طوطی کی آواز! فیض حمید کی تازہ بہ تازہ سزا نے ملکی سیاسی عدم استحکام کو مزید ہوا دینی ہے ۔ اگرچہ آج کی سزا چاول کی دیگ کا ذائقہ چکھانا مقصد ، تیار دیگ جان لیوا ثابت ہوگی ۔ بالآخر بذریعہ فیض حمید کسی اور کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنا ہے ۔
کاش ! دو بڑی وطنی طاقتیں ( عسکری اور عوامی ) شیر و شکر ہو پاتیں کہ موجودہ تناؤ ملک کیلئے مہلک ہے ۔ 73 برس کی عمر ناتمام میں ، مملکت کو کئی بار قومی بحران کے پنجے میں جکڑے پایا ہے ۔ بدقسمتی ! جب بھی قومیں تباہی کے دہانے پر ، اقتدار کی غلام گردشوں میں موجود حکمران خودفریبی کی گرفت میں ، ایوان ِ اقتدار میں ’’سب اچھا ‘‘کی گونج رہتی ہے ۔ 168 سال پہلے کا بہادر شاہ ظفر ہو یا 1971 جنرل یحییٰ خان ، دونوں خود فریبی میں سرشار جب تک کہ ذلت ، خواری ، عبرت آن مسلط ہوئی ۔2 دن پہلے بلاول بھٹو زرداری سے لاہور میں ملاقات نصیب بنی ۔ بین السطور بہت کچھ کہہ گئے کہ ملفوف الفاظ میں مدعا بیان کرنا بہت بڑا فن ہے ۔ میرا تجسس اپنے تخیلاتی تجزیہ کےمطابق بلاول صاحب سے بہت کچھ معلوم کرنا تھا ۔ ماننے میں حرج نہیں کہ کم عمر بلاول بھٹو زرداری بطور ایک ذہین فطین ، زیرک ، سمجھدار لیڈر اپنی دھاک بٹھا چکے ہیں ۔ حالیہ ملاقات نے انکے فہم و فراست ، معاملہ فہمی ، مخالفین ( خصوصاً عمران خان ) بارے انکی برداشت اور شائستہ زباں نے ہکا بکا کر دیا ۔ عمران خان سیاست بارے بلاول کی رائے کہ عمران خان نے آج تک کا جو راستہ اپنایا ،اگرچہ انکا اپنا چناؤ ہے البتہ میری ناقص رائے میں انکو مفاہمت اور معاملہ فہمی سے اپنی سیاست کو آگے بڑھانا چاہیے تھا۔
کہنے میں حرج نہیں ، اسٹیبلشمنٹ اور PPP کے درمیان ہمیشہ سے باہمی اعتماد کا فقدان مستقلاً بدرجہ اتم موجود ہے۔ زرداری صاحب اشاروں کنائیوں یا ڈنکے کی چوٹ پر اظہار کرنے میں کبھی بھی نہیں ہچکچائے ۔ دو سال پہلے جب بہاولپور ڈویژن ، چولستان پنجاب کو سیراب شاداب کرنے کا عظیم الشان منصوبہ سوچا گیا تو انحصار ایک وسیع و عریض نہری نیٹ ورک پر رکھا گیا ۔ نہیں معلوم کہ PPP آن بورڈ تھی یا نہیں ۔ اِدھر منصوبہ لانچ ہوا ، اُدھر جئے سندھ محاذ ، GDA اور PPP(SB) وغیرہ کی طرف سے نومبر 2024 میں سندھ کے طول وعرض میں احتجاج کی لہر دوڑی اور وفاقی صوبائی دونوں حکومتوں کو آڑے ہاتھوں لیا گیا ۔ ایسے لگا جیسے احتجاجی تحریک پیپلز پارٹی سیاست کو لے ڈوبے گی ۔ مجھے یقین ہے کہ احتجاج پیپلز پارٹی کیلئے ایک CHECKMATE ، کسی نے سبق سکھانا تھا ۔ پیپلز پارٹی نے کمالِ مہارت سے احتجاج کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے لی ۔ امابعد مقتدرہ اور PPP کے نہروں پر اختلافات پبلک میں سامنے آ گئے ۔ اس سے پہلے 26ویں اور 27ویں ترامیم میں NFC ایوارڈز اور چند دوسرے اہم معاملات کو ترامیم سے باہر رکھنے میں PPP کامیاب ضرور رہی مگر خدشہ کہ دونوں فریقوں میں وراثتی عداوت بڑھے گی ۔ 28ویں ، 29ویں ترامیم کا اہم جزو NFC ایوارڈز ، صوبوں کی تقسیم در تقسیم رہنا ہے ۔
چند ہفتے پہلے اس موضوع پر اپنے کالم میں غیرمبہم اشارہ کیا تھا کہ ترامیم نے دو ممکنہ راستے دینے ہیں ، (1) اگر PPP من و عن مان گئی تو عمران خان پہلے انجام کو پہنچائیں گے اور ایسی صورت میں اگلے عام انتخابات کو 5/7سال یا غیرمعینہ مدت تک جبری رخصت پر بھیج دیا جائیگا ، (2) اگر PPP ترامیم پر آن بورڈ نہ ہوئی تو پھر عمران خان کی سزا موخر اور ایک سال بعد یعنی کہ 2026ء میں " RTS اور فارم 47 پلس " کےمطابق عام انتخابات کروا دیئے جائیں گے تاکہ اگلی حکومت 2تہائی اکثریت کیساتھ پیپلز پارٹی کے بغیر قائم ہو سکے ۔ بلاول بھٹو کی باتوں سے جو کچھ میں اُخذ کر سکا ، ’’پیپلز پارٹی اب تک اپنی اسطاعت سے زیادہ مقتدرہ سے تعاون کر چکی ہے اور مزید ایک اِنچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں کہ اس سے آگے PPP کی سیاست بھینٹ چڑھائے گی جو ناقابل قبول ہے ۔ اگر کوئی ADVENTURE ہوا تو نبٹنے کو تیار ہیں ۔اگر جلدی الیکشن کروائے گئے تو ہمیں وہ بھی قبول ہے ۔ مگر کسی صورت بھی ماورائے آئین اقدامات یا سسٹم کو ہتھیانے نہیں دیا جائیگا‘‘ ۔ دو ہفتے پہلے میرا کراچی جانا ہوا تو خصوصی طور پر فردوس شمیم نقوی اور PTI قیادت کو ملا تو وہاں انکو باور کرایا کہ PPP پر بُرا وقت آنے کو ہے ، آپ لوگوں کو ایک بہت بڑی سپورٹ ملے تو موقع نہیں گنوانا ۔ وطنی استحکام اسی میں ہے کہ ملکی سیاسی قوتیں لڑنے کی بجائے یکجا ہو جائیں ۔ اگرچہ بلاول بھٹو زرداری بہت خوشگوار موڈ میں تھے ، بظاہر تفکر میں نہ تھے مگر بین السطور فکر مندی بھی اور اسی تناظر میں بہت کچھ بتا گئے ، یوں لگا کہ بہت کچھ بتانا ہی مقصد تھا ۔ بلاول صاحب کو معلوم تھا کہ 26ویں اور 27ویں آئینی ترمیم نے عدالتی نظام کو بے دست و پاکر دیا ہے ، نظام انتظامیہ کے قدموں میں ڈھیر ہے ۔ میرا بھی ایک کیس ،بیرسٹر حسن خان نیازی نے لاہور ہائیکورٹ میں اپنی گرفتاری کیخلاف رٹ پٹیشن دائر کی ، جس میں انکی فوجی تحویل میں غیرقانونی منتقلی کو چیلنج کیا گیا ہے ۔ پچھلے تین ماہ سے کیس عدالتی شٹل کاک بنا ہوا ہے ۔ اب تک تین بینچ بنے اور تمام نے اپیل سننے سے معذرت کر لی ۔ اب چوتھے بینچ کا انتظار کہ کب شنوائی ہو گی؟ وطن عزیز میں زمانہ قدیم سے عدالتوں کی بے بسی اور مقتدرہ سے COMPLIANT ہونا ، بخوبی واقفیت ہے ۔ 26ویں ، 27ویں ترامیم کے امابعد اثرات ہی تو ہیں جو حسان نیازی بھگت رہا ہے ۔ حسان خان پر دائر جھوٹے مقدمے اور زیادتی کا مجھے رَتی بھر افسوس نہ ملال کہ حسان خان کا اللّٰہ اور رسولؐ ، قرآن و حدیت سے تعلق ، تقوی ، ایمان ، حوصلہ ، صبر بڑھا رکھا ہے۔ اسلامی تعلیمات نے ایمانی عقابی روح بیدار کر رکھی ہے، میرے لئے بھی روحانی ، ذہنی و قلبی تالیف و سکون اور حوصلہ ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ہے ۔بلاول بھٹو صاحب کی ملاقات میں کئی اہم باتیں اور بھی مگر فیض حمید کی آج کی سزا بہت کچھ بتا رہی ہے ۔ ہمیشہ سے ایک بات کہی ہے کہ جب عمران خان سے مذاکرات یا مفاہمت کے دروازے بند ہو جائیں تو اسکا اعلامیہ فیض حمید کی سزا کی صورت میں ہونا ہے ۔ آج کی نپی تلی 14 سال قید بامشقت ( بہت کم ) کا مطلب مفاہمت کا ایک دروازہ ابھی بھی آدھا کھلا ہے ۔ جس دن عمران خان کی GHQ راولپنڈی پر چڑھائی ، اسکے لئے جلسے ریلیاں ، حلف ، ارشد شریف کا قتل ، عمران خان پر قاتلانہ حملہ پر تحقیقات و تفتیش مکمل ہو گی اور بعدازاںسانحہ 9 مئی پر فیض حمید کا رول سامنے لایا جائیگا تو 14 سال سزا معمولی ، اس سے کہیں زیادہ ہولناکیاں رونما ہونگی ، عمران خان اور جنرل باجوہ کا نام بھی گونجے گا ۔ میری نپی تلی رائے ، عمران خان ، فیض حمید ، جنرل باجوہ ، PPP ، آج کے ہر بحرانی مسئلے میں مقتدرہ کو خاطر خواہ مطلوبہ نتائج نہیں ملنے کہ ، ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں ‘‘