شیطان نے جب آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور خدا نے اسے ذلیل کرکے دفع ہوجانے کا حکم دیا تو اس نے مہلت مانگی ۔ یومِ حشر تک کی مہلت مل چکی تو خدا سےکہنے لگا : تو نے جو مجھے اس (آدم) کی وجہ سے گمراہ کیاتو میں اب اس کی گھات میں بیٹھوں گا اور میں ضرور ان کے پاس آؤں گا، ان (انسانوں)کے آگے اور ان کے پیچھے سے، ان کے دائیں اور ان کے بائیں سے اور تو ان میں سے اکثر کو شکرگزار نہ پائے گا۔( الاعراف17)
دائیں بائیں، آگے پیچھے سے کیا مراد ہے ۔مطلب یہ ہے کہ جیسے میرا دل چاہے گا، میں با آسانی انسان کوگمراہ کرونگا۔انسان کو اس نے ماسی کا ویہڑہ سمجھ لیا تھا۔ انسان جب گناہ کر رہا ہوتاہے تو اندر ہی اندروہ جانتا ہے کہ میں گمراہی پر ہوں ۔ جب مگر وہ نیکی کے راستے پر ہوتاہے تو کیا شیطان اس انسان سے دستبردار ہو جاتاہے ؟ ہر گز نہیں ۔ شیطان نیکوکاروں کیلئےایک خاص منصوبہ بناتا ہے ۔ یہ نیک شخص کے دماغ میں اسکی نیکی کا ایک بت بناتا ہے۔ اسکے دماغ میں اپنی نیکی کا غرور پیدا کرتاہے ۔ انسان بچ اس لیے بھی نہیں سکتا کہ اپنے تئیں جب وہ ہے ہی نیکی کے راستے پر تو اب کس چیز سے بچے ۔
ایک معروف لکھاری نے ایک مرتبہ رمضان المبارک میں لکھا : دنیا میں ایسے بھی سادہ لوگ ہیں ، جو سمجھتے ہیں کہ شیطان نامی ایک مخلوق واقعی Exist کرتی اور رمضان میں قید کر دی جاتی ہے ۔ دراصل یہ شیطان نہیں ، خدا کا انکار ہے ۔ شیطان کی اپنی تو کوئی حیثیت نہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ کائنات، یہ کہکشائیں ،یہ بلیک ہول، یہ ستارے اور سیارے اپنے آپ وجود میں آئے ۔اسکے بعد ایک سیارے پر اپنے آپ اتفاقاًزندگی وجود میں آئی۔
کہنا وہ یہ چاہتے ہیں کہ سیانو بیکٹیریا کا زمین پہ آکسیجن کا انقلاب پیدا کرنا اتفاق ہے ۔ زیرِ زمین تیل سے لے کر لوہے تک کی ضروریات زندگی کا پایا جانا اتفاق ہے ۔ابتدائی زمین پہ دمدار ستاروں سے لوہے اور پانی کا نازل ہونا اتفاق ہے ۔ اتفاقاً پودےجانوروں کی خوراک پیدا کرنے لگے۔ توکیا اوزون بھی ایک اتفاق ہے اور کرہ ء ارض کی فضا (Atomosphere)جسکے نہ ہونے سے زمین مریخ بن جاتی۔
امیون سسٹم سمیت جانداروں کے اپنے اندر بے پناہ نشانیاں ہیں ، جنکے بغیر زندگی ممکن نہ ہوتی ۔
فاسلز کا علم کہتا ہے کہ کم از کم اکیس قسم کی انسانی سپیشیز ماضی میں فنا ہو چکیں۔ قرآن کہتاہے کہ انسان پر ایک طویل وقت ایسا گزر چکا ہے ، جب وہ کوئی قابلِ ذکر شے نہیں تھا ۔ یہ اکیس انسان اگر نہ ہوتے تو آج کا آدمی بھی نہ ہوتا ۔اکیس قسم کی سپیشیز گزرجانے کے بعد اس طرح کی عقل انسان میں پیدا ہوئی ۔ خدا کہتاہے کہ انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا مگر یہ بھی کہ ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا ۔مکمل تصویر جب تک نہ دیکھیں گے ، کچھ سمجھ نہیں آئے گا۔ Earth Sciencesاور حیاتیات چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں کہ پہلے کسی نے ضروریاتِ زندگی پید اکیں پھر پہلا زندہ خلیہ پید اکیا۔ باقی سب تفصیلات ہیں ۔
شیطان کو تو خیر ہم دیکھ نہیں سکتے ۔ اس لیے اس کیلئے انسان کو گمراہ کرنا آسان ہے ۔ وہ انسان کے کان میں پھونکتا ہے ۔ ایک شبیہ دکھاتا ہے ۔ نفس اسکی طرف سے لہرائی گئی شبیہ پہ اس طرح لپکتا ہے ، جیسے بھوکا کتا گوشت پہ ۔شیطان کو نہیں دیکھ سکتے تو نفس کو تو ہم روز مرہ زندگی میں دیکھ ہی سکتے ہیں ۔اگر دیکھنے کی نیت ہو تو۔ میں سڑک پہ کسی کے ساتھ اچھائی کر لوں تو کیوں دل چاہتاہے کہ اس کی وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پہ اپ لوڈ کروں اوراپنی نیکی کی منادی کرتا پھروں۔ لوگ سوشل میڈیا پہ بری طرح ٹرول ہوتے ہیں ، سوشل میڈیا چھوڑنے کا اعلان کرتے ہیں مگر چند دن بعد پھر واپس کیوں نمودار ہوجاتے ہیں ۔ اس سوشل میڈیا نے انسان کی نفسانی خواہشات کے جسم کو اسکی گردن سے دبوچ رکھا ہے ۔
کوئی شخص آپ کی تذلیل کرے، بیس سال بعد بھی آپ کے دل میں اس سے انتقام لینے کی خواہش کیوں زندہ رہتی ہے ۔ یہ سب نفسانی خواہشات تمام انسانوں میں ایک جیسی ہیں بلکہ ایک جانور کی بنیادی جبلتیں بھی یہی ہیں بلکہ یہ جبلتیں پہلے خلیے سے سفر طے کرتی ہوئی انسان تک پہنچی ہیں ۔
شیطان چونکہ نینڈرتھل سمیت 21 انسانی سپیشیز کو بھگتا چکا تھا ۔ 4.6ارب سال میں ان جبلتوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے پید اہوتا دیکھ چکا تھا ، اس لیے اس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ میں انسانوں کو جیسے چاہوں گا ، بہکاؤں گا ۔
خضر بھی بے دست و پا، الیاس بھی بے دست و پا
میرے طوفاں یم بہ یم ، دریا بہ دریا ، جُو بہ جُو