• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قرآن بار بار انسان کو متنبہ کرتا ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے ۔’’شیطان اور اس کا قبیلہ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں ، جہاں تم انہیں نہیں  دیکھتے‘‘الاعراف 27 ۔ یہ بھی کہ: بے شک ہم نے شیطانوں کو ان کا دوست کیا ہے ، جو ایمان نہیں لاتے ۔

شیطان کو انسان کے دماغ پہ کتنا اختیار حاصل ہے۔ یوسف علیہ السلام جب ناحق قید تھے تو ساتھی قیدی کا خواب سن کر جان گئے کہ نہ صرف وہ رہا ہونے والاہے بلکہ دربار تک رسائی بھی پائیگا۔ حضرت یوسف نے اسے رہائی کی یہ خوشخبری سناتے ہوئے کہا : بادشاہ کے پاس جاؤ تو اسکے سامنے میرا ذکر کرنا (کہ میں تعبیر کا علم جانتا ہوں) ۔ وہ شخص رہا ہوا اور بادشاہ تک رسائی پاگیا ۔ قرآن میں  درج خوفناک انکشاف یہ ہے کہ’’انسٰہ الشیطٰن ذکر ربہ‘‘شیطان نے اس شخص کو بھلا دیا کہ بادشاہ کے سامنے حضرت یوسف کا ذکرکرتا ۔جب بادشاہ نے ایک خواب دیکھا اور اس کی تعبیر معلوم کرنے کیلئے مضطرب ہوا تو تب اس شخص کو یاد آیا ۔ شیطان انسان کو اس کی نظر میں غیر اہم چیزیں بھلا بھی سکتاہے ۔

کیا شیطان انسان کے پاس انسانی شکل میں آتا ہے ؟ سورۃ الانفال آیت 48کے مطابق غزوہ بدر کے دن شیطان مشرکینِ مکہ کے روبرو انہیں تسلیاں دے رہا تھا۔ انکے اعمال انہیں خوبصورت کر کے دکھا رہا تھا یعنی یہ کہ مسلمانوں سے جنگ کر کے تم بڑی نیکی کا کام کرنے جا رہے ہو ۔ کہنے لگا:آج کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور میں تمہارا مددگار ہوں ۔ جب فرشتے اترے تودہشت کے عالم میں بھاگا اوربھاگتے بھاگتے کہنے لگا: جو میں دیکھ رہا ہوں ، تم نہیں دیکھ رہے ۔میں اللہ سے ڈرتا ہوں ۔ اللہ بڑا سخت عذاب دینے والا ہے ۔ کیا ان فرشتوں میںحضرت جبرئیل ؑ بھی تھے ، اقبالؔ نے جن کا ابلیس سے مکالمہ لکھا تھا ۔

جبریلؑ:

ہر گھڑی افلاک پہ رہتی ہے تیری گفتگو

کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاکِ دامن ہو رفو

ابلیس:

آہ اے جبریل تو واقف نہیں اس راز سے

کر گیا سرمست مجھ کو ٹوٹ کر میرا سبو

اب یہاں میری گزر ممکن نہیں ممکن نہیں

کس قدر خاموش ہے یہ عالَمِ بے کاخ و کُو

جس کی نومیدی سے ہو سوز درونِ کائنات

اس کے حق میں تَقنَطُوا اچھّا ہے یا لا تَقنَطُوا؟

جبریل:

کھو دئیے تو نے انکار سے مقاماتِ بلند

چشمِ یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو!

ابلیس:

ہے میری جُرات سے مشتِ خاک میں ذوقِ نمو

میرے فتنے جامہِ عقل و خرد کا تار و پُو

دیکھتا ہےتو فقط ساحل سے رزمِ خیر و شر

کون طوفان کے طمانچے کھا رہا ہے،میں کہ تو؟

خضر بھی بے دست و پا، الیاس بھی بے دست و پا

میرے طوفاں یم بہ یم، دریا بہ دریا جو بہ جو

گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے

قصہِ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو!

ایک دشمن ہے اور نظر نہیں آرہا ۔ شیطان کرتا کیا ہے ۔ انسان کے دماغ میں ایک شبیہ، ایک خیال لہراتا ہے ، جو ا س دماغ کا اپنا خیال ہرگز نہیں ہوتا ۔ یہ خیال اس نوعیت کا ہوتا ہے کہ انسان کا نفس اس پہ بھوکے کتے کی طرح جھپٹتا ہے ۔اچانک انسان کے دماغ میں خیال آتا ہے کہ چھ سال پہلے میرے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی تھی ۔ اس کے بعد ہو سکتا ہے کہ اگلے تین دن وہ اسی بات پہ لڑتا رہے ، جو چھ سال پہلے ختم ہو گئی تھی ۔

دیوانہ وار آدمی خود سےہونے والے نا انصافی کے بارے میں سوچتا چلا جاتا ہے ۔اپنی خودترحمی سے انسان لذت کشید کرنے لگتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس میں اپنی محبت اور اپنی ہمدردی کا سمندر چوبیس گھنٹے ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے ۔ شیطان نے صرف ایک جذباتی خیال آپ کے سامنے لہرانا ہے ۔جیسے بچے کو روشنیوںاور آوازوں والا کھلونا دکھادیاجائے ۔ آپ کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ یہ خیال شیطان کی طرف سے آیا ہے ؛البتہ اگر آدمی اپنے خیالات پہ نظر رکھے بیٹھا ہو تو شاید وہ جان لے اورایک ماہر بلے باز کی طرح شیطان کے باؤنسر کو خالی جانے دے ، جسے کہتے ہیں Well left ۔

خود شیطان کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا ۔ عظیم الرحمٰن عثمانی صاحب نے ایک بار لکھا تھا : نفس سے ڈرو ، شیطان کو بھی اسی نے گمراہ کیا تھا ۔ابلیس اپنی عبادت اورعلم کے کوہِ ہمالیہ پہ چڑھا ہوا تھا، جب آدم ؑ کو اللہ نے اپنا نائب بنا دینے کا اعلان کیا۔ انسان کرۂ ارض کی مخلوقات میں سے ایک تھا ، ہائیڈروکاربنز(مٹی ) اور پانی سے بنا ہوا ، کمزوریوں کا مارا ہوا ۔زمینی مخلوقات کو آسمانی مخلوقات ترحم سے دیکھتی تھیں ۔ فرشتے بھی انسان کو نائب بنانے کے فیصلے پر حیرت زدہ رہ گئے تھے ۔ ابلیس اپنے تئیں اپنی یہ بے عزتی برداشت نہ کر سکا۔ باقی صرف تفصیلات ہیں ۔

گناہ گار تو شیطان کی مٹھی میں ہوتے ہیں کہ گناہ کی Temptation سے لڑنا ان کیلئے بے حد مشکل ہوتا ہے ؛البتہ وہ متکبر نہیں ہوتے ۔ نیکوکاروں کو شیطان ان کی نیکی کے تکبر میں لے جا کر مارتا ہے ۔ اس پہ پھر کبھی ۔فی الوقت اتنا ہی کہ اس زمین پہ انسان کو نائب بنا کر جو میلہ سجایا گیا تھا، وہ اب اپنے اختتامی مراحل میں ہے ۔ بارشیں برسانے سے لے کر مردوں کو زندہ اور اندھوں کو بینائی دینے والا انسان اب تیزی سے خدائی کے دعوے کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہیں اس کہانی نے ختم ہو جانا ہے۔

تازہ ترین