں طویل عرصے تک ٹاپ وکٹ ٹیکر ۔یہ کوئی کہانی نہیں، یہ تاریخ ہے۔

اور پھر کھیل کے باہر بھی ان کی جنگ جاری رہی۔Shahid Afridi Foundation نے تعلیم، صحت، صاف پانی، اسپتال، دواؤں اور فلاح و بہبود کے میدان میں وہ کام کیے جو حکومتیں بھی مکمل نہ کر سکیں۔سیلاب میں وہ خود ٹرک کے ساتھ راشن بانٹتے نظر آئے۔کورونا میں وہ خود سڑکوں پر ماسک اور خوراک بانٹ رہے تھے۔پولیو کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر کھڑے ہو کر بچوں کا مستقبل بچایا۔قبائلی بیلٹ کے نوجوانوں کو بتایا کہ خواب چھوٹے بڑے نہیں ہوتے ارادے بڑے ہونے چاہئیں۔

ایسے شخص پر اگر آج کیچڑ اچھالا جا رہا ہے تو سوال یہ ہےکہ آخر ہم کس سمت جا رہے ہیں؟کیا ہم اپنے ہیروز کو پہچاننا بھول گئے ہیں؟کیا سوشل میڈیا کی چیخوں نے ہمارے دل کی آواز چھین لی ہے؟گزشتہ جنگ میں سب نے اپنے اپنے محاذ پر کردار ادا کیا۔سیاستدانوں نے قیادت کا بوجھ اٹھایا، فوج نے جان کی بازی لگا کر دشمن کو روکا، عوام نے اتحاد کا پرچم اٹھایا اور شاہد آفریدی نے قوم کا حوصلہ بلند کیا۔یہی وہ لمحہ تھا جب پوری قوم ایک جسم بن گئی تھی۔اور اسی لیے کہتا ہوںشاہد آفریدی محبت کے قابل ہیں، نفرت کے نہیں۔وہ پاکستان کا فخر ہیں، اتحاد کا استعارہ ہیں، دلوں کے کپتان ہیں۔جب وہ بارڈر پر کھڑے ہوتے ہیں تو دشمن کے دل لرزتے ہیں۔جب وہ مسکراتے ہیں تو پاکستان مضبوط ہو جاتا ہے۔

خدارا…اپنے ہیروز کا احترام کریں یہی قوم ہونے کی اصل پہچان ہے۔چراغ بجھانے والے بہت ہوں گے…مگر چراغ نفرت سے نہیں بجھتے حفاظت سے جلتے ہیں۔آئیے، اپنے چراغوں کی حفاظت کریں۔

تازہ ترین