• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ہاں’غیر یقینی ‘صورتحال ہی سب سے یقینی رہتی ہے اور اس میں ماشاء اللہ حکومت اور میڈیا اہم رول اداکرتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بہت سی خبریں مختلف وجوہات کی بناپرپلانٹ کروائی جاتی ہیں فیڈبیک لینے کیلئے کسی بڑے فیصلے سے پہلے۔حال ہی میں افواہوں کا ایک طوفان ہے جس نے قوم کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کیا ہوا ہے شاید حکومت کا ایک فیصلہ ایسی تمام خبروں کی تردید کیلئے کافی ہوتا مگر شاید وہ ایسی صورتحال کوبوجوہ برقرار رکھنا چاہتی ہے ۔

اب ’ اڈیالہ جیل‘ اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے ہی خبروں کو لے لیں۔ بہت آسان سا طریقہ تھا ایسی افواہوں اور خبروں کو غلط ثابت کرنے کا۔ صحافیوں کی ایک ٹیم کو جیل میں جانے کی اجازت دے دیتے کیمروں کے ساتھ اور یہ طوفان تھم جاتا۔ اب خدا کیلئے جیل مینویل کودرمیان میں نہ لے آئیں کیونکہ مجھ سمیت بہت سے صحافیوں نے جیل میں کیا کیا ہوتا ہے، دیکھا ہوا ہے یہاں تو ایک وزیر اعظم( موجودہ نہیں) کے ایک فون پرنیب کا مجرم پیرول پررہا ہوتا ہے اور دوبارہ جیل نہیں جاتا۔

کئی جیل کے قیدی رات جیل میںنہیں گزارتے۔خیر حکومت مسلسل ان خبروں اور افواہوں کی تردید کرتی رہی جو خان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر چلتی رہیں اور اب بھی چل رہی ہیں مگر نہ ملاقات کروائی ان کے اہل خانہ سے اور نہ ہی کوئی غیر جانبدار طریقہ اپنایا یہاں تک کہ بات اقوام متحدہ تک پہنچ گئی چاہے27ویںترمیم ہو یا انسانی حقوق کی بات ہو۔

پچھلے ایک ہفتے میں دوگورنروں کی تبدیلی کی خبروں نے بھی ایک غیریقینی سی پیدا کردی ہے پہلے خبر چلی گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی اور پھر کے پی کے گورنر فیصل کریم کنڈی کی، حیران کن عمل یہ ہے کہ وفاق کی طرف سے کوئی واضح تردید نہ آنے سے ایسی خبروں کو تقویت ملتی ہے صحیح اور غلط تو الگ بات ہے۔’خبر‘ کی تردید کسی بھی صحافی کیلئے’ سبکی‘ کا باعث ہوتی ہے عام طور پر ایسی خبر سے پہلے کسی نہ کسی’ سورس‘ کا موقف خبر کو مضبوط کردیتا ہے۔ عین ممکن ہے یہ دونوں خبریں درست ہوں اور کہیں نہ کہیں یہ سوچ پنپ رہی ہو اب اگر ایسا نہیں ہوتا توپھر کیا ہوگا۔ حکومت کی خاموشی خبروں میں وزن پیدا کردیتی ہے۔ اب اس میں مزید اضافہ اس خبر سے ہوا کہ کے پی میں گورنر راج لگ رہا ہے یا لگانے پر غور۔عام طور پر کسی بڑی خبر آنے سے پہلے بھی لوگوں کو غیر ضروری بحث میں الجھادیا جاتا ہے۔ ابھی26ویں اور 27ویں آئینی ترمیم پر بحث مکمل نہیں ہوئی تھی کہ اچانک نئے صوبوں کی بحث چھیڑ دی گئی۔ اب یہ بھی کوئی نئی بات نہیں برسوں سے یہ بحث جاری ہے۔ یہ سلسلہ بھی اس وقت سے جاری ہے جب مشرقی اور مغربی پاکستان تھے۔ اب کیونکہ مشرقی پاکستان یہاں کی سیاسی اور غیرسیاسی اشرافیہ کو ہضم نہیں ہورہا تھا اکثریتی صوبے کی وجہ سے تو’ون یونٹ‘ کا شوشہ چھوڑ دیا گیا۔اب چارصوبے بھی ناکافی لگتے ہیں تو21یا22 صوبے بنانے کی باتیں شروع کردی گئی ہیں۔ سارا مسئلہ اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے کا ہے۔ اب پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو پر زور انداز میں18ویں ترمیم کو ختم کرنے کے خلاف موثر آواز اٹھاتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ اس پر ان کی سندھ حکومت عمل کیوں نہیں کرتی۔

بلوچستان میں عمل کیوں نہیں ہوتا ورنہ تو نئے صوبوں کی بحث خودبخود ختم ہوجائے اور نہیں تو وہ اپنی ہی پارٹی کے رضا ربانی سے پوچھ لیں کہ اس پر عمل ہوا کہ اختیارات صوبوں سے نچلی سطح تک دینے ہیں، پبلک اکاونٹس کمیٹی کا چیئرمین لیڈر آف دی اپوزیشن ہوگا۔27ویں آئینی ترمیم کے بعد بانی پی پی پی ذوالفقار علی بھٹو کا1973کا آئین کتنا مضبوط یا کمزور ہوا ہے یہ میں اس پارٹی کے رہنماؤں پر چھوڑتا ہوں۔ مسلم لیگ(ن) کی بات اس لیے کرنا’غیر ضروری‘ ہے کہ وہ روایتی طور پر مقتدرہ کی بی ٹیم رہی ہے اور اےٹیم بننے کی خواہش مند ہے۔ میاں نواز شریف نے جب کبھی وزیر اعظم کے طور پر اپنے اختیارات استعمال کیے، جو آئین ان کو دیتا ہے، تو اس کی قیمت ادا کرنا پڑی۔ مگر ہمارے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف جو ہمیشہ سے اور ہر وقت کی مقتدرہ کے فیورٹ رہے ہیں پر اعتماد ہیں کہ ’سب ٹھیک ‘ رہے گا اور موجودہ سیٹ اپ چلتا رہے گا۔

اب یہ ہمارے وزیر اعظم کی خوش قسمتی کہ اس سال بھارت کے خلاف جنگ میں کامیابی اور بین الاقوامی سطح پر خاص طور پر امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کے حوالے سے اور خودانکی اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی مسلسل تعریفوں نے یقینی طور پر شہباز شریف کو مضبوط کیا اب ایسے میں بڑے بھائی کا ایک ’غیر ضروری‘ بیان کہ صرف عمران کا نہیں ان کا بھی احتساب ہوناچاہیے جواس کو لے کر آئے اور بیان بھی اک ایسے موقع پر جب سب ٹھیک جارہا ہے ،نے ایک غیر ضروری بحث چھیڑ دی ہے۔

اب یہ ابہام جتنی جلدی دور ہو حکومت اور وزیراعظم کیلئےاتناہی بہتر ہے۔ اسی طرح ’ اڈیالہ جیل‘ اور عمران کی صحت کے حوالے سے چلنے والی خبروں اور افواہوں کو حکومت خود تقویت دے رہی ہے ملاقات نہ کروا کے اور غیر جانبدار ذرائع کو جیل میں نہ لے جاکر ۔اپنے ملک کے صحافیوں پرا عتبار نہیں تو بی بی سی ،سی این این اور الجزیرہ کی ٹیموں کو لے جائیں چاہے بات نہ کرنے دیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا اور میں پھر کہوں گا’ جیل مینوئل ‘ کی بات نہ کریں ملکی مفاد کی بات کریں۔حیرت ہوتی ہے ایک ایسے موقع پر جب ملک پر دہشت گردوں نے حملہ کیا ہوا ہےکبھی کہیں سے خبر آتی ہے کبھی کہیں سے ،بلوچستان کی خبروں نے نہ صرف پریشان کیا ہوا ہےبلکہ معیشت پر بھی منفی اثرات آرہے ہیں حکومت کی مسلسل خاموشی نے ملک کو مزید غیر یقینی صورتحال میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ جو ’خبر‘ آنی ہے آنے دیں جسکی تردید کرنی ہے کریں اور اپوزیشن اور میڈیا کو غلط ثابت کردیں۔ اگر ذرا بھی اپنی ضد اور انا کو ایک طرف رکھ کرکام لیا جاتا توشاید آج نہ عمران خان اتنا مقبول ہوتا اور نہ ہی موضوع بحث۔27ویں ترمیم نے پارلیمنٹ، عدلیہ اور خود سیاستدانوں کو کمزور کردیا ہے شاید آج کے حکمرانوں کو یہ بات سمجھ میں نہ آئے کہ بھائی لوگو سب ’اچھا‘ نہیں ہے ۔البتہ دعا ضرور ہے کہ سب اچھا ہو کیونکہ بہرحال میں نے تو یہیں رہنا ہے اسی مٹی میں دفن ہونا ہے باقیوں کا پتا نہیں ۔ وطن کی مٹی گواہ رہنا۔

تازہ ترین