• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ وہ سرزمین ہے جو ہزاروں برسوں سے انسانی تہذیب، علم، رواداری، ثقافت اور انسان دوستی کی علامت رہی ہے۔ یہاں کی مٹی میں وہ خوشبو رچی بسی ہے جس نے صدیوں سے دنیا کو انسانیت، محبت اور امن کا پیغام دیا۔ وادیٔ سندھ کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے، جس نے انسان کو شہری زندگی کے اصول، صفائی، منصوبہ بندی، تجارت اور معاشرتی تنظیم کا درس دیا۔ موہنجو دڑو اور ہڑپہ کے آثار آج بھی اس بات کا ثبوت ہیں کہ سندھ صرف ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ انسانی شعور کی پہلی جھلک ہے۔سندھ کی پہچان صرف قدیم آثار سے نہیں بلکہ اس کی روحانی، فکری اور ثقافتی وسعتوں سے ہے۔ یہاں شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست، اور میاں بخش جیسے صوفیا نے انسان کو محبت، برداشت اور امن کا فلسفہ سکھایا۔ سندھ کی دھرتی نے کبھی مذہب، نسل یا زبان کی بنیاد پر تفریق نہیں کی بلکہ ہر آنے والے کو اپنی بانہوں میں سمیٹا۔ یہی وہ خصوصیت ہے جس نے سندھ کو باقی دنیا کیلئے ایک روشن مثال بنا دیا۔شاہ لطیف بھٹائی نے اپنے کلام میں کہا تھا کہ انسان کی اصل قدر اس کے دل کی صفائی میں ہے، نہ کہ اس کے مذہب یا قومیت میں۔ ان کے یہ اشعار آج بھی سندھ کی گلیوں، دریاؤں اور مزاروں سے گونجتے ہیں۔ سچل سرمست نے ’’سب رنگ میں رنگیازا‘‘ کہہ کر وحدتِ انسانیت کا پیغام دیا۔ یہی وہ فکر ہے جس نے سندھ کو ایک ایسی سرزمین بنایا جہاں لوگ فرقہ واریت سے بلند ہوکر انسانیت کو مقدم سمجھتے ہیں۔تاریخی طور پر سندھ ہمیشہ علم و ہنر کا مرکز رہا ہے۔ قدیم زمانے میں یہاں کی بندرگاہیں بین الاقوامی تجارت کا محور تھیں۔ عرب، ایرانی، چینی، اور وسط ایشیائی تاجر یہاں سے گزر کر دنیا کے مختلف حصوں تک جاتے تھے۔ سندھ نے نہ صرف تجارت بلکہ علم و ادب کے میدان میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ عربوں کے دور میں جب اسلام یہاں آیا تو اس نے سندھ کی مقامی ثقافت سے ہم آہنگ ہو کر ایک ایسا صوفیانہ رنگ اختیار کیا جو آج بھی اس خطے کی شناخت ہے۔یہی وہ سرزمین ہے جہاں محمد بن قاسم نے اسلام کا پرچم لہرایا، مگر اس کیساتھ ہی مقامی لوگوں کے دلوں میں احترام اور انصاف کا بیج بویا۔ اسلام سندھ میں تلوار سے نہیں بلکہ اخلاق، محبت اور کردار کے ذریعے پھیلا۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کے صوفیاء نے ہمیشہ مذہبی ہم آہنگی اور برداشت کو فروغ دیا۔سندھ کی ثقافت کا سب سے خوبصورت پہلو اس کی زبان، لباس، موسیقی اور میل جول کا انداز ہے۔ سندھی ٹوپی اور اجرک صرف لباس نہیں بلکہ تہذیبی شناخت کا نشان ہیں۔

اجرک کی ہر لکیراس مٹی کی تاریخ بیان کرتی ہے۔ جب کوئی سندھی اجرک اوڑھتا ہے تو گویا وہ اپنی تہذیب، اپنی روایات، اور اپنے آبا کی عزت کو اپنے وجود کا حصہ بنا لیتا ہے۔ آج کے جدید دور میں بھی سندھ اپنی اس روایتی پہچان کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ کراچی سے کشمور تک، بدین سے سکھر تک، سندھ کے ہر شہر میں محبت، مہمان نوازی اور رواداری کی فضا محسوس کی جا سکتی ہے۔

سندھ صرف تاریخ کا حوالہ نہیں بلکہ آج کے پاکستان کا روشن چہرہ بھی ہے۔ یہاں کی جامعات، فنون لطیفہ کے ادارے، اور ادب کی محفلیں آج بھی علم و شعور کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ سندھ نے پاکستان کو صرف سیاسی قیادت ہی نہیں دی بلکہ فکری رہنمائی بھی فراہم کی۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بینظیر بھٹو تک، یہ وہ شخصیات تھیں جنہوں نے سندھ کی رواداری اور ترقی پسندی کو قومی سطح پر متعارف کرایا۔آصف علی زرداری کے دور میں سندھ نے صوبائی خودمختاری کے سفر میں اہم سنگ میل عبور کیا۔ اٹھارہویں ترمیم نے وفاق کو مضبوط بنایا اور صوبوں کو ان کے جائز حقوق دیے۔ یہ وہ ترمیم تھی جس نے سندھ کو ترقی، تعلیم اور صحت کے میدان میں خود کفیل بنانے کی بنیاد رکھی۔ آج بھی سندھ حکومت اپنے محدود وسائل کے باوجود تعلیم، صحت، زراعت اور ثقافت کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔سندھ کی سیاست میں ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں جمہوریت کی جڑیں عوام کے دلوں میں پیوست ہیں۔ چاہے آمرانہ دور ہو یا سیاسی بحران، سندھ نے ہمیشہ جمہوریت کا علم بلند رکھا۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں عوامی شعور زندہ ہے، جہاں سیاسی اختلاف کے باوجود نظریاتی یکجہتی موجود ہے، اور جہاں سیاست کو خدمت سمجھا جاتا ہے۔سندھ کی سرزمین نے عورتوں کو بھی وہ مقام دیا جو شاید برصغیر کے کسی اور خطے نے نہ دیا ہو۔ محترمہ بینظیر بھٹو اس کی سب سے بڑی مثال ہیں، جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری مسلم دنیا کی خواتین کیلئے قیادت کے نئے دروازے کھولے۔ آج بھی فریال تالپور، ناصرہ شیرازی، شیری رحمان، اور دیگر خواتین رہنما سندھ کی سیاسی اور سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔سندھ کے لوگ صبر، محبت، علم اور ادب کے متوالے ہیں۔ یہاں کے شاعر اپنی مٹی سے جڑے ہوئے ہیں۔ فہمیدہ ریاض، شیخ ایاز، اور امر جلیل جیسے لکھاریوں نے سندھ کی روح کو الفاظ میں سمویا۔ ان کے افسانے، نظمیں اور شاعری صرف ادبی تخلیقات نہیں بلکہ سندھ کی تاریخ، دکھ، خوشی، اور جدوجہد کا عکس ہیں۔آج جب دنیا انتہاپسندی، تعصب اور نفرت کی سیاست میں الجھی ہوئی ہے، سندھ اب بھی انسانیت کا قلعہ ہے۔ یہاں کے درویش اور صوفی آج بھی انسان کو محبت کا درس دیتے ہیں۔ بھٹ شاہ سے لے کر سیہون شریف تک، ان مزاروں پر ہر مسلک، ہر طبقے، اور ہر زبان کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ یہ وہ منظر ہے جو دنیا کو بتاتا ہے کہ سندھ محض ایک صوبہ نہیں بلکہ انسانیت کا پیغام ہے۔سندھ کا دریائے سندھ، جسے مقامی زبان میں ’’میتھی ندی‘‘ کہا جاتا ہے، اس سرزمین کی شہ رگ ہے۔ اس دریا نے نہ صرف زمین کو زرخیز بنایا بلکہ تہذیبوں کو جنم دیا۔ آج بھی سندھ کی زراعت، معیشت اور ثقافت اسی دریا کی مرہون منت ہے۔ سندھ کا کسان جب کھیتوں میں ہل چلاتا ہے تو گویا تاریخ اپنی سانسیں تازہ کرتی ہے۔

سندھ کی عظمت اسکے ماضی، حال اور مستقبل میں یکساں جھلکتی ہے۔ یہ وہ زمین ہے جہاں تہذیب نے جنم لیا، جہاں محبت نے زبان پائی، اور جہاں انسانیت نے پہچان پائی۔ آج کے نوجوانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ورثے کو زندہ رکھیں، اس کی ثقافت کو دنیا بھر میں روشناس کرائیں، اور سندھ کے اصل چہرے کو پیش کریں جو امن، ترقی اور انسانیت کی علامت ہے۔سندھ واقعی ایک مینار نور ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کیلئے امید، برداشت اور تہذیب کا استعارہ ہے۔

تازہ ترین