عمران خان نے تحریک انصاف کو ایک ایسی بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے کہ آگے بڑھنے کا کوئی رستہ نظر نہیں آ رہا۔ خود بھی خان صاحب کو ایک ایسی صورتحال کا سامنا ہے کہ وہ جیل سے باہر آتے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔ کسی دوسرے کی وہ سنتے نہیں اور یہی وجہ ہے تحریک انصاف کی پوری لیڈرشب کو بھی کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کیا کرئے۔ تحریک انصاف کی سیاسی سپیس کی یہ حالت ہے کہ اب پوری پارٹی کی سب سے بڑی ڈیمانڈ یہ ہے کہ عمران خان سے اُن کی بہنوں اور وکلاء کو کم از کم ملنےتو دیا جائے۔ عمران خان کی رہائی، حقیقی آزادی اور جعلی الیکشن کے خلاف تمام نعرے اور تحریکیں کہیں گم ہو کر رہ گئی ہیں۔ پارٹی میں کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ عمران خان کی پالیسی ہے کیا؟ وہ چاہتے کیا ہیں؟ اور کس طرح اپنے سیاسی اہداف کو حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟کسی رہنما ،کسی دوسرے کی جرات نہیں کہ خان کی حکمت عملی پر کوئی سوال اُٹھائے۔ خان اگر اپنے ہی رہنماؤں کو میر جعفر اور میر صادق بھی کہہ دے تو کسی کی کیا مجال کے اس کو چیلنج کرے۔ خان کی پالیسی یہ ہے کہ حکومت اور حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں سے بات نہیں ہو سکتی کیوں کہ ان کے پاس اختیار ہی نہیں تو ان سے بات چیت کرنے کا کیا فائدہ!!! اگر یہ درست ہے تو پھر جن کے پاس اختیار ہے اُنہیں وہ اپنے ہر بیان میں بُرا بھلا کہتے ہیں، تو ایسے میں جن اختیار والوں کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں پھر اُن سے یہ توقع کیوں رکھتے ہیں کہ وہ اس کے باوجود خان صاحب کے پاس بات چیت کیلئے دوڑے چلے آئیں گے۔ خان صاحب اختیار والوں کو بُرے بُرے القابات سے نوازتے ہیں اور اُن کی بہنیں اُنہی اختیار والوں سے کہتی ہیں کہ خان سے براہ راست بات کریں۔ اس انہونی کو خان صاحب ہی سمجھا سکتے ہیں ورنہ دوسروں کی طرح اُن کی پارٹی کے رہنما بھی اس لاجک کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اب بات چیت کے تمام رستے تو خان صاحب خود ہی بند کر چکے، تو کیا تحریک انصاف لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر لا کر کوئی انقلاب لانے کی پوزیش میں ہے؟ یہ کچھ تو دور دور تک ہوتا ہو نظر نہیں آ رہا۔ گزشتہ دو تین سال کے دوران موجودہ فوجی قیادت کے خلاف عمران خان خود نے بہت سخت،قابل اعتراض اور توہین آمیز الفاظ اختیار کیے۔ جسکے نتیجہ میں فوجی ترجمان کی طرف سے بھی عمران خان کو سخت جواب دیا گیا اور انہیں سیکورٹی رسک گردانا گیا جس کے بعد تحریک انصاف پر پابندی، عمران خان کے حوالے سے مائنس ون فارمولے اور خیبر پختونخوا میں گورنر راج کی باتیں زور پکڑ گئیں۔ وہ وفاقی وزراء جو پہلے تحریک انصاف کو بات چیت کیلئے کہتے تھے وہ بھی اب پیچھے ہٹتے ہوے نظر آ رہے ہیں۔ جس ہائیبرڈ نظام میں ہم رہتےہیں اُس میں اس صورتحال میں کسی بھی حکومت اور حکومتی جماعت کیلئے ممکن ہی نہیں کہ وہ عمران خان اور تحریک انصاف سے کوئی بامقصد بات چیت کرے۔ تحریک انصاف کی مشکلات بڑھتی ہی جا رہی ہیں، اس کیلئے سیاسی سپیس اتنی کم ہو چکی ہےکہ مایوسی میں تحریک انصاف کی طرف سے اب یہ اشارے دیے جا رہے ہیں کہ اُس کے ممبران قومی اسمبلی سے بھی استعفے دے سکتے ہیں۔ یعنی غلطیوں پر غلطیاں۔ یہ فارمولا پہلے بھی ناکام ہوا اور اب بھی اس کے کامیاب ہونے کے کوئی امکانات نہیں۔ عمران خان نے اپنے آپ کو بھی اور اپنی سیاسی جماعت کو بھی بُرا پھنسا دیا۔