• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب کبھی شہرِ اقتدار کی رعنائی اور دلربائی سے ہم کلام ہونے کا موقع ملتا ہے تو ہم ہر بار اس شہر سے کسی شہر یار کی دریافت میں کھو جاتے ہیں، بھلے ہی یہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے بہرحال محبت جیسے اکسیر سا متبادل ملتا ہے نہ محنت کا متبادل ممکن ہے۔ لیکن یہ سب ہر کہیں دستیاب ہیں۔ بس تعصب کی عینک اتار کر چشم بینا کو بروئے کار لانا پڑتا ہے کہ محض چشم تصور ہی سے سب حاصل ہو جائے یہ ممکن نہیں !شہرِ اقتدار سے وابستہ ایک بات کے بعد دیگر واقعات و حاصلات کی طرف بڑھتے ہیں۔ ایک دوست کو زاویہْ زرداری پیش کی تو کہنے لگے ’’ یہ زرداری صاحب سے تعلق بنانے کیلئے مرتب کی؟ ‘‘ میں نے کہا حضور : یہ زرداری صاحب سے تعلق بنانے کیلئے نہیں، اپنے قاری سے تعلق نبھانے کیلئے لکھی ہے۔ جب یہ لکھی اور مکمل کی گئی آصف علی زرداری کے دوسری مرتبہ صدر بننے کی امید مجھے کم ہی تھی تاہم آثار موجود تھے۔ اسی لئے تو میں نے جنگ کالم 26 نومبر 2023 میںعرض کیا تھا کہ’’ کبھی آصف علی زرداری کو پنجاب میں گورنر لگانے کا موقع ملے تو ہم کہیں گےکہ وہ گورنر اچھا ہونے کے ساتھ ساتھ چانسلر بھی اچھا ہو جو یونیورسٹیوں کے انڈسٹریل لنکس اور اکانومی لنک کو سمجھے، علاوہ ازیں یونیورسٹیوں کوپالیسی ساز ادارے اور کمیونٹی دانش گاہیں بنانے کے خواب و تعبیر کو عملی جامہ پہنائے تاکہ چھٹے صنعتی ارتقاء کے فلسفہ اور عمل کو سمجھا جا سکے ! ‘‘یہ سطور متذکرہ کتاب صفحہ نمبر 341 پر بھی ملیں گی ، کہ امید کہیں بہرحال تھی۔ وہ الگ بات کہ صوبوں میں چانسلرز پرسونا ڈیزگنیٹا ہونے کے باوجود وزرائے اعلیٰ خود کام کرنے سے قاصر ہیں ، پرو چانسلر یعنی وزیر پر سب چھوڑا ہوا ہے گر چانسلر کوئی کام کی بات بھی کہیں تو شکایت ہوتی ہے۔ شاید یہی عاقبت نااندیشیاں ہیں کہ پالیسی ساز یونیورسٹیاں صوبوں کو واپس کرنےکے حق میں ہوگئے ہیں اور اس ترمیم کے درپے بھی!ہم مطلوب و مقصود سے تھوڑا اِدھر اُدھر ہوگئے لیکن تعلق اور مناسبت سے نہیں۔ بہرحال اس دفعہ شہرِ اقتدار میں جس شہر یار کو منفرد رنگ، ترنگ اور ڈھنگ میں دیکھا ان کا ذکرِ خیر کئے بغیر گزارہ نہیں۔ ہمارے ساتھ اس ملاقات میں ڈاکٹر رضا بھٹی سابق وی سی شیخ ایاز یونیورسٹی شکارپور و سابق ڈی جی ایچ ای سی بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر بھٹی نے مسلسل تین چار سال یعنی 2018 تا 2021 پورا سندھ اور اس کے کمال ترقیاتی کام دکھائے، گمبٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ سے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کارڈئیو واسکولر ڈیزیز سے آئی بی اے اور اسلام کوٹ تک کے ویلفیئر اور ترقیاتی پراجیکٹ دکھائے ، اور کل پرسوں ہم نے انہیں ایچ ای سی اسلام آباد کے دیوار سانجھی پراجیکٹ ’’پاکستان سویٹ ہومز‘‘ دکھا کر حساب چکتا کر دیا۔ جو وہ کئی سال کی ہمسائیگی میں نہ دیکھ سکے۔ ہم چاہیں گے، نئے چیئرمین ایچ ای سی اور حال ہی میں تقرری پانے والے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ضیاءالحق اس سے محروم نہ رہیں سب ڈی جیز بلکہ دورے پر جانے والے پاکستان بھر کے وائس چانسلرز اور چانسلرز کو شہر اقتدار میں بسی اس روشن بستی کا مطالعاتی دورہ کرنا چاہیے پھر وہ بھی راقم کی طرح یہی کہیں گے’’زندگی کو وقف کیا ہو جنہوں نے مجبوروں کیلئے وہی لوگ میرے ملک کی دل کی دھڑکن ہیں۔‘‘ شہناز وزیر علی نے’’سویٹ ہومز‘‘کو جو’’پاکستان‘‘ کا سابقہ دے کر’’ پاکستان سویٹ ہومز‘‘کی اصطلاح سے نوازا ،اس میں کمال عمل و فلسفہ ہے۔ یقین کیجئے اسے یتیم خانہ کہنے کا حوصلہ نہیں پڑتا، یہ تو کئیر، ہیلتھ، ایجوکیشن، نگہداشت، حب الوطنی اور انسان سازی کا قابلِ تحسین، قابلِ غور اور قابلِ تقلید دانش گاہ و آماجگاہ ہے، جہاں امید کے استعارے، یقین کے اشارے اور دمکتے چمکتے ستارے شگوفوں سے چٹخ کر مہکتے پھول بننے کیلئے بےتاب ہیں۔ اس باغ کے باغبان کو سیلوٹ کہ جس نے بھلوال سرگودھا سے لاڑکانہ گرلز کیڈٹ کالج تک اور نارتھ وزیرستان سے سکھر تک پھر گوجر خان و سوہاوہ اور دیگر علاقوں تک اپنی اسٹیبلشمنٹ ، کمٹمنٹ اور لنکیجز کو دوام بخش کر ایشیا میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والا آرفنیج قائم کر دکھایا۔ ایسا ادارہ کہ جس سے سبھی وزرائے اعظم اور صدور ہی نہیں سپیکرز ، وزراء ، ججز ، جنرلز اور دیگر سماجی و سیاسی قائدین بھی بہت خوش ہیں، اور بابا جانی کیلئے دعا گو بھی۔ بابا جانی کے حسنِ تدبر پر قربان کہ یہ مستقل لکھت پڑھت کردی اس ادارے کے بورڈ آف ٹرسٹیز میں ان کی اولاد یا عزیز نہیں ہوں گے بلکہ پاکستان سویٹ ہومز ہی سے مستفید ہونے والے بچے ہی ہوں گے ، وہ اسکے باغبان، وہی نگہبان اور مستقبل ۔ سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے اپنے قائدین بےنظیر بھٹو اور آصف زرداری کے وژن کو جلا بخشتے ہوئے اس کی وسعتوں اور عظمتوں کو جس خشتِ اوّل سے نوازا وہ بھی یقیناً مطمئن ہوں گے۔ وہ دن دور نہیں جب یونیسیف جیسے عالمی ادارے بھی لوکل ڈونرز کی طرح مہرباں ہوں گے، پھر اس کی آبیاری کیلئے سابق وزرائے اعظم عمران خان اور یوسف رضا گیلانی کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ سابق اسپیکر اسد قیصر ہوں یا موجودہ اسپیکر ایاز صادق ، شفقت محمود اور چوہدری جعفراقبال جیسے وزراء ہوں یا عسکری قیادت سبھی نے اس سے نگہداشت اور معاونت کا خوب رشتہ نبھایا۔ شکریہ چوہدری منظور سابق ایم این اے کہ آپ نے اس ادارہ سے مجھے متعارف کرایا۔ ہاں، وزیراعظم شہباز شریف کی خصوصی شفقت اور بلاول بھٹو کی پاکستان سویٹ ہومز سے محبت کو فراموش کرنا ممکن نہیں تاہم اسکی عمارت سازی اور جدت طرازی کو ابھی بہت معاونت درکار ہے جو یقیناً وقت کے ساتھ میسر ہو گی۔ سی ڈی اے کا شکریہ اس کے ملازمین کی جانب سے ان کی منشا کے مطابق ہر تنخواہ سے کنٹری بیوشن آتی ہے۔ اسی طرز بلکہ تحقیقی و تخلیقی و تعمیری طرز پر نسٹ، کامسیٹس اور قائد اعظم یونیورسٹی ہی نہیں ملک بھر کی جامعات اور اداروں کو سوچنا چاہئے کہ باباجانی زمرد خان (سابق ممبر قومی اسمبلی و سابق چیئرمین بیت المال) کا عملی و روحانی ساتھ دیں۔ سیکرٹری خارجہ و وزیر خارجہ کو اس بین الاقوامیت پر سوچنا ہوگا۔ چیئرمین وزیراعظم نوجوان پروگرام رانا مشہود بھی دورہ کریں کمال نوجوان بچے بچیاں اورا سپورٹس ٹیلنٹ دستیاب ہوگا...جہاں پاکستان میں ریکارڈ نوجوان ہیں ظاہر ہے وہاں امداد کے طالب آرفن بھی زیادہ ہیں شہر اقتدار کی اس رعنائی و دلربائی کو بھی ملک کا اثاثہ سمجھنا حکومت اور اداروں پر فرض ہے!

تازہ ترین