’بسنت پالا اڑنت‘ اچھے وقتوں کی روایت تھی جب موسم بدلنے پر آسمان رنگ برنگی پتنگوں سے بھر جاتا۔ یہ ایک سادہ اور دل ربا تہوار تھا جس میں رنگ برنگی پتنگوں اور پکوانوں کا خرچہ تو ہوتا تھا لیکن خرچے کی اس فہرست میں کسی غریب کی جان شامل نہیں ہوتی تھی۔ دوست احباب رشتہ دار اکٹھے ہوتے پکوان تیار ہوتےمل بیٹھ کر کھائے جاتے۔ یہ تہوار ایک طرف موسم کی تبدیلی کا خوشگوار مظہر تھا تو دوسری جانب یہ دوستوں رشتہ داروں سے تجدید ملاقات کا ایک سلسلہ بھی تھا۔
بسنت کا مرکز لاہور شہر ہی تھا اور یہیں پر بسنت نے نئے طور اطوار اختیار کرنا شروع کیے ۔ بسنت پر بڑے بڑے میوزیکل شو ہونے لگے، بیرون ملک سے لوگ بسنت منانے آتے ، مہنگے ہوٹلوںکی بکنگ ہوتی اوربسنت کے تہوار کے ساتھ کئی قسم کے اور شغل بھی اختیار کیے جاتے جس سے تہوار سادگی اور معصومیت کے دلربا دائرے سے نکل کر دولت مند افراد کا تہوار بن کے رہ گیا لیکن سلسلہ یہاں تک نہ رکا۔ بسنت کی اس سے اگلی شکل بہت خوفناک اور ہولناک ثابت ہوئی۔ سادہ زمانے کی طرح سادہ ڈور بھی قصہ پارینہ ہوئی ۔ اب ڈور کو پسےہوئے شیشوں کا مانجھا لگنے لگا ڈور ایک تو کاٹنی مشکل ہوتی تھی اور اگر کٹ جاتی تھی تو کسی کی انگلی پر پھرتی یا گردن پر، اسے کاٹ کے رکھ دیتی تھی۔ بے حسی اور بے اعتنائی کے موسموں میں ہر برس بسنت پر کئی قیمتی جانیں اس قاتل ڈور کی نذر ہونے لگیں۔
زندگی کے معمولات میں شریک کوئی بے خبر موٹر سائیکل سوار جاتے جاتے گردن پر ڈور پھرنے کے دل خراش سانحے کا شکار ہو جاتا۔ رنگ اور خوشبو کی بجائے یہ خوف اور موت کا خونی تہوار بن گیا۔ لوگوں کا احتجاج بجا تھا بالآخر بسنت کے تہوار پر پابندی لگانا پڑی۔ روایتی اقدامات ، سخت قانون سازی سزاؤں اور جرمانوں کے اعلانات کے روایتی گھسےپٹے بیانات کےباوجود قاتل ڈور بنانے والے اندر خانے موت کی ڈور بناتے رہے یہ بکتی رہی استعمال ہوتی رہی اور یہ شغل کسی نہ کسی گھر کے قیمتی چراغ کو گل کرتا رہا ۔ ایسا تہوار جو انسانوں کی جان لینے لگے اس پر پابندی لگنے کا قانون بننا چاہیے اور تاحیات پابندی لگنی چاہیے۔
یہی لاہوری کبھی بسنت منایا کرتے تھے مگر لوگ اب قاتل ڈور کی حشر سامانیاں دیکھ کر اس تہوار پر پابندی کے حق میں ہیں جبکہ حکومت اس تہوار کو منانا چاہتی ہے۔ یہ ایک عجیب تضاد ہے کہ حکومت لوگوں کے جان اور مال کی حفاظت کی ضمانت دیتی ہے مگر بسنت منانے کا اعلان کر کے پنجاب حکومت نے پنجاب کے سفید پوش گھرانوں کو تکلیف دہ صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔موٹر سائیکل سفید پوش طبقے کی سواری ہے اور سفید پوش طبقہ پہلے ہی پاکستان میں نہایت مشکل زندگی گزار رہا ہے۔
بسنت منانے کے اعلان نے ان کے سانس خشک کردیے ہیں، کیونکہ انہیں اپنے روزمرہ کے امور نمٹانے کے لیے، نوکری پر جانے کے لیے، بچوں کو اسکول اور کالج چھوڑنے کے لیے موٹر سائیکل ہی استعمال کرنا پڑتی ہے۔ سفید پوش طبقہ خوف میں مبتلا ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ اس تہوار کی آڑ میں کوئی قاتل ڈور ان کے کسی پیارے کی جان لے سکتی ہے، کسی کا گلا کاٹ سکتی ہے۔ یہ اعلان نہایت مضحکہ خیز ہے کہ موٹر سائیکلوں پر انٹینا لگائے جائیں گے۔ آخر ایسی کون سی قیامت آن پڑی ہے کہ بسنت منانے کے لیے لاکھوں موٹر سائیکلوں پر انٹینا لگانا لازم ٹھہرے؟ عملی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے اس لیے یہ مسئلے کا حل نہیں ۔ یہ صرف ایک اور وقتی، نمائشی فیصلہ ہے جس کا بوجھ پھر اسی غریب اور سفید پوش آدمی کو اٹھانا ہوگا۔
کیا یہ بہتر نہیں کہ آپ بسنت جیسے متنازع اور جان لیوا تہوار کی جگہ رت بدلنے پر اچھے اور محفوظ تہوار متعارف کروائیں۔سی ایم صاحبہ، اگر آپ پنجاب کو ایسا کوئی تہوار دے جائیں اور ایسی روایت قائم کر جائیں، تو آپ کے جانے کے بعد بھی لوگ آپ کو یاد رکھیں گے۔ ہر سال جب موسم بدلے گا، جب جب خونی بسنت کی بجائے وہ تہوار منایا جائے گا جسکی فضا میں سفید پوش پاکستانیوں کے دل نہیں لرزیں گے ،ان کوموٹر سائیکلوں پر اپنے بچوں کوا سکول چھوڑتے ہوئے عدم تحفظ کا احساس نہیں ہوگا تو لوگ آپ کو ایک ذمہ دار وزیراعلیٰ کے طور پر یاد رکھیں گے۔پنجاب اور پاکستان صرف کار سوار خوشحال لوگوں کا نہیں سفید پوش موٹر سائیکل سواروں کا بھی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ مریم نواز شریف سے گزارش ہے، آپ اللّٰہ کی توفیق سے پنجاب میں کچھ بہتر کارکردگی دکھا رہی ہیں آپ کے 80 فیصد اقدامات ایسے ہیں جن کی تعریف آپ کے مخالفین بھی کر رہے ہیں۔ ایسے وقت میں جب اللّٰہ تعالیٰ آپ کو عزت دے رہا ہے، بسنت جیسے جان لیوا تہوار کو دوبارہ منانے کا اعلان کر کے اس عزت کو داؤ پر نہ لگائیں۔ایک جان بھی اس بسنت میں آپ کے بسنت پروجیکٹ کی نذر ہو گئی تو آپ کو اس کا جواب بڑی عدالت میں دینا ہوگا۔وہ تہوار جس کے ساتھ گردنیں کٹنے کا خدشہ جڑا ہو، جس کے نام سے ماؤں کے دل کانپتے ہوں، اس سےخوشیاں وابستہ نہیں کی جا سکتیں۔ خدا کے لیے، ایسی روایتیں مت بنائیں جو معاشرے کے اندر اجتماعی خوف اور سہم پیدا کریں۔خود تو آپ بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں یہ ڈور آپ کو کچھ نہیں کہے گی یہ ڈور صرف سفید پوش پاکستانیوں کا گلا کاٹے گی۔ خطرہ صرف سائیکل سواروں، پیدل چلنے والوں یا سفید پوش پاکستانیوں کو ہے۔
مجھے امید ہے وزیر اعلیٰ پنجاب ماں کے دل سے لاکھوں موٹرسائیکل سوار سفید پوش پاکستانیوں کے بارے میں ضرور سوچیں گی جن کے دل بسنت منانے کے اعلان کے ساتھ عدم تحفظ سے دوچار زرد پتوں کی طرح کانپ رہے ہیں۔اور ان کے ساتھ ہم جیسے لوگ بھی کڑھ رہے ہیں کہ رسم رہ شہر نگاراں میں پہلے ہی صورت بربادئ یاراں کیا کم تھی کہ آپ معاشرے کو تہوار کے نام پر عدم تحفظ سے دوچار کرنے جا رہے ہیں۔بسنت کے نام پر یہ عدم تحفظ قابل قبول نہیں!