• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

سال کے درمیان میں اینٹری

اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ متبرک صفحہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ صرف ایک شمارے میں موجود تھا۔ ’’دُروز، ایک پُراسرار مذہبی گروہ‘‘، اس گروہ سے متعلق پڑھ کر تو رونگٹے ہی کھڑے ہوگئے۔ ’’نیپا‘‘ جہاں مُلک کا مستقبل تعمیر ہوتا ہے، بہت ہی معلوماتی ’’رپورٹ‘‘ تھی۔ ٹیکنالوجی نے واقعی دنیا بدل کر رکھ دی ہے۔ 

پچاس سال پہلے کا دَور دیکھنے والے یہ دَور دیکھ کر تو انگشتِ بدنداں ہی رہ گئے ہوں گے۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں اِس بار عرفان جاوید نے ’’ماٹی کہے کمہار سے‘‘ منتخب کیا۔ بہت ہی شان دار انتخاب تھا۔ ’’سفر فسانے، تین بھائی پیرو میں‘‘ کا آخری حصّہ بہت ہی دل چسپ تھا۔

دوسرے شمارے کو ’’عورت نمبر‘‘ نہ کہیں، تو زیادتی ہوگی، کیوں کہ اُس کے کئی مضامین میں عورت کی عظمت کو بخوبی اجاگر کیا گیا۔ شمائلہ ناز کا شکریہ کہ اُنہیں میرے خطوط پسند آتے ہیں۔ محمّد سلیم راجا نے سال کے درمیان میں اینٹری دی ہے، اس کے باوجود وہ سال بھر میں ’’اِس ہفتے کی چِٹھی‘‘ کا اعزاز پانے والوں میں سرِفہرست رہیں گے۔ اِن شاء اللہ۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: اندازہ تو ہمارا بھی یہی ہے کہ راجا صاحب سال کے مِڈ میں ضرور آئے ہیں، مگرچوں کہ بلاناغہ آرہے ہیں، تو اعزاز یافتگان میں سرِفہرست ہی رہیں گے۔

دھوکا کھا گئیں؟

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی نے ایک اور ’’روشنی کے مینار‘‘ کے حالاتِ زندگی بیان کیے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں رؤف ظفر پاکستان میں آنے والے سیلابوں کی تفصیل بتا رہے تھے۔ فرحین العاص نے مارگلہ ہلز کی ابتر صورتِ حال پر توجّہ مبذول کروائی، تو عبدالستار ترین نے بلوچستان کی گرین بیلٹ کی طرف۔ 

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے شنگھائی تعاون کو مغرب کے لیے اُبھرتا چیلنج قرار دیا۔ ’’کہی ان کہی‘‘ میں وحید زہیر نے ہر دل عزیز فن کار، سیلانی طبیعت ڈائریکٹر ایوب کھوسو سے بات چیت کی۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں ذکیہ مشہدی کا فسانہ حقیقت سے قریب ترتھا۔ 

محمد عمیر جمیل نے مسلمان سائنس دانوں کی بابت معلومات فراہم کیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں قرات نقوی کی والدہ بھی دھوکا کھا گئیں اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا خط شامل نہیں تھا۔ اگلے ایڈیشن کے ’’فیچر‘‘ میں منور راجپوت نے اخبار فروشوں کے مسائل عُمدگی سے اجاگر کیے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا امنِ عامّہ کے لیے امریکی کردار مشکوک قرار دے رہے تھے۔ 

حافظ بلال بشیر نے اپنے مضمون میں ’’عالمی یومِ امن‘‘ کو جھوٹ، لغو قرار دے دیا۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں ڈاکٹر اسلم فرخی نے مسعود الحسن تابش دہلوی کی یادیں تازہ کیں۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ کے افسانے کی پہلی قسط سمجھ نہیں آئی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘‘ میں طلعت نفیس نے بہترین افسانہ لکھا، تو ڈاکٹر عزیزہ انجم نے سیّد ابو الاعلیٰ مودودی کو شان دار خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا خط شائع کرنے کا شکریہ۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

قلم کا کرشمہ

رسالہ موصول ہوا، سرورق پرماڈل کا چہرہ مرکری بلب کی طرح چمک رہا تھا۔ اب پتا نہیں، اصل جمال تھا یا کیمرے کا حُسنِ کمال؟ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم، حضرت عتبہ بن رضوانؓ کی ہمّت و شجاعت کے کارنامے بیان کیے گئے۔ ’’فیچر‘‘ میں منور راجپوت، اخبار فروش کی سخت محنت، جفاکشی کے باوجود اَن گنت مسائل کا احاطہ کررہے تھے۔ 

بے شک، ہاکر بے چارہ عید، بقرعید، اپنی غمی، خوشی چھوڑ کر اخبار تقسیم کرتا ہے۔ آفرین ہے، ایسی حلال روزی کمانے والے پر۔ مگر افسوس، آج اخبار بینی کا ذوق و شوق بہت کم ہوگیا ہے۔ جوان نسل تو نوکری کے اشتہارات کے علاوہ کچھ پڑھتی ہی نہیں، پہلے اَن پڑھ لوگ بھی اخبار خرید کر کسی پڑھے لکھے سے پڑھوا کر سُنتے تھے۔ 

حکومت اِتنا ہی کر دے کہ ہر دفتر، اسکول و کالج، سرکاری و نجی اداروں میں اخبارلینا لازم کردے تو سرکولیشن کئی گُنا بڑھ سکتی ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا، قطر پر اسرائیلی جارحیت کاتجزیہ کررہے تھے۔ افسوس ہےکہ امریکا، قطر میں سب سے بڑا فوجی اڈّا رکھتا ہے، جس کی حفاظت کے نام پر، قطر سے اربوں ڈالر وصول کرتا ہے، مگر جب اسرائیل حملہ کرتا ہے، تو خاموش تماشائی بن جاتا ہے۔ 

یہ پاک، سعودیہ دفاعی معاہدہ اِسی امریکی بےوفائی کے تناظر میں ہوا ہے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کا رائٹ اَپ شائستہ اظہر نے تحریر کیا۔ محمّد کاشف مُلک کے پالیسی ریٹ اور معیشت پر تبصرہ کر رہے تھے۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں محمد اسلم فرخی نے اُردو کے مایہ ناز، غزل گو شاعر مسعود الحسن تابش دہلوی کے علمی و ادبی کارنامے بیان کیے۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں عرفان جاوید زاہدہ حنا کے افسانے ’’نمشکار‘‘ کی پہلی قسط لائے، لاجواب انتخاب تھا۔ 

ڈاکٹر محمّد ریاض بھی’’حقوقِ نسواں‘‘کے عنوان سے فکری تحریر لائے کہ مغرب نے عورت کو مساوات کے نام پرجنسِ بازار ہی بنا دیا ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں طلعت نفیس پردیسی اولاد کے غم میں مبتلا والدین کا تذکرہ کررہی تھیں۔ 

ڈاکٹر عزیزہ انجم نے ’’پسِ غروب روشنی‘‘ کے چند اشعار میں سید ابوالاعلیٰ مودویؒ کی شخصیت اور کارناموں کو خوب اجاگر کیا، گویا سمندر کو کوزے میں بند کردیا۔ 

اب آپہنچے ہیں، اپنے پیارے صفحے پر، محمّد سلیم راجا ایکسپریس کو پلیٹ فارم نمبر1پر براجمان پایا، مبارکاں۔ باقی لکھاری بھی اچھی کاوشیں لائے۔ اب پتا نہیں،تحاریرہی اچھی تھیں یا آپ کے قلم کا کرشمہ ہے۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: آپ اپنی تحریر کی ایڈیٹنگ کے تناظر میں پرکھ لیا کریں۔

سائز مستقلاً بڑھا دیں

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کی تحریر پڑھی، ہمیشہ کی طرح بہت اچھی لگی۔ عرفان جاوید ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں ’’نمشکار‘‘ کے ساتھ موجود تھے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر بنیش صدیقہ کی والیٔ بھوپال، نواب سکندر جہاں بیگم پرنگارش لائقِ مطالعہ تھی۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں شگفتہ فرحت نے محمد احمد سبزواری پر اچھا مضمون تحریر تھا۔ 

جنگ ہی کے صفحات میں اِن کے کالمز پڑھے جاتے تھے، ماشاء اللہ ایک سو سال کی عُمر پائی تھی۔ اِس مرتبہ تو آپ نے امریکا والوں کے لیے ’’گوشئہ برقی خطوط‘‘ کا کالم ڈبل ہی کردیا۔ اِس کا سائز مستقلاً ہی بڑھا دیں تاکہ ای میل کرنے والوں کی باری بھی جلد آسکے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: پھر خطوط نگاروں کو شکایت ہونے لگے گی۔ ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ والے بےچارے تو عادی ہیں۔ تب ہی جب کبھی کبھار ای میلز کے لیے اسپیس بڑھائی جاتی ہے، تو اِن کی خوشی دیدنی ہوتی ہے، سو، بس انہیں اِسی میں خوش رہنے دیں۔

حق بحقدار رسید

اگست کے دوسرے ہفتے کا شمارہ ’’یومِ آزادی نمبر‘‘ ملا۔ سرسبز و شاداب سرِورق بہت اچھا لگا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رابعہ فاطمہ تحریکِ پاکستان میں خواتین کے کردار پر مفصّل، سیر حاصل تحریر کے ساتھ موجود تھیں۔ بلاشبہ، ان قابلِ قدر خواتین نے قیامِ پاکستان کے لیے بےمثال قربانیاں دیں، استقامت کا عملی مظاہرہ کیا۔ 

’’رپورٹ‘‘ میں ڈاکٹر ریاض علیمی ’’پاکستانی جامعات کا عالمی درجہ بندی سے اخراج، ایک فکری المیہ‘‘ کی شکل میں تجزیاتی مضمون لائے۔ ہماری جامعات میں عملی کام کی بجائے پیپر ورک پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ اس کی بجائے یونیورسٹیز میں پلانٹیشن اور اسمال پیداواری یونٹس لگائے جائیں تاکہ طلبہ کی مالی معاونت کے ساتھ ساتھ مُلکی پیداوار میں بھی اضافہ ہو، زبیر انصاری اساتذہ کی تکریم و ادب پراچھا مضمون لائے۔ 

اساتذہ کی تعظیم کے بغیر کوئی قوم ترقی کی راہ پر گام زن نہیں ہوسکتی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں مدثر اعجاز نے ’’پاکستان کا قیام کیوں ناگزیر تھا؟‘‘ اور ڈاکٹر ریاض نے ’’جشن آزادی یا طوفانِ بد تمیزی‘‘ کے عنوانات سے اچھی تحریریں لکھیں۔ سیدہ تحسین عابدی نے بھی پاکستان کے تاریخی سفر اور مستقبل کے روشن پہلوئوں کی مناسبت سے عمدہ مضمون تحریر کیا۔ 

دُعا ہے ؎ خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اُترے… وہ فصلِ گل، جسے اندیشہ زوال نہ ہو۔ ڈاکٹر عابد شیروانی ڈاکٹر علامہ اقبال کی خدمات و افکارات پر روشنی ڈال رہےتھے۔ واقعی، اقبال جیسی نابغۂ روزگار شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ ’’حالات وواقعات‘‘ میں منور مرزا آزادیٔ فلسطین کی نوید لائے۔ 

’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں تحریم فاطمہ نے بھی دل نشین انداز میں آزادی کا مطلب واضح کیا۔ منور راجپوت، تحریکِ آزادی کے نڈر، دلیر ہیرو قادو مکرانی کوخراجِ عقیدت پیش کر رہے تھے، تو’’نئی کہانی، نیافسانہ‘‘ میں ’’کج مدار‘‘ کی شکل میں معاشرے کے ابدی ٹیڑھے پن پرخُوب نشتر زنی کی گئی۔ 

وہ اسرار الحق مجاز نےکیا خوب کہا؎ بہت مشکل ہے دنیا کاسنورنا… تِری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے۔ ڈاکٹر طاہر نقوی کا سفر نامہ کلاسیک ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عندلیب زہرا کا ’’وعدہ‘‘ تجدیدِ عہد کا سندیسہ دے گیا، تو اقصیٰ منور ملک کا ’’گھر تو آخر اپنا ہے‘‘ بھی وطن کی محبت سے عبارت تھا۔ آخر میں بات، میگزین اور ہم سب کی جان ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی۔ 

’’گوشئہ برقی خطوط‘‘ میں ’’ای میل آف دی ویک‘‘ کے عنوان سے ایک ’’مشرقی لڑکی‘‘ پورے طمطراق سے نہ صرف جگمگا بلکہ اپنا لوہا منوا رہی تھی۔ آپ مشرقی لڑکی نہیں، ہماری مشرقی بہن ہیں اور محمّد سلیم راجا کو بھی ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا اعزاز مبارک ہو۔ وہ کیا ہے کہ حق بحق دار رسید۔ (جاوید اقبال، بلدیہ کالونی، چشتیاں، ضلع بہاول نگر)

ج: جی، مستند ہے ’’آپ کا‘‘ فرمایا ہوا۔

نا اہلی کا نوحہ

جنگ، سنڈے میگزین سے تعلق کوئی 22-20 سال پراناہے، اِس کے سبب علم ومعلومات میں بہت اضافہ ہوا۔ گرچہ آج سوشل میڈیا کا دَور ہے، لیکن ہمارا جریدے سے تعلق ہنوز برقرار ہے۔ صحابیٔ رسولؐ حضرت عدیؓ بن حاتم طائی پر ایمان افروز مضمون پڑھنے کو ملا۔ سیلاب سے متعلق رئوف ظفر کی ’’رپورٹ‘‘ توجّہ طلب تھی۔ 

نیشنل پارک اور بلوچستان کی گرین بیلٹ سے متعلق مضامین بھی حُکم رانوں کی نا اہلی کا نوحہ معلوم ہوئے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس اور مقاصد پر منور مرزا کا تجزیہ ہمیشہ کی طرح جان دار لگا۔ ’’کہی ان کہی‘‘ میں ایوب کھوسو سے سوال و جواب بہترین تھے۔ 

درمیانی صفحات پر کرن نعمان کی تحریر اچھے انداز سے لکھی گئی۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں ’’ہم جیسے‘‘عرفان جاوید کا لاجواب انتخاب ٹھہرا۔ ’’متفرق‘‘ میں مسلمان سائنس دانوں کے کارہائے نمایاں کا تذکرہ دل خوش کر گیا۔ 

ناقابلِ فراموش کے دونوں واقعات سبق آموز تھے۔ نئی کتابیں میں کتب کا تعارف خُوب رہا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں بھی ہر ایک قاری نے اپنے تیئں اچھا تبصرہ، تجزیہ پیش کرنےکی کوشش کی۔ (محمدعثمان، شاہ پور چاکر، ضلع سانگھڑ، سندھ)

متاثرکُن تحریریں

اس ہفتے کے میگزین میں جن تحریروں نے بےپناہ متاثر کیا، اُن میں ’’سوڈان، سرزمینِ ہنگام و انقلاب‘‘، فسانہ ’’نمش ذکر‘‘، ’’جنگلات کی کٹائی اور انسان کی محسن کُشی‘‘ وغیرہ شامل تھیں۔ تمام ہی لکھاریوں نے اپنی نگارشات میں عُمدہ اسلوب بڑی خُوب صُورتی سے نبھایا۔ (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)

                  فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

ستمبر کا دوسرا شمارہ لائبریری کے پُرسکون ماحول میں پڑھنے کا موقع مل رہا ہے۔ خاموشی ہوتو پڑھا بھی جاتا ہے اور لکھا بھی۔ سیلاب کی صورتِ حال نےعوام کی اکثریت کو پریشان کر رکھا ہے۔ گھربار بہہ جائے تو اس کرب کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔

رؤف ظفر نے اس موضوع پر عُمدہ ’’رپورٹ‘‘ تیار کی۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر ڈیم بنا لیے جاتے تو شاید صورتِ حال اتنی گمبھیر نہ ہوتی، مگر اگر یہ سب ہوجاتا تو پھر سیاست دان اپنا چورن کہاں بیچتے۔ عوامی فلاح و بہبود کے کام اِسی لیے تو روک رکھے جاتے ہیں کہ اُنہیں زبانی جیب خرچ سے کیش کروایا جاسکے۔ 

ماضی کےمعروف اداکار ایوب کھوسو کا ’’انٹرویو‘‘ بھی دل چسپ رہا۔ کہتے ہیں کہ انسان کو وہ کام کرنا چاہیے، جو اُس کا شوق اور جنون ہو، بے شک اُس میں پیسا نہ ہو۔ ایوب کھوسو اگر بینک کی جاب کرتے رہتے تو شاید اتنے مطمئن نہ ہوتے، جتنے اپنے جنون یعنی اداکاری سے ہوئے۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں اس دفعہ عرفان جاوید کا انتخاب ذکیہ مشہدی کا خُوب صُورت افسانہ ’’ہم جیسے‘‘ تھا۔

خواجہ سراؤں کی زندگی، طرزِ زندگی پر بہترین طرزِ اسلوب تھا اور کہانی کا اختتام ہی خواجہ سرائوں کی زندگی کی حقیقت ہے کہ جو فرق قدرت نے اُن میں رکھ دیا، سو رکھ دیا۔ باقی وہ بھی زندگی سے نبردآزما ’’ہم جیسے‘‘ انسان ہی ہیں۔ ’’متفرق‘‘ میں محمّد عمیر جمیل اور نصرت عباس داسو کی تحریریں معلوماتی اور دل چسپ تھیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں مہر محمد بخش نول کی اپنی والدہ کے لیے لکھی تحریر بہت متاثرکُن تھی۔ 

پڑھ کے اپنی والدہ کی یاد آتی رہی۔ سچ تو یہی ہے کہ ماؤں کا دل وہیں لگتا ہے، جہاں اُنہوں نے اپنے بچّوں کی پرورش کی ہو۔ شاید اُن درو دیوار سے اُنہیں اپنے بچّوں کے بچپن کی خوشبو آتی ہے۔ قرات نقوی نےمکر و فریب کا جو واقعہ سُنایا، پڑھ کر لاہور میں اپنے ساتھ پیش آیا واقعہ یاد آگیا۔ 

کسی وقت مَیں بھی لکھوں گا۔ محمّد نقش بندی کے خط کے جواب میں آپ نے جو لکھا، وہ حقیقت ہے۔ اِس لیے کہ جذبات و احساسات سے بھرپور بعض تعلق صرف افسانوں اور ڈراموں ہی میں نظرآتے ہیں، حقیقت بڑی تلخ ہے۔ 

اسماء خان دمڑ سے یہی کہیں گے کہ لوگ یہاں برسوں کی شناسائی بُھلاتے ایک منٹ نہیں لگاتے، آپ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی بزم میں کسی کے یاد نہ کرنے پر پریشان ہورہی تھیں۔ (رانا محمد شاہد، گلستان کالونی، بورے والا)

ج: حالاں کہ ایک وہی تو ہے، جسے لوگ وقتاً فوقتاً یاد کرتے رہتے ہیں۔

گوشہ برقی خطوط

* ’’گوریلا مارکیٹنگ‘‘ پر تحریر دل چسپی سے پڑھی۔ یہاں بھی لوگ ایسے ہی مارکیٹنگ کرتے ہیں۔ مضمون کے ساتھ تصویربھی عُمدہ لگائی گئی۔ ڈاکٹر اکرم ’’دل‘‘ پہ مضون لے کے آئے، تو وہ شعر یاد آ گیا ؎ جہاں دل تھا کبھی پہلے… وہاں اب درد رہتا ہے۔ ’’اسٹائل‘‘ کی ماڈل چندے آفتاب، چندے مہتاب تھی، تحریر نے شوٹ کو چار چاند لگا دیئے۔ ’’ایک سفر، انجینئرنگ یونی ورسٹی کی بس کا‘‘ بےتُکی سی تحریر لگی اور لکھاری کا نام بھی شائع نہیں ہوا۔ 

’’غصّے‘‘ سے مُتعلق ارشادات بہترین تھے۔’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ نے سید زاہد علی کو اپنا شمارہ نکالنے کا مشورہ ہی دے دیا۔ رونق افروز نے میرا تذکرہ کیا، پڑھ کے خوشی ہوئی۔

آپ نے خط کے جواب میں لکھا کہ ’’جنہوں نے نسلوں کے سنوار میں اہم کردار ادا کیا ہو، اُن کو نسلوں تک یاد رکھنا چاہیے‘‘ واہ، واہ کیا بات کردی۔ میرے دادا، دادی اور نانا کا اتفاق سے میرے والدین کی شادی سے پہلے انتقال ہوگیاتھا، پھر نانی بھی بچپن میں چل بسیں۔ 

اُن کی باتیں، یادیں کسی خواب کی طرح یاد ہیں۔ کبھی کبھی سونے سے پہلے سارے بھولے بسرے لوگوں کو یاد کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اے کاش ایسا ہوکہ ہمیں اپنی زندگی کا گزرا ہر لمحہ یاد رہے، خصوصاً بچپن کا۔ آپ کا ’’مدرز ڈے ایڈیشن‘‘ اداس کرگیا کہ اپنی والدہ کی بہت یاد آئی۔ سیّدہ تحسین دنیا کی عظیم ماؤں کا تذکرہ کررہی تھیں۔ 

آرٹیفیشل وومب سے متعلق ایک حیرت انگیز تحریر پڑھنے کو ملی۔ ناقابلِ اشاعت کی فہرست برائے’’ناقابلِ فراموش‘‘ پڑھ کے بہت تجسّس ہوا کہ کون کون سے واقعات ہم پڑھنے سے محروم رہ گئے۔ افسانہ ”تھکن“ بہت دل خراش تھا۔ طاہر گرامی کے حصّے میں ایک بار پھر آپ کا کرارا جواب آیا۔ اگلے شمارے میں حضرت جعفر بن ابی طالبؓ پر شان دار مضمون پڑھنے کو ملا۔ 

ثانیہ انور’’ٹریفک حادثات کی وجوہ اور احتیاطی تدابیر‘‘پرروشنی ڈال رہی تھیں۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ بہت ہی پسند آیا، حالاں کہ مَیں افسانےکےاختتام سے متفّق نہیں۔ اس بار ’’اسٹائل‘‘ رائٹ اَپ تو جیسے میرے لیے لکھا گیا۔ 

مَیں بھی خاصی عُمرچورہوں۔ اصل عمرسے 8،10 سال چھوٹی ہی لگتی ہوں۔’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ملک محمد نواز نے اتنی محبت سے میرا ذکر کیا اور پھر آپ کا جواب پڑھ کے آنکھیں ہی بھر آئیں۔ عروبہ غزل کی لمبی چوڑی ای میل پڑھ کے تو مزہ ہی آگیا۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)

قارئینِ کرام کے نام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

سنڈے میگزین سے مزید