معروف یہ ہے کہ منزلیں اپنی جگہ ہیں اور راستے اپنی جگہ ، لیکن’’غلطی‘‘یہ ہوئی کہ ہم نے ایک جگہ عرض کردیا کہ منزلیں اپنی جگہ ہیں اور’’فاصلے‘‘اپنی جگہ ! کوئی زیادہ فرق والی بات تھی نہیں کیونکہ راستے ہوں کہ فاصلے انہیں طے کرنا ہی زندگی ہے بھلے یہ زندگی ریاستوں کی ہو یا عام آدمی کی، بھلے ہی راستے ہموار ہوں یا ناہموار۔ لیکن بڑوں کی ایک بات نہیں بھولتی کہ’’شارٹ کٹ ہمیشہ ناہموار ہوتے ہیں۔‘‘اس سے قبل کہ قلم امریکہ اور چائنہ کا رختِ سفر باندھ لے ، بلوچستان کی سیاسی و سماجی مسافت کی بات کرلیں۔ پہلے تو یہ غلط فہمی و خوش فہمی دور کر دی جائے کہ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کی کسی تبدیلی کا امکان ہے۔ یہ بات مسلم لیگ نواز کے سینیٹر دوستین ڈومکی کی گل افشانی تھی اور خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے۔ ہم نے عبدالقادر پٹیل سے دریافت کیا تو ان کا مختصر فرمان تھا ’’مجھے نہیں لگتا!‘‘ ن لیگ کے صوبائی وزیر اور پارلیمانی لیڈر سلیم کھوسہ نے اس بات کو سرے ہی سے رد کردیا۔تاہم اڑھائی سال بعد ن لیگ کے وزیرِ اعلیٰ کے آنے کے معاہدہ کا تذکرہ ضرور کیا ہے تاہم بعد کی تو بعد ہی میں دیکھی جائے گی۔ پیپلزپارٹی رہنما و ممبر صوبائی اسمبلی علی مدد کے کی بھی تردید تھی۔ اپریل 2019 میں گوادر پورٹس کےچیئرمین دوستین جمالدینی تھے، اس موقع پر ہم تین دن تک ان کے وہ مہمان رہے جو مطالعاتی دورہ پر تھے، رہنمائی کیلئے سابق وزیر مملکت بحری امور چوہدری جعفراقبال کی بھی سنگت تھی۔ہم بہت خوش ہوئے کہ چائنہ کس قدر مہربان ہے، اور ہم خوش قسمت ہیں گوادر میں بحری جہاز کے لنگر انداز ہونے کی جگہ ہالینڈ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی قدرتی جگہ ہے اور گہری بھی۔ شکریہ کہ چائنہ نے گوادرکے مجموعی ایکوسسٹم کو گلوبل ویلیج، پاکستان اور چائنہ کیلئے مفید بنایا۔ اور ہمیں اسے پہلے بلوچستان اور پھر پاکستان کیلئے سودمند بنانا ہے۔پچھلی تحریک انصاف سرکار میں اس کا کام معمول کے مطابق استقامت اور قد و قامت نہ پا سکا۔ پھر دہشت گردی نے بھی بروقت مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرنے دئیے لیکن اب حالات قدرے بہتر ہیں تاہم ترقیاتی رفتار تاحال قابلِ تحسین نہیں۔ ہم سمجھتے تھے چائنہ کمال مہربان ہے، لیکن 2019 کی سوچ سے آگے بڑھیں تو آج زمانہ کہتا ہے کہ چائنہ کی اکنامکس اور فارن انویسٹمنٹ اپنی جگہ منفرد اور حیران کن ہے۔ چائنہ سینکڑوں ارب ڈالر امریکہ میں انویسٹ کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ادارے بھی خرید چکا جو اعلیٰ حکام، ایف بی آئی اور سی آئی اے تک کی خدمات میں پیش پیش تھے اور ان کی معاشی حالت کو استقامت سے نوازتےتھے۔رائٹ یو ایس اے انشورنس کمپنی جیسے ادارے کو چائنہ نے 2015 میں خاموشی سے خرید لیا۔ حالانکہ امریکہ 2018 سے مسلسل اس کوشش میں تھاکہ حساس اداروں تک رسائی کو حریفوں اور حلیفوں سے روکے رکھے، لیکن چائنہ کا مال و زر اور سرمایہ کاری امریکہ و برطانیہ کے رگ و پے تک پہنچ چکی ہے۔ اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ چائنہ امریکہ پر قابو پالے گا یا اس سے بڑی طاقت بن جائے گا۔امریکہ کی بقا، سلامتی، افتخار اور وقار اس کی انجینئرنگ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں پوشیدہ ہے جس سے امریکی انوویشن، سوال اٹھانے کے کلچر، کریٹیکل تھنکنگ اور جدتوں کا مقابلہ کرنا آج بھی چائنہ ہو یا کوئی اور، سب کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ امریکہ کے سرکاری و غیر سرکاری، مرکزی و ریاستی، جامعاتی اور غیر جامعاتی تحقیقی اداروں کی تعداد تین ہزار سے زائد ہے، پس امریکہ صرف آتش و آہن کی بارش برسانے اور بیچنے ہی میں کمال نہیں رکھتا بلکہ اپنی ریسرچ فروخت کرنے کا منفرد جمال بھی رکھتا ہے جسکے سبب دراصل امریکہ امریکہ ہے۔ دوسری طرف چائنہ اپنی محنت اور اپنی سرمایہ کاری کے بےمثال ہونے کے سبب مغرب پر ایک مخصوص قبضہ جما چکا ہے، اب اس حقیقت کو امریکہ و برطانیہ، کینیڈا و جرمنی، جاپان اور کوریا بھی تسلیم کر چکے۔آخر یہ کیا عجب معاملہ ہے امریکہ میں سرمایہ کاری میں قطر کے بعد سعودیہ بھی پیش پیش ہے، حالانکہ خدشات یہی ہیں کہ امریکہ میں رکھا یا لگا یا گیا مال و زر آخر امریکہ ہی کا ہے باوجود اس کے سعودی امریکہ میں 2806 کھرب روپے انویسٹ کرنے کے درپے ہیں۔ غور طلب یہ کہ سارے امریکہ ہی میں سرمایہ کاری کرنے کے موڈ میں کیوں ہیں؟ شاید وجہ یہ ہے کہ کہیں کسی کو امریکہ سے تحفظ کی امید ہے ، کوئی دوستی کا بھتہ دیتا ہےاور چائنہ چاہتا ہے اسے عالمی کاروبار میں رسائی رہے وہ جنگی ساز و سامان کی ہو یا روز مرہ کی مصنوعات کی ، حتیٰ کہ موٹر / ٹرانسپورٹ انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی میں بھی چین بہت آگے جا چکا ہے۔ یہ سوچا جاسکتا ہے چائنہ کی جگہ امریکہ لے سکتا ہے یا لینے کے راستے پر ہے مگر چینی سوچ کا اپنا منفرد زاویہ ہے ، چائنہ امریکہ نہیں بننا چاہتا بلکہ ایک پراثر اور پروقار چائنہ بننا چاہتا ہے۔اب، پاکستان کی خارجہ پالیسی اور خارجی امور کے ماہرین کا فرض ہے کہ جنگ کے بعد پاکستان کی جو عالمی توقیر اور مثبت تشہیر ہوئی، اس کا تسلسل رہے۔ پاکستان کا جمہوری چہرہ ضروری اور عالمی معیشت سے استفادے کیلئے عالمی امن کی سحر اور کرنوں کا پھوٹنا بھی ضروری ہے۔ بلوچستان کو تسلی اور تشفی مہیا کرنے کیلئے ہمیں پہلے اپنے حکمرانوں کی مثبت سوچ ، پھر چینی سرمایہ کاری اور امریکی تعاون اور جدتوں کی بھی ضرورت ہے کہ پاکستان کا جغرافیہ جہاں اہم ہے وہاں حساس بھی۔ حساسیت کو مدنظر رکھ کر گلوبل ویلیج میں کردار کی اہم ضرورت ہے۔مائیکرو اکنامکس رویے، ازسرِ نو سمال انڈسٹریز پلاننگ، انوویشن، موثر خارجہ پالیسی، برآمدی صلاحیت جیسی اشیاء ہی عام آدمی اور ملک کیلئے معیار اور وقار ہیں۔ دو ارب کا پلاٹس ہولڈر سماجی و معاشی نہیں ہوتا مگر ایک تاجر یا دو کمروں کے کارخانہ والا کمیونٹی کی مفید اکائی اور اہم ملکی نمائندہ ہوتا ہے۔ وزراء ، بیوروکریسی اور عدلیہ کو محقق ، تاجر اور صنعتکار کو عزت دینی چاہئے ( جو میسر نہیں) اسی میں راستے ، فاصلے ، منزلیں اور راحتیں ہیں۔ چائنہ امریکہ بھی ایسے ہی بنے۔ ایسی سہولت کاری ہی سے بلوچستان بھی شبستان اور گلستان ہوگا!