کراچی کے علاقے گلشن اقبال کا وہ کھلا مین ہول جو صرف ایک ڈھکن کا منتظر تھا۔ چاہے وہ ڈھکن شہری حکومت لگاتی یاسپر اسٹور کی انتظامیہ جسکی روزانہ کروڑوں روپے کی سیل ہوتی ہے، لیکن وہ ڈھکن نہ آیا۔ اور نہ آنے کی قیمت ایک تین سالہ معصوم زندگی نے ادا کی۔ گلشنِ اقبال کی گلی میں ماں اب بھی اسی لمحے میں قید ہے جب اس کا اکلوتا بچہ اس کی آنکھوں کے سامنے اچانک اندھیرے میں پھسل گیا۔ اس کی چیخ آج بھی کراچی کے دل میں گونجتی ہے۔
یہ تصویر صرف ایک حادثہ نہیں، یہ پورے نظام کی موت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اسی سال ایسے کھلے مین ہول تیس سے زیادہ بچوں کو نگل چکے ہیں۔ تیس ماؤں نے اپنے گھروں میں خاموشی کی قبریں دیکھیں۔ تیس باپ کندھوں پر وہ بوجھ اٹھا کر قبرستان گئے جس کا وزن دنیا کےکسی ترازو میں نہیں تولا جا سکتا۔ ریاست تماشائی رہی، شہری حکومت کاغذوں میں مصروف رہی، اور اس عظیم الشان سپر اسٹور نے اپنی دہلیز پر موجود موت کے اس گڑھے کو بند کرانے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا ۔ یہی بے حسی اس شہر کا سب سے بڑا زخم ہے۔
کراچی تو سندھ کا سب سے بڑا شہر ہے۔ جب سب سے بڑے شہر کا یہ حال ہے، تو حیدرآباد کی گلیاں کون دیکھے گا؟ نوابشاہ کی ٹوٹی سڑکیں کون ٹھیک کرے گا؟ لاڑکانہ کی ابلتی سیوریج لائنوں کو کون بند کرے گا؟ سکھر کے اسپتال کون چلائے گا؟ بدین اور تھرپارکر کی پیاس کون بجھائے گا؟
سچ تو یہ ہے کہ سندھ کے بڑے شہر، اور چھوٹے قصبے، سب برسوں سے بنیادی ضرورتوں کیلئے ترس رہے ہیں۔ سڑکیں، پانی، سیوریج، صحت، ٹرانسپورٹ—ہر جگہ ایک ہی سوال: کیا حکومت نے اپنی ذمہ داری پوری کی؟ سترہ سال سے پیپلز پارٹی سندھ کی حکمران ہے۔ سترہ سال میں ایک صوبہ بدلا جا سکتا ہے، نظام کھڑا کیا جا سکتا ہے، شہروں کو ترقی کا ماڈل بنایا جا سکتا ہے۔ مگر سندھ میں وقت رُکا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس وقت کو چلانے کیلئے اب ایک ایسا فیصلہ درکار ہے جو دل، ذہن، عوام اور سیاست سب بدل دے۔ یہ فیصلہ اب بلاول بھٹو نے کرنا ہے۔
اگر وہ وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھتے ہیں، اگر وہ خود کو اگلی نسل کا قومی لیڈر سمجھتے ہیں، تو انہیں سب سے پہلے اپنے صوبے کو بدلنا ہوگا۔ کراچی کی گلیوں میں، حیدرآباد کے بازاروں میں، نوابشاہ کے اسپتالوں میں، لاڑکانہ کی سڑکوں پر—ایک حقیقی تبدیلی لانا ہوگی۔ ایک ایسی تبدیلی جو کاغذوں میں نہیں، آنکھوں سے نظر آئے۔ بلاول کو چاہیے کہ وہ سندھ کی پوری انتظامیہ کو ایک واضح پیغام دیں: ذمہ داری، جواب دہی اور نتیجہ—یہ تینوں اب شرط نہیں، قانون ہیں۔ جو کام نہیں کرے گا وہ عہدے پر نہیں رہے گا۔ جو کرپشن کرے گا وہ پارٹی سے نکال باہر کیا جائےگا۔ جو بجٹ کھائے گا وہ عوام کی عدالت سے نہیں بچ سکے گا۔ اگر پورا ترقیاتی بجٹ—کراچی سے کشمیر روڈ تک، حیدرآباد سے لطیف آباد تک، سکھر سے روہڑی تک، نوابشاہ سے قاضی احمد تک، لاڑکانہ سے رتوڈیرو تک—صرف تین سال کیلئے بغیر کٹوتی، بغیر چوری اور بغیر کرپشن کے خرچ ہو جائےتو سندھ کا نقشہ بدل جائے گا۔ گلیاں روشن ہوں گی۔ پانی صاف آئے گا۔ مین ہول بند ہوں گے۔ اسپتالوں میں ڈاکٹر ہوں گے۔ سڑکیں واقعی سڑکیں لگیں گی—کھڈے نہیں۔
اسی تین سال کی شفاف محنت سے سندھ وہ صوبہ بن سکتا ہے جس پر پورا ملک فخر کرے۔ اور یوں بلاول بھٹو کے سامنے قومی سطح پر وہ اعتماد کھڑا ہو جائے گا جس کی بنیاد‘‘باتوں’’پر نہیں، بلکہ‘‘کارکردگی’’پر ہوگی۔ یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ بلاول کا مقابلہ ایک ایسی لیڈر سے ہے جس کی ٹیم تیزی سے محنت کر رہی ہے۔ مریم نواز پنجاب میں عملی کام، براہِ راست نگرانی اور تیز رفتار منصوبے دے رہی ہیں۔ ان کا مقصد بھی ایوانِ وزیراعظم ہے۔ اگر بلاول سندھ کو نہیں بدلتے تو مقابلہ سخت نہیں، یک طرفہ ہو جائے گا۔ لیکن اگر بلاول سمجھ جائیں کہ وزارتِ عظمیٰ کا راستہ اسلام آباد کے ایوانوں سے نہیں، سندھ کی پسماندہ گلیوں سے گزرتا ہےتو وہ یہ جنگ جیت سکتے ہیں۔ وہ سندھ بدل دیں، سندھ انہیں بدل دے گا۔ وہ گلیوں کو محفوظ کر دیں، لوگ انہیں محفوظ قیادت سمجھیں گے۔ وہ شہروں کو بہتر بنا دیں، لوگ انہیں پاکستان کیلئے بہتر مان لیں گے۔ وہ کرپشن روک دیں، لوگ ان پر اعتماد کر لیں گے۔ اور اگر بلاول واقعی سندھ میں وہ تبدیلی لےآئے جو صرف دعووں میں نہیں، بلکہ کراچی، حیدرآباد، نوابشاہ، سکھر، میرپورخاص، بدین، دادو، تھرپارکر اور لاڑکانہ کی روزمرہ زندگی میں نظر آئے—تو پھر انہیں مبارک ہو۔وہ نہ صرف سندھ جیت لیں گے، بلکہ پاکستان بھی جیت لیں گے۔ اور وزارت عظمیٰ کا تاج ان کے سر پر رکھنے سے پہلے لوگ یہی کہیں گے’’یہ وہ بلاول ہے جس نے پہلے اپنے صوبے کو بدلا، پھر اپنے ملک کو بدلنے نکلا—اور کامیاب ہوا۔‘‘