• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان سے متعلق تحریر کئے گئے کالموں کے بعد بعض قارئین نے سوال اُٹھایا کہ پاک افغان تعلقات میں بگاڑ کب پیدا ہوا، اس حوالے سے کچھ لکھا جائے۔ پاکستان کے وجود کو تو پہلے ہی تسلیم نہیں کیا گیا تھا لیکن سقوط ڈھاکہ کے بعد جب سردار داؤد خان حکمران بنے تو پشتون علاقوں پر تسلط جمانے کی کوششیں تیز تر ہوگئیں۔ سردار داؤد، جو اس سے پہلے بھی کئی بار اپنے کزن ظاہر شاہ کا تختہ اُلٹ کر اقتدار سنبھالنے کے منصوبے بنا چکے تھے، نے17جولائی 1973ء کو کامیاب بغاوت کے بعد بادشاہی نظام ختم کرکے جمہوریت رائج کردی اور خود افغانستان کے پہلے صدر بن گئے، ظاہر شاہ کا بنایا ہوا آئین معطل کرکے پارلیمنٹ ختم کردی اور اس جگہ لویہ جرگہ کا نظام متعارف کروادیا۔چند ماہ بعد ہی اکتوبر 1973ء میں سردار داؤدکیخلاف بغاوت کی کوشش ناکام بنائے جانیکا دعویٰ کیا گیا اور سابق وزیراعظم محمد ہاشم میوند خیل کو اس الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔مختصر عرصہ میں سردار داؤد نے اپنی رٹ قائم کرلی اور بشمول نیشنل بنک افغانستان کے تمام بنکوں کو نیشنلائز کردیا۔سردار داؤد سے متعلق ایک غیر مصدقہ روایت بہت مشہور ہوئی۔جسکی تفصیل کچھ یوں ہے کہ کابل میں تانگہ گھوڑا بطور سواری استعمال ہوتا تھا۔کرائے بڑھنے کی شکایت ملی تو سردار داؤد بھیس بدل کر ایک کوچوان کے پاس گئے اور اسے پل چرخی جانے کو کہا، اس نے جواب دیا کہ میںسرکاری نرخنامے پر کام نہیں کرتا۔ داؤد خان نے کہا، اچھا 20افغانی دونگا۔ کوچوان نے کہا، تھوڑا اوپر جاؤ۔ داؤد نے کہا، 25افغانی، کوچوان بولا، مزید اوپر جاؤ۔ سردار داؤد نے کہا، 30افغانی، کوچوان بولا، کچھ اور اوپر جاؤ، داؤد خان نے کہا، 35افغانی، کوچوان نے کہا مارو تالی۔ تانگے پر بیٹھنے کے بعد کوچوان نے پوچھا، کامریڈ ہو؟ داؤد خان نے کہا، اوپر جاؤ۔ کوچوان نے کہا، پولیس والے ہو۔ سردار داؤد خان بولے، اور اوپر جاؤ۔ کوچوان نے کہا، فوجی جنرل ہو؟ داؤد خان نے کہا، مزید اوپر جاؤ۔ کوچوان نے ہنستے ہوئے کہا، کہیں تم سردار داؤد تو نہیں؟داؤد خان نے کہا، مارو تالی۔ کوچوان کے چہرے کا رنگ اُڑگیا۔ اس نے ڈرتے ہوئے پوچھا، میرا کیا ہوگا، جرمانہ کیا جائیگا؟ سردار بولے، اوپر جاؤ۔ کوچوان نے گھبرا کر پوچھا، جیل بھیجا جائیگا؟ داؤد خان نے کہا، اور اوپر جاؤ۔ کوچوان ہکلانے لگا اور پوچھا، کیا جلا وطن کردیا جاؤں گا؟ سردار داؤد خان بولے تھوڑا اور اوپر جاؤ۔ کوچوان پاؤں پڑ گیا اور کہنے لگا، کیا مجھے پھانسی دیدی جائیگی، سردار داؤد نے کہا، مارو تالی۔ سردارداؤد خان قوم پرست تھے اور ڈیورنڈ لائن کو ختم کرکے سرحد کے دونوں طرف آباد پشتونوں کو ایک کرنا چاہتے تھے۔ انکی قوم پرست پالیسیوں کے باعث شمال مغربی سرحدی صوبے یعنی موجودہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی پشتون بیلٹ میں حالات خراب ہونے لگے۔ 8فروری1975ء کو وزیراعلیٰ حیات محمد خان شیرپاؤ بم دھماکے میں مارے گئے تو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی کو اسکا ذمہ دارقراردیتے ہوئے پشتون قیادت کو گرفتار کرلیا اور نیپ پر پابندی لگا دی ۔پاکستان نے افغانستان کو بھی ان واقعات کا ذمہ دار قراردیا۔ افغان حکومت نے سرحدی گاندھی عبدالغفار خان المعروف باچا خان اور اجمل خٹک سمیت بعض پشتون رہنماؤں کو جلال آباد اور کابل میں پناہ دے رکھی تھی جس سے پختونستان کی تحریک زور پکڑرہی تھی۔ بھٹو نے افغان حکومت کو اسی انداز میں جواب دینے کیلئے دفترخارجہ میں افغان سیل قائم کردیا۔یہ سیل جسکی سربراہی بھٹو خود کیا کرتے تھے اس میں ڈی جی آئی ایس آئی اور آئی جی ایف سی بھی شریک ہوتے۔ پاکستان کی آشیر باد سے احمد شاہ مسعود،برہان الدین ربانی اور حکمت یار نے وادی پنجشیر میں سردار داؤد حکومت کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا۔ اس مزاحمتی تحریک کے دوران کیمونزم مخالف جذبات اُبھارے گئے۔بعد ازاں یہ افغان جہادی فرار ہوکر پاکستان آگئے اور یہاں انکی سرپرستی کی جانے لگی۔ صدر داؤد کی دعوت پر وزیراعظم بھٹو نے 7سے10جولائی 1976ء کو افغانستان کا دورہ کیا اور پھر اگست 1976ء میں افغان صدر داؤد اسلام آباد آئے۔حکومت پاکستان کی طرف سے افغان صدر کا گرمجوش استقبال کیا گیا۔ بھٹو کی طرف سےمہمان کی خوب آؤبھگت کی گئی،سردار داؤد نے لاہور میں شالامار باغ کا دورہ کیا اور پاکستانی شہریوں سے خطاب بھی کیا مگر بھٹو کی سحر انگیز شخصیت کے باوجود مذاکرات کی میز پر کوئی خاص پیشرفت نہ ہوسکی۔ بعدازاں بھٹو اندرونی مسائل میں اُلجھ کر رہ گئے اور پھر 5جولائی1977ء کو جنرل ضیاالحق نے بھٹو کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ سردار داؤد خان،جو روس نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کے تعاون سے ظاہر شاہ کیخلاف بغاوت کرکےصدر بنےتھے اور ابتدائی چند برس کے دوران روس اور بھارت سے خاطر خواہ فوجی امداد حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے، اب سویت یونین سے کسی حد تک مایوس ہوچکے تھے اور کیمونزم پر انحصار ختم کرکے افغانستان کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنا چاہتے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی PDPA کی بنیادافغان دانشورنور محمد ترکئی،میر اکبر خیبراور ببرک کارمل نے رکھی۔میر اکبر خیبر جو کابل ملٹری اکیڈمی کے گریجویٹ تھے، انہیں 1950ء میں فوج میں سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کے الزام میں قید کی سزا سنائی گئی،جیل میں انکی ملاقات کابل یونیورسٹی کے طالبعلم ببرک کارمل سے ہوئی اور جیل سے رہائی کے بعد ان دونوں نے محفل کے نام سے فکری نشست کا اہتمام کیا جس نے آگے چل کر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کی شکل اختیار کی۔باقی باتیں آئندہ ہونگی ۔

تازہ ترین