• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اس سے پوچھا : شیطان انسان کو کیسے ورغلاتا ہے ۔ کیا محض یہ کہ انسانی دماغ میں وہ وسوسہ پیدا کرتاہے ؟ کچھ دیر وہ سوچتا رہا ۔ پھر کہنے لگا : اللّٰہ نے جب آدمؑ کو سجدہ نہ کرنے پر شیطان کو ذلیل ہو کر نکل جانے کا حکم دیا تو اس نے قیامت تک مہلت طلب کی ؛تاکہ انسان کو بار بار بہکا کر غلط ثابت کرے۔ وہ جانتا تھا کہ انسان کو بالآخر زمین پہ اپنی زندگی بسر کرنا ہوگی ۔ زمینی مخلوقات سے شیطان خوب واقف تھا ۔ ان کی خواہشات سے ، ان کے خوف سے ،ان کی جبلتوں سے ۔اسے بھوک سے ڈرایا جا سکتاہے ۔اسے خوف سے ڈرایا جا سکتاہے ۔ جیسا کہ اللّٰہ کہتاہے : ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے، خوف سے، بھوک سے، مال کے نقصان سے، جان کے نقصان سے، اور فصل کے نقصان سے ۔ دشمن جس شخص کا پیچھا کر رہا ہو، وہ بے تحاشا خوف کا شکار ہوتا ہے ۔ شیطان نے خدا سے یہ کہا کہ میں انسان کو ان کے آگے پیچھے، دائیں بائیں سے یعنی جس طرف سے چاہوں گا، بہکائوں گا ۔ تُو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔

اس نے کہا:اس دنیا میں بڑے بڑے لوگوں میں عجیب عجیب خوف ہوتے ہیں ، ساری زندگی جن سے وہ نکل نہیں پاتے ۔ کیا تم نے ایک ایسا انسان نہیں دیکھا کہ جو دیوانہ وار اپنے ہاتھ دھوتا دھوتا ، اپنی جلد پھاڑ ڈالتاہے ۔ پھر بھی اطمینان نصیب نہیں ہوتاکہ جراثیم ختم ہو چکے ہیں ۔ انسانوں کی عظیم اکثریت اندر ہی اندر مختلف قسم کے خوف کا شکار ہوتی ہے ۔ ماضی کا کوئی اذیت ناک لمحہ اس کا پیچھا کر رہا ہوتا ہے ۔ساری زندگی وہ اس لمحے سے راہِ فرار اختیار کرتا رہتا ہے ؛حتیٰ کہ موت آلیتی ہے ۔ اس خوف کی طرف سے شیطان وار کرتاہے جو انسان کا کمپلیکس بن چکا ہوتاہے۔

اس نے کہا : ہر انسان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی ٹراما اور خوف ہوتے ہیں ۔جب انسان کوئی گناہ یا جرم کرتاہے تو اس کے خوف میں اضافہ کر دیا جاتا ہے ۔ وہ بظاہر مجلسوں میں ہنستا پھرتا، اندر سے مگر خوفزدہ ہوتاہے ۔شیطان انسان کے خوف کی طرف سے وار کرتاہے ۔ وہ انسان کے ذہن میں ایک پریشان کن خیال پیدا کرنے پہ قادر ہے ۔ وہ کہتاہے کہ اگر یہ ادارہ بند ہوگیا تو کہاں سے تو اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضرورتیں پوری کرے گا۔وہ اسے بھوک کے خوف سے ڈراتا ہے ۔ صدیوں پرانےقحط انسان کے دماغ میں گھومنے لگتے ہیں ، وہ حرام مال کی طرف آمادہ ہو جاتاہے تاکہ جلدی جلدی اپنی اولادکیلئے مال اکٹھا کر لے۔ پھر بھی یہ خوف ختم نہیں ہوتا؛البتہ متوکل شخص معمولی آمدنی میں بھی مطمئن رہتا ہے ۔انسان یہ نہیں جانتا کہ صدام حسین اور معمر قذافی جیسے بادشاہ اپنا مستقبل محفوظ نہ کر پائے تو وہ کس کھیت کی مولی ہے ۔

میں نے اس سے کہا: نیکوکاروں کا تو شیطان کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ بے اختیار ہنس پڑا ۔اس نے کہا: ایک دریا تھا ، جو سوکھ چکا تھا۔ اس کے کنارے لوگوں نے اپنی بستیاں آباد کر لی تھیں ۔ ایک دانا نے انہیں تنبیہہ کی اور یہ کہا : جہاں جہاں تک تمہیں گول پتھر نظر آرہے ہیں ، یہ دریا کا علاقہ ہے ۔ ایک دن دریا اپنا علاقہ واپس لینے آئے گا اور اس دن تم بہت پچھتا ئو گے ۔لوگوں نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی ۔دس سال بعد مون سون کی بارشیں ہوئیں ۔ دریاواپس آیا اور اس نے اپنے علاقے دوبارہ کلیم کیے ۔ عالیشان گھر اس دن پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔

پھر وہ خفیف سا ہو کر اپنے ماضی میں جھانکنے لگا۔ کہنے لگا : جب میں نوجوان تھا تو میں نے قرآن حفظ کیا ۔ میں بڑے زوروں میں تھا ،تقویٰ کے خمار میں مست ۔ وقت گزرتا گیا ۔ قرآن سے تعلق ٹوٹ گیا۔پتہ ہی نہیں چلااور دو عشرے گزر گئے۔ میری داڑھی میں سفید بال پھوٹنے لگے ۔ ایک دن اچانک میں مسجد گیا۔ شرمندگی کے عالم میں قرآن کھولا ۔ پرانی یادیں تازہ ہوئیں ۔ ایک آیت کچھ جانی پہچانی سی لگی ۔ دفعتاً میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ یہ میں نے کیا کر دیا ۔ اتنا رویا کہ قرآن کے صفحات گیلے ہو گئے ۔میں نے دل میں ایک عزم کیا ۔ اٹھنے سے پہلے میں نے وہ آیت دوبارہ یاد کی ۔ آتے جاتے اٹھتے بیٹھتے میں آیات یاد کرنے لگا ۔ اللہ نے میری مدد کی ۔ چند ماہ میں ، میں نے کئی سیپارے دہرا ڈالے ۔ راستہ پھر روشن ہوگیا ۔

نیکی کا خمار چھانے لگا۔دوسرے لوگ گناہ گار نظر آنے لگے ۔ ایک دن ٹی وی کھولا تو سیلابی صورتِ حال بتائی جار ہی تھی ۔ رپورٹر چیخ رہا تھا: دریا اپنی Territoryدوبارہ کلیم کرنے آگیا۔ قرآن میرے سامنے کھلا پڑا تھا ۔وہ آیات میرے سامنے تھیں ، جو آج میں نے یاد کرنا تھیں ۔ ذہن میں ایک خیال آیا ۔ اپنے آپ سے میں نے کہا : میں بھی تو ایک دریا ہوں اور قرآنی آیات واپس کلیم کر رہا ہوں ۔ اس نے کہا : درحقیقت یہ خیال میرا اپنا نہیں تھا۔ شیطان میرے کان میں پھونک رہا تھا۔ نیکی کے خما رمیں ڈوبا ہوا ، اس قدر تکبرانہ خیال!

کچھ بھی حاصل نہ ہوا زہد سے نخوت کے سوا

شغل بیکار ہیں سب ان کی محبت کے سوا

شیطان ہمارے خون میں دوڑتا پھرتا ہے ۔ ہم اسے دیکھ نہیں سکتے ۔دماغ میں پھونکنے کی اسے اجازت ہے ۔یہ انسان کو بھوک ، لالچ سے تو پکڑے گا ہی ، نہیں تو اپنی نیکی کے نشے میں متکبر کر کے پکڑ لے گا ۔

شیطان نےجب یہ دعویٰ کیا کہ وہ انسا ن کو جیسے چاہے گمراہ کرے گا تو اللّٰہ نے فرمایا : میرے بندوں پہ تیرا کوئی زور نہیں چلے گا۔

کیا ہم اللّٰہ کے بندے ہیں ؟ ہم نے تو کبھی اپنے خیالات پہ یہ نظر رکھنے کی کوشش بھی نہیں کی کہ کون ساخیال میرا اپنا ہے اور کون سا شیطان کی طرف سے پھونکا ہوا ۔بیس سال قبل جو بات ختم ہو چکی، وہ اب کیوں مجھے اتنی شدت سے یاد آرہی اور میرے طرزِ عمل پہ اثر انداز ہو رہی ہے۔ شیطان جب چاہتاہے ، ایک پیاز ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے ، پورا دن ہم بیٹھ کر اسے چھیلتے رہتے ہیں ۔ زندگی کے اس سفر میں حال ہمارا یہ ہے :

رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

جب ایک شخص کو یہ علم ہی نہیں کہ اسکا دشمن شیطان وار کیسے کرتاہے تو وہ اس سے خود کو بچا کیسے سکتا ہے؟ 

تازہ ترین