• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عرصہ دراز بعد ، کل میاں نواز شریف نے سیاسی انگڑائی لی اور پرانا بیانیہ دُہرایا کہ ’’عمران خان کیساتھ جو شریک جرم رہے انکاحساب ضروری ہے ‘‘۔ سیاسی انجینئرز کا معترف ، ستر برس میں مجال ہے اپنے ادارے یا اپنے وضع رہنما اصولوں پر کبھی آنچ آنے دی ہو ۔ اچنبھے کی بات نہیں ، جنرل ایوب ، جنرل یحییٰ ، جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف ، سب کے سب آئین شکن مگر باجماعت قومی اعزازات کیساتھ دفنائے گئے ۔

2013 میں نواز شریف نے سپریم کورٹ کے حکم پر جنرل مشرف کیخلاف آئین شکنی کا مقدمہ چلانے کی جرات کی تو پلک جھپکتے نواز شریف سے لیکر جج وقار سیٹھ اور وکیل اکرم شیخ تک ، سب کو اوقات بتا دی گئی ۔ نواز شریف کو کریڈٹ کہ اپنی’’ بُکل میں سب مفاہمتی‘‘ کے باوجود جب بھی موقع ملا قومی مجرموں کی نشاندہی میں بُخل نہیں برتا ۔ اکتوبر 2020 میں PDM ، پیپلز پارٹی اور ANP کی عمران ہٹاؤ مہم دراصل باجوہ گیم پلان تھی ۔ اپوزیشن جماعتیں فقط مہرہ ناچیز ، منصوبہ کسی کا ، عملدرآمد کیلئے مہرے پیش پیش رہے ۔ مہم کا آغاز 20 اکتوبر 2020 کو گوجرانوالہ سے ہوا کہ نواز شریف کی تقریر سے باجوہ پلان بن کھلے مرجھا گیا ۔ تقریر کا لب لباب ! ’’عمران خان سے میرا کوئی جھگڑا نہیں، وہ تو فقط مہرہ ناچیز ، میرے مجرم جنرل باجوہ اور جنرل فیض آپ ہیں ‘‘۔ وطنی بدقسمتی کہ پاکستان میں مقبول سیاست کا انحصار یعنی کہ جزو لاینفک اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ جس کسی نے بھی اپنایا، رفعتیں ملیں ۔ جو کوئی بھی ، جب کبھی اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بنا ، انکی سیاست پلک جھپکتے زمیں بوس ہو گئی ۔

جیسے ہی عمران خان شہیدِ جمہوریت بنا اور نواز شریف نے پرواسٹیبلشمنٹ بیانیہ اپنایا ، دونوں کی غیرمقبولیت اور مقبولیت کا ادلہ بدلہ اُسی لمحے ہو گیا ۔ باوجودیکہ کہ 2000 میں نواز شریف ایک تضحیک آمیز معاہدہ کرکے جلا وطن ہوئے ، چونکہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ سے پیچھے نہ ہٹے ، 24 نومبر 2007 وطن واپسی سے لیکر جنوری 2022 تک فقط مخاصمتی بیانیہ کے بل بوتے پرمقبولیت کی پہلی تینوں پوزیشنز پر بنفس نفیس موجود تھے ۔ اِدھر مسلم لیگ کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ، پرواسٹیبلشمنٹ میں بدلا ، اُدھر نواز شریف کی مقبول سیاست کا جنازہ نکل گیا ۔ 11 اپریل 2022 کو شہباز شریف کی بطور وزیراعظم تقریب حلف برداری میں شریک ہوا تو اگلے دن (12 اپریل 2022 ) اپنے وی لاگ میں صراحت کیساتھ بتایا کہ ’’اگرچہ وزیراعظم مسلم لیگ ن کا بن گیا ہے ، مقبول سیاست ابدی نیند سو گئی ، دوسری طرف عمران خان وزیراعظم نہیں رہے مگر سیاست ہمیشہ کیلئے زندہ و جاوید ہو گئی ‘‘۔ میرے لئے ایک سانحہ تھا کہ میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ، نواز شریف سیاست سے اپنا آئیڈیلزم نتھی کر چکا تھا ۔

خود فریبی کی اپنی افادیت ، خوابیدگی حقائق سے منہ چھپانے کی ترغیب دیتی ہے ۔ آج اگر نواز شریف سیاست بے جان ہے تو میاں صاحب بنفس نفیس ذمہ دار ہیں ۔ افسوس قحط الرجال کے ماحول میں اکلوتا نواز شریف ہی تو تھا جو اپنوں کی ہوس اقتدار کی بھینٹ چڑھ گیا ۔ اس سے بڑی وطنی بدنصیبی کیا ہوگی کہ عمران خان نے ساری زندگی مفاہمتی سیاست پروان چڑھائی ، آج مخاصمتی سیاست کے بل بوتےپر ملکی سیاست اپنے قبضہ میں لے چکا ہے ۔ چند ایک کل وقتی مجبور چھوڑ کر عمومی وطنی اتفاق عام کہ خلقت پاکستان عمران خان کے ہیجان میں مبتلا ہے ۔ بھاری دل کیساتھ دُہراتا ہوں کہ جہاں عمران خان سیاست مرجع خلائق بن چکی وہاں نواز شریف سیاست راندہ درگاہ ہو چکی ۔ عمران خان کی سیاسی سربلندی کا سہرا بہرحال کسی مسٹر جینئس کو دینا ہوگا ۔ کس تگ و دو سے نواز شریف پر کراس لگا کر عمران خان کی تقویم و تشکیل عمل میں آئی ، آج مسٹر جینئس کے تیار کردہ فرینکسٹائن نے ملک سمیت سب کو بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے ۔

تاریخ کے اوراق سے ایک واقعہ من و عن پیش کرنا ہے ۔ سلطانُ العلما محمد بن حسین بہاءالدین ولد (1152ء بلخ – 1231ء قونیہ) سکہ بند فقیہ ، غیر معمولی واعظ ، مفسرِ قرآن و حدیث ، جلیل القدر صوفی رہنما ، مولانا جلال الدین رومی کے والد و اولین مرشد تھے ۔ سلطنت خوارزمیہ میں بلخ کا وہ زمانہ بہاءالدین ولد کے روحانی فیضان سے روشن تھا۔ انکی مجلسیں علم ، نور اور محبت کے دریا کی مانند بہتی تھیں ، شہر کی فضا انکے وعظ، پند و نصیحت سے مہکتی تھی ۔ ہزاروں نہیں ، لاکھوں عقیدت مند صبح سے شام انکی خانقاہ پر جمع رہتے ۔ ان دنوں کی سلطنتِ خوارزمیہ ، آرمینیا و جارجیا سے لیکر کرغزستان ، قازقستان ، ازبکستان اور جنوب میں افغانستان ، بلوچستان اور ایران تک پھیلی تھی ، جہاں علاؤالدین محمد خوارزم شاہ تخت نشین تھے ۔ ایک روز بادشاہ کے مشیرِ خاص اور چند درباری بہاء الدین کی خانقاہ کے پاس سے گزرے ، جہاںخلقِ خدا کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجزن تھا ، خلقت ایثار ، عشق و عقیدت سے سرشار ، بہاء الدین پر نچھاور تھی ۔ مشیر خاص نے دربار میں پہنچتے ہی بغیر لگی لپٹی بادشاہ کو من و عن آنکھوں دیکھا حال کہہ دیا ، ’’اے سلطان ! تمہارے پاس اب صرف خزانہ اور لشکر باقی ہیں ۔ تمہاری رعیت بہاء الدین کے قدموں میں ڈھیر ہو چکی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ تمہاری رعایا کے دلوں کاحقیقی حکمران بہاء الدین ولد ہے ‘‘ ۔ جملہ جیسے خوارزم شاہ کے سینے پر تیر کی طرح پیوست ۔ فوری طور پر بہاء الدین کے مدرسے جاپہنچا اور اپنی آنکھوں سے لاکھوں اشکبار سامعین و معتقدین کا بحرِ بے کراں ملاحظہ فرمایا ۔ بہاء الدین کی پُراثر خطابت سنی تو بے اختیار بہاء الدین کے پاس جا پہنچا ۔ اعترافاً کہا کہ’’ حضرت ! اب جبکہ مملکت آپکے قدموں میں ڈھیر ہوچکی ہے ، میرے پاس خالی خزانے کی چابیاں رہ گئیں ہیں ، یہ میں آپکی نذر کرتا ہوں‘‘۔ بہاء الدین کو بخوبی ادراک ہو گیا کہ بلخ کی فضا مسموم ہو چکی ہے ، تنگ نظری اور حسد بلخ کی ہوائیں زہر آلود کر گئےہیں ، چنانچہ اب بلخ میں قیام ممکن نہیں رہا ۔ بہاء الدین نے راتوں رات کمسن بیٹے جلال الدین رومی کا ہاتھ تھاما باپ بیٹا خاموشی سے بلخ سے رخصت ہو گئے ۔ نیشاپور ، بغداد اور حجاز سے گزرتے ہوئے بالآخر قونیہ میں جا آباد ہوئے ، جو بعدازاں رومی کے عشق ، معرفت اور مثنوی کی لازوال دنیا بنی ۔ جہاں رومی نے انسانیت کے دلوں کو مسخر کیا ۔

جب حکومتی سیاسی جماعت کا اعترافی بیان سنتے ہیں کہ ’’ہم نے سیاسی سرمایہ کھویا دیا ہے ‘‘اور جب یوٹیوبر برملا اظہارکرتے ہیں، وطنی سیاسی تجزیہ کار اور دانشور اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ’وطنی عوام کی کثیر تعداد عمران خان کی طوفانی سیاست سے سرشار اور بے خود ہے‘ تو حکومت اور حکومتی ہمدرد میڈیا ایک ہی بات کہہ رہے ہوتے ہیں ۔ کہنے میں کیا حرج کہ حکومت کے پاس اب صرف خزانہ اورلشکر کے سوا کچھ نہیں بچا ، دردمندی سے مشورہ دونگا کہ خزانے کی چابیاں اور لشکر کی کمان عمران خان کے حوالے کر دے یا پھر عمران خان اپنے طور مفاہمت کرکے گمنامی اختیار کرلے ۔ وطن عزیز کا مستقبل ان میں سے ایک کیساتھ جڑا ہے ۔ یقین دلاتا ہوں کہ بصورت دیگر حالات مملکت کو گھائل رکھیں گے ۔ باقی رہے نام اللہ کا ۔

تازہ ترین