• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم وہ نسل ہیں ، جن کی آنکھوں کے سامنے کمپیوٹر آیا، انٹرنیٹ، موبائل فون اور سوشل میڈیا ۔ پہلے پہل انٹر نیٹ پہ کبھی عجیب و غریب تصاویر دیکھنے کو ملتیں ۔ ایک پندرہ فٹ اونچا بیل جو تیس انسانوں کی جسامت کے برابر ہے ۔پھر ایک آئی ٹی ماہر مسکرا کر آپ کو بتاتا : یہ فوٹو شاپ ہے ۔فوٹو شاپ تصاویر سے بات بڑھتی ہوئی آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے بنی ہوئی وڈیوز تک جا پہنچی۔ آج آپ مصنوعی ذہانت سے اپنی مرضی کی وڈیو بنا سکتے ہیں ۔آپ ایک کتے کو اڑتا ہوا دیکھیں گے ۔ نیچے لکھا ہوگا : کتوں کی اڑنے والی اسپیشیز دریافت ہوگئی۔ وڈیو دیکھنے میں بالکل اصلی لگے گی ۔انسان کی اصلی ذہانت اسے بتائیگی کہ یہ مصنوعی ذہانت ، آرٹیفیشل انٹیلی جنس والی وڈیو ہے ۔

مصنوعی ذہانت ہے کیا۔ انسان کہتاہے کہ اصل ذہانت تو انسانی کھوپڑی میں ہے اور اگر اس اصل ذہانت میں سے انسان کچھ ذہانت کمپیوٹر، مشین یا روبوٹ کو دیدے تو وہ مصنوعی ذہانت ہے ۔ پہلے دن سے انسان اس خدشے میں مبتلا ہے کہ مشین کو مصنوعی ذہانت مل گئی تو کہیں وہ انسان کے خلاف بغاوت نہ کردے ۔

سائنس کی وہ شاخ جو زندہ چیزوں کا جائزہ لیتی ہے ، اسے حیاتیات کہتے ہیں ۔ حیاتیات یہ کہتی ہے کہ حیاتیاتی یا سائنسی طور پر انسان اور دوسرے جانوروں میں کوئی فرق نہیں۔انسان کادل، جگر ، گردے،پھیپھڑے،خون کی نالیاں اور نظامِ انہضام ، سب کچھ وہی ہے ؛حتیٰ کہ اولاد کی پیدائش بھی انسان اور دوسرے جانوروں میں ایک ہی طرح ہوتی ہے ۔ انسانی جسم کے خلیات دوسرے جانوروں کے خلیات جیسے ہی ہیں ۔انسان کو موت بھی اسی طرح آتی ہے ۔سائنسدان جب اس کائنات پہ غور کرتے ہیں تو انہیں ایک چیز کو دیکھ کر سب سے زیادہ حیرت ہوتی ہے ۔ اس چیز کا نام ہے زندگی ۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ کائنات میں ہر طرف عناصر بکھرے ہوئے ہیں ،اس پر حیرت نہیں ۔ ان میں سے کچھ اکھٹے ہو کر زندہ کیسے ہو گئے ، اس پر حیرت ہے۔آج انسان دیوانوں کی طرح دوسرے سیاروں پہ زندگی ڈھونڈتا پھر رہا ہے ۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز چیز یہ ہے کہ کرـہ ارض کی تاریخ میں پانچ ارب قسم کی جاندار اسپیشیز پیدا ہوئیں ۔ ہومو سیپین یعنی انسان انہی میں سے ایک تھا لیکن وہ اتنا ذہین کیسے ہوگیا کہ کائنات کاجائزہ لینے ، اسکی ابتدا اور اسکے اختتام کے تھیسز پیش کرنے لگا ۔باقی پانچ ارب فوری جسمانی ضروریات پوری کرنے سے آگے نہ بڑھ سکے ۔ان میں سے کئی ایسے ہیں، جو انسان کے ہاتھوں مکمل طور پر ختم ہو گئے لیکن اتنے شدید دباؤ میں بھی ان میں کوئی ایسی ذہنی اور جسمانی تبدیلی نہ ہوئی جو انہیں انسان سے بچا سکتی ۔

یہ تو سمجھ آگئی کہ مشین کو مصنوعی یا نقلی ذہانت انسان دے رہا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کے پاس اسکی اصلی ذہانت کہاں سے آئی ۔انسان یعنی ہوموسیپین کی عمر کااندازہ تین لاکھ سال ہے ۔کچھ سائنسدان کہتے ہیں کہ پچاس ہزار سال پہلے انسان میں ایک دم ذہانت پید ا ہوئی ۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ تین لاکھ سال میں بتدریج ہوا۔ کیا ہمارے آباؤ اجداد نے کوئی خاص ریاضت کی ، جسکی وجہ سے ان کا دماغ بڑھنا شروع ہوا۔ ایسا کچھ بھی نہیں تھا ۔ یہ جو بے تحاشا عقل انسان میں پید اہوئی، اس میں انسان کا اپنا عمل دخل کچھ بھی نہیں تھا۔ حیاتیات اور فاسلز کے علوم یہ بھی بتاتے ہیں کہ یورپ کے نینڈرتھل مین سمیت کم از کم اکیس قسم کے انسا ن ماضی میں اسی زمین پہ اپنی زندگی بسر کر تے رہے اور پھر ناپید ہو گئے ۔ا سمتھ سونین نیشنل میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے مطابق تین لاکھ سال پہلے جب انسان نے ہوش کی آنکھ کھولی تو دوٹانگوں پہ چلنے والی کم از کم آٹھ دیگر اسپیشیز متوازی طور پر زندہ تھیں ۔ پھر پراسرار طور پر وہ ختم ہو گئیں ۔ کچھ کا خیال یہ ہے کہ وہ ہمارے زیادہ ذہین آباؤ اجداد کا مقابلہ نہ کر سکیں ۔

لطیفہ یہ ہے کہ انسان کو پتہ ہی نہیں کہ اس کی اپنی ذہانت بھی مصنوعی ہے ۔یہ ذہانت خدا نے اسے دی ہے ۔ ایک ایسی اسپیشیز پیدا کی جانی تھی، جسے عقل دے کر آزمایا جاتا کہ وہ عقل اور خواہش میں سے کس کا انتخاب کرتی ہے ۔ انسانی کاسہ ء سر میں اگر یہ عقل اپنے آپ پیدا ہوئی ہوتی تو باقی پانچ ارب میں سے کسی اور میں بھی ہوجاتی ۔ شکاری کتوں کے بارے میں قرآن کہتاہے کہ تم انہیں اسی میں سے کچھ سکھاتے ہو جو ہم نے تمہیں (انسانوں کو ) سکھایا (یعنی شکار کرنا)۔ یہ کتے حیران کن کام کر سکتے ہیں لیکن کبھی ان میں یہ سوچ پیدا نہیں ہوئی کہ اپنا بدترین استحصال کرتے انسان سے جان چھڑائی جائے ۔ انسان مشینوں کو مصنوعی ذہانت دیتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہا ہے کہ کہیں کھیل ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ خدا نے انسان کو بے تحاشا مصنوعی ذہانت دی کہ جا جومرضی کر۔ اس عقل سے دنیا میں فائدے اٹھا اور چاہے تو اسی کی مدد سے غور کرتے ہوئے خود خدا تک پہنچ جا۔

رخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں 

ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے

کائنات میں فاصلے اتنے زیادہ ہیں کہ انسان کبھی ایک نظامِ شمسی سے نکل کر دوسرے ستارے تک نہیں جا سکتا۔ وہ جس مرضی دھات کا راکٹ بنا لے بلکہ چاند اور مریخ کی دھاتیں بھی نکال لے ۔ اس وقت کرہ ارض کے ذہین ترین انسان دیوانہ وار اپنا دماغ استعمال کرتے ہوئے ریسرچ آرٹیکلز میں ایک دوسرے سے اپنا علم شیئر کر رہے ہیں ۔ یہ الگ بات کہ انسان کا زیادہ تر وقت اور وسائل جنگوں میں صرف ہوتے ہیں ۔ وہ صرف کمپیوٹر ایجاد نہیں کرتا ، ایٹم بم بھی بناتا ہے ۔ماضی میں صلیبی جنگیں ہوئیں ۔آج بھی یہودی،عیسائی ، مسلمان اور بت پرست ایک دوسرے کے مقابل خم ٹھونک کر کھڑے ہیں ۔ہٹلر، ٹرمپ، مودی اور پیوٹن جیسے لوگ معاشروں کو اغوا کر لیتے ہیں ۔

ہاں ، البتہ انسان خدا کی طرف سے دی گئی مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے بارشیں برساتا، اناج اگاتا اور خود کو خدا سمجھنے کی خوش فہمی پالتاہے ۔ پھر آخر قیامت آئے گی۔ انسان نے اپنے ہاتھ سے بارہ ہزار ایٹم بم بنا رکھے ہیں ۔انکے ہوتے ہوئے کرہ ارض کسی اور قیامت کا محتاج بھی نہیں۔

تازہ ترین