پچھلے کچھ برسوں سے پاکستان کےسیاسی حالات نے معاشی سماجی اور معاشرتی ڈھانچے کو اس بری طرح سے متاثر کیا ہے کہ ان حالات میں کوئی امید افزا بات کرتے ہوئے عوامی ردِ عمل کا خوف چپ رہنے کو قرینِ مصلحت بنا دیتا ہے۔ پھر بھی جن لوگوں کو سرنگ کے دہانے پر روشنی دیکھنے کی عادت ہو وہ گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی امید کی کرن ڈھونڈنے میں اپنی صلاحیتیں صرف کرنے سے باز نہیں آتے۔ منفی تاثرات حوصلہ شکن رجحانات نا مساعد حالات اور نا موافق امکانات کے باوجود وہ اپنے حوصلوں کو کمزور نہیں پڑنے دیتے ایسے ہی ایک کردار نے اسلام آباد کو عالمی مرکزِ نگاہ بنا ڈالا۔ بیرون پاکستان سے کمائی کر کے پاکستان آنے والے ڈاکٹر قیصر رفیق نے ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن آف پاکستان کے اشتراک سے اسلام آباد کے ایک پنج تارہ ہوٹل میں گلوبل ڈیسٹی نیشنز ایکسپو اور دوسرے سیاحتی ایوارڈز کا میلہ سجا کر دنیا کے پچاس اہم ترین ممالک کے وفود اور سفارتکاروں کو اکٹھا کر کے یہ دکھانے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کر ڈالی کہ پاکستان منفی تاثرات اور پراپیگنڈوں سے ہٹ کر سیاحت کے حوالے سے کیسے شاندار امکانات کی حامل سرزمین ہے۔ گلوبل ڈیسٹی نیشنز ایکسپومیں پاکستان کی ثقاقت سیاحت اور تہذیب و تمدن کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ بین الممالک روابط ایک دوسرے کی تہذیبوں کو جاننے اور ایک دوسرے کی ثقافتوں سے ہم آہنگی کے مواقع تلاش کرنے کا بھی خصوصی اہتمام کیا گیا۔ اس ایکسپو میں شریک ممالک کے وفود میں باہمی دلچسپی اور سیاحتی و تجارتی مواقع کو فروغ دینے کے لیے مختلف ممالک نے اپنے خصوصی اسٹالز اور کارنرز لگائے، جہاں فن و ثقافت، آرٹ، ہینڈی کرافٹس اور سیاحتی خصوصیات کو نمایاں انداز میں پیش کیا گیا۔ ایکسپو کے مختلف سیشنز سے وفاقی وزراء حنیف عباسی، عطاء اللہ تارڑ،وزیرِ اعظم کے مشیر برائے سیاحت سردار یاسر الیاس خان اور مختلف ممالک کے سفیروں نے خطاب کیا۔اس ایکسپو میں پاکستان میں سیاحتی سرگرمیوں کو فروغ دینے،سیاحتی مقامات کو دنیا بھر میں پرکشش انداز میں متعارف کروانے اور عالمی سطح پر سیاحوں کو راغب کرنے کے حوالے سے خدمات سرانجام دینے والے مختلف شعبوں کے افراد کو خصوصی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔پاکستان اس وقت سیاحتی انڈسٹری سے محض سالانہ ایک سے ڈیڑھ بلین ڈالر زرِ مبادلہ کماپا رہا ہے۔ٹریول اینڈ ٹورزم ڈویلپمنٹ انڈکس کی 2024کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے 119ممالک میں 101ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان قدرت کی بے بہا فیاضیوں کے باوجود صرف نا مناسب حکمتِ عملی اور اس شعبہ کو نظر انداز کیے جانے کے باعث اس نچلی سطح پر موجود ہے۔ ورنہ دیکھا جائے تو مذہبی، ثقافتی، تعلیمی، تہذیبی، تفریحی،تاریخی اور تمدنی سیاحت کے حوالے سے پاکستان دنیا کے کسی بھی ملک سے کہیں زیادہ ثروت مند ہے۔ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلے خطے کے کئی ممالک تک پھیلے ہوئے ہیں۔ دنیا کی 8000میٹرز سے بلند 14چوٹیوں میں سے 8پاکستان کی جغرافیائی حدود کا اثاثہ ہیں۔ 108سے زائد 7000میٹرز سے بلند پہاڑی چوٹیاں پاکستان کو ممتاز بناتی ہیں جبکہ اتنی ہی تعدادکے لگ بھگ 6000میٹرسے زائد کی چوٹیاں اس خطہءِ ارضی کی شان ہیں۔ گلگت بلتستان، شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر کی جنت نظیر وادیاں صرف سیاحوں کو خاطر خواہ سہولیات،بہتر انفراسٹرکچر، عالمی سیاحتی حلقوں میں متعارف کروائے جانے اور بہتر مارکیٹنگ کی منتظر ہیں۔مسلمانوں، ہندوؤں،سکھوں، عیسائیوں اور بدھ مت کے متبرک مقامات پاکستان کی مذہبی سیاحت کو انڈسٹری میں بدلنے کیلئے قدرت کی طرف سے عطا کردہ انعامات ہیں۔بدھ مت کے مردان، ٹیکسلا، سوات اور تخت بائی میں واقع متبرک مذہبی مقامات دنیا بھر میں بسنے والے بدھ مت کے پیروکاروں کو پاکستان کا سفر اختیار کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔سکھوں کے اسی فیصد سے زائد متبرک مذہبی مقامات پاکستان میں واقع ہونے کے باعث ہر سال دنیا بھر سے سکھ یاتری پاکستان آتے، انتہائی خوشگوار یادیں سمیٹ کر جاتے اور پاکستان کے سفیر ثابت ہوتے ہیں۔بلوچستان میں واقع ہنگلاج ماتا، کٹاس راج چکوال، اور کراچی میں واقع ہنومان مندر ہندوؤں کو بھی پاکستان کے متبرک سفر پر مائل کرتے ہیں۔مہر گڑھ اور انڈس ویلی تہذیبوں کے مراکز موہنجو دڑو اور ہڑپہ آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والے دنیا بھر کے محققین کیلئے انتہائی پرکشش ہیں۔پاکستان میں واقع تاریخی عمارات، مقامات اور تفریحی و سیاحتی حوالے پاکستان کی سیاحتی انڈسٹری کو 40بلین ڈالرز سالانہ کی بلند ترین سطح پر پہنچانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ایک مثبت چہرہ عطا کر نے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ان انتہائی امکانات سے بھرپور شعبوں کو عالمی اور مقامی مقتدر حلقوں کی نظروں میں لا کر ان کی افادیت کے مطابق ان سے استفادہ کی ترغیب دلانے کیلئے گلوبل ڈیسٹی نیشن ایکسپو ابتدائیہ ثابت ہو سکتی ہے۔سیاسی اور معاشرتی عدم استحکام سے نبرد آزما پاکستانیوں کو ایک بہتر خوشحال اور آبرو مند مستقبل کی نوید دلائی جا سکتی ہے۔حکومتی نجی اور انفرادی سطح پر پاکستان کے ان اثاثوں کو بروئے کار لانے کیلئے صرف عزمِ صمیم، درست اور کار آمد حکمتِ عملی،واضح اقدامات، سہولیات، امن و امان کی فراہمی، مقامی افراد کی عالمی معیارات کے مطابق عملی تربیت، سیاحتی و ثقافتی میکانزم کے قیام اور سیاحوں کیلئے نرم سیاح دوست ویزہ پالیسیاں پاکستان کو 101ویں نمبر سے بہت جلد ٹاپ 30ڈیسٹی نیشنز میں لا کھڑا کر سکتی ہیں۔حکومتی سطح پر ایسی سنجیدہ کوششوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی ہونی چاہیے بلکہ ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن جیسے اداروں کومربوط، جدید خطوط اور تقاضوں کے ہم آہنگ کر کے انہیں متحرک اور با عمل بنانا چاہیے۔