• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کل تک یہاں ایک راجہ ہوا کرتا تھا اسکی نہ تو کوئی ریاست تھی اور نہ اسکی سرے سے کوئی سیاست تھی۔ وہ صرف نام کا راجہ نہیں دل اور جگر کا بھی راجہ تھا۔ وہ جہاں ہوتا وہاں ہنسی، قہقہے، مسکراہٹیں اور سکون بسیرا کرلیتا۔ وہ ایک شرارہ تھا۔ اچانک روشنی کی طرح ہنستا، کھیلتا، مسکراتا ہوا آتا چند دن اپنے دوستوں، ساتھیوں میں خوشیاں بانٹتا اور پھر اچانک غائب ہوجاتا۔ کل اسلام آباد میں گاڑی کے حادثے میں دنیا سے چلا گیا لیکن جس طرح اس نے ہمیشہ حادثاتِ زمانہ کو شکست دیکر اچانک واپسی کی تھی کیا علم کسی دن وہ ہنستا، مسکراتا، لجاتا دوبارہ ظاہر ہوکہ میرا حادثہ، میری موت، سب ایک مذاق تھا، میں دوبارہ حاضر ہوں دوستوں کولطف دینے کیلئے، ہنسانے کیلئے اور انہیں اپنی گپ شپ سے گدگدانے کیلئے....

گزشتہ چار پانچ دن میں اور راجہ اکٹھے بلوچستان میں رہے۔ کبھی دوردراز پہاڑوں میں سفر کیا ،کبھی اقتدار کے ایوانوں میں، وہ مصروف لمحوں میں سے وقت چرا کرکان میں ایسی سرگوشیاں کرتا کہ دن بھر کی کلفت دور ہوجاتی۔ وہ دل کاراجہ توتھا ہی من موجی بھی تھا زندگی بھر ٹک کرکوئی کام نہیں کیا ،دنیا بھرکی خاک چھانی مگر اسے پسند یہی مٹی تھی ۔بچے اور اہلیہ بریڈ فورڈ میں رہتے تھے اور خود راجہ صاحب اپنے دل کی جنت پاکستان میں رہتے تھے، بیوی کہتی میں پاکستان آکر تمہاری نگہداشت کرنا چاہتی ہوں تو راجہ صاحب کہتے تھے یہاں حالات ٹھیک نہیں برطانیہ ٹھیک ہے اور پھر دوستوں کو مزے لے کر بتاتے کہ آزادی کتنی ضروری ہے سو بیگم برطانیہ میں اور راجہ پاکستان میں، یہ بہترین اور محفوظ انتظام ہے۔ آجکل راجہ صاحب پرپوری بہار آئی ہوئی تھی طویل بے روزگاریوں اور اِدھر اُدھر کی ٹھوکروں کے بعد بالآخر وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے اس ہیرے کو پہچان کر اپنا میڈیا فوکل پرسن مقرر کردیا تھا راجہ رَجا پُجا تھا، ذاتی طور پر منکسر المزاج مگر پروٹوکول اسے خوش کرتاتھا ،آج کل اسے یہ خوشی بہتات میں مل رہی تھی۔ لباس اور گیجٹس میںندرت اور جدت اسکی شخصیت کا حصہ تھی وہ جدید ترین فون، جدید ترین کیمرہ اور ریکارڈر سے ہمیشہ لیس ہوتا۔ ان دنوں اس نے ایک جدید عینک پہنی ہوئی تھی جسکے ذریعے جب چاہتا کسی کے علم میں لائے بغیر ویڈیو ریکارڈنگ کرسکتا تھا۔ راجہ کا نام مطلوب تھا وہ واقعی اسم بامسمیٰ تھا کہ اپنے دوست احباب کو ہمیشہ مطلوب ہی رہتا تھا۔ رہتا تھابھی کیا؟ وہ چاہے چلابھی گیا ہے، اپنے دوستوں کو تاعمر مطلوب ہی رہے گا۔

میری راجہ سے پہلی ملاقات 2003ء میں ہوئی وہ ان دنوں دبئی کی سٹی گورنمنٹ میں ملازم تھا۔ اُس زمانے میں پاکستانی چینلوں کے دفاتر دبئی میں ہوا کرتے تھے۔ ان دِنوں محترمہ بے نظیر بھٹو کا قیام بھی دبئی میں تھا سیاسی سرگرمیوں اور صحافتی دلچسپیوں کا مرکز ہونے کی وجہ سے ان برسوں میں دبئی بہت جانا ہوتا تھا ہر دورے میں راجہ راہروبن جاتا۔ ملاقاتیں، کھانے اور سیروتفریح سب کی منصوبہ بندی وہی کرتا۔ خود پس منظر میں رہ کر دوستوں کو پیش منظر میں رکھنا اسکے اوصاف حمیدہ میں شامل تھا۔ میرا شاگردِ خاص عثمان بٹ، راجہ کا دوست بنا تو راجہ کے میڈیا میں دوستوں اور سرپرستوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ عثمان بٹ، اقرار الحسن اور وسیم بادامی ایک ہی چینل میں کام کرتے تھے وسیم بادامی اوراقرار الحسن سے راجہ کی قربت اسقدر بڑھی کہ وہ یارغار بن گئے راجہ خود اینکر بھی بنا، میڈیا ایڈوائز بھی اورEvent آرگنائزر بھی مگر وہ خود شہرت کے راہوار کی سواری نہ کرسکا تاہم اسکا ساتھ ایسا تھا کہ شہرت کے کئی شہسوار، راجہ کی محفل کے ہم رکاب تھے۔

راجہ دوستوں کا مزاج شناس تھا، اچھا راجہ اپنی پرجا کا مزاج شناس ہی ہوتا ہے۔ وسیم بادامی، اقرار الحسن اور یاسر شامی محفل میں ہوتے تو طنز، مزاح،طعنے اور تمسخر عروج پر ہوتے۔ سلیم صافی یایہ روڑہ کوڑا موجود ہوتے تو احترام ملحوظ خاطر رکھ کر مزاح اور ذومعنی فقرے راجہ کے ہتھیار ہوتے، سرفراز بگٹی، فیصل کریم کنڈی، مصطفیٰ کمال یا بلال بن ثاقب ہوتے تو وہ باادب بھی ہوتا اور وقفے وقفے سے ان کو کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کہتا کہ وہ ظاہر نہ کرنے کے باوجود دلی طور پرنہال ہوجاتے۔

راجہ کا کمال یہ تھا کہ وہ دوستی میں صنف کا قائل نہیں تھا مرد تواسکی محفل کا حصہ تھے ہی خواتین بھی اسکے مزاح، لطائف اور ہنسی مذاق سے برابر کی لطف اندوز ہوتیں۔ راجہ کئی ماہ غائب رہنے کے بعد اچانک ایک دن ظاہر ہوتا اور فون پر پوچھتا کہ کیا آپ گھر پرہیں جواب اثبات میں پاتا تو ایک منڈلی کے ساتھ آموجود ہوتا۔ منڈلی میں ایک آدھ مرد دوست اور زیادہ تر خواتین ہوتیں، وہی ہنسی مذاق وہی دل ربا باتیں وہی زمانے بھر کی ڈائری اور پھر ہنستے کھیلتے رخصتی۔ راجہ کی زندگی اتنی بھرپور اور ہمہ جہت تھی کہ اسکے متنوع تجربات سن کر بندہ حیران ہی ہوجاتا۔ خواتین کی پسند نا پسند اور مردوں کی ترجیح واسترداد، اسے سب کا علم تھا۔ فیشن کی بات ہوتی تو وہ پلاسٹک سرجری سے لیکر دیسی ٹوٹکوں تک پر اپنی ماہرانہ ریسرچ کا اظہار کرتا۔ اسکے دوست تو مستقل تھے مگر محبوب بدلتے رہتے۔ وہ کسی محبوب کو نہ دغا دیتا تھا نہ چھوڑتا تھا، محبوب خود ہی اسکی عدم سنجیدگی سے بور ہوجاتا ہوگا۔

وہ مطلوب تو ہر ایک کو تھا مگر کسی کو کبھی زیادہ اور کبھی کسی کو کم مطلوب ہوجاتا۔ اس کا انحصار دوسرے کے ظرف اور مزاج پر ہوتا تھا۔ اس سے کبھی کوئی ناراض نہیں تھا کیونکہ وہ کوئی ایسا موقع ہی نہیں دیتا تھا۔ لوگ یا محبوب ہی اس سے الگ ہوجاتے ہوںگے کیونکہ وہ اس کے ساتھ چل نہیں پاتے ہوں گے، وہ خوشگوار اس قدر تھا کہ شاید غم گسار نہ بن سکتا ہوگا۔

راج گیری ہو یا راج نیتی، متکبر نظر آئے تو لوگ متنفر ہوجاتے ہیں۔ مزاح نگار ہو یا طنز نگار، ٹھٹھا یا مذاق کرنے والا وہی اچھا لگتا ہے جو خود کو چھوٹا اور دوسروں کو بڑابنا کربات کرے، خود مذمتی کرکے ہی بلھے شاہ اور شاہ حسین بڑے بڑے قاضیوں، راجوںاور بادشاہوں کا دامن تار تار کرسکتے تھے۔ راجہ مطلوب بھی اس راز کو پاچکا تھا، وہ پہلےاپنا مذاق اڑاتا، اپنی ذات کونشانہِ تمسخربناتا، پہلے خود کوگناہ گار ثابت کرتا پھر دوسروں کے دامن پر کھجلی کرتا تھا۔ کیا حیران کن نہیں کہ راجہ مطلوب ملتان کے مفتی عبدالقوی کا بھی ہم محفل تھا اور عید گاہ کے قابل احترام پیرنقیب الرحمن اور حسان حسیب الرحمان کابھی ہم نشین ہوتا تھا۔ اس قدر متنوع کون ہوسکتا تھا سوائے راجہ مطلوب کے...؟

راجہ اور میں اکٹھے کوئٹہ سے لاہور پہنچے، وہاں اس نے کار منگوارکھی تھی، اس نے کہا میں نے ابھی اسلام آباد جانا ہے۔ میں گھر پہنچتے ہی گھوڑے بیچ کر سوگیا کہ پانچ دن کی تھکاوٹ تھی۔ رات3 بجے سوکر اٹھا تو موبائل پر راجہ کے اسلام آباد پہنچ کر حادثے کا شکار ہونے کی خبر موبائل پر موجود تھی۔ یقین نہ آیا لگا راجہ نے شرارت کی ہوگی اور صبح اٹھنے پر اسکا قہقہوں بھرا لہجہ سنگین مذاق پر معافی طلب کررہا ہوگا مگر اس بار اس نے جان گنوا کر پھر سے سب کو ہرا دیا، ہمارے لئے تو وہ مطلوب نہ رہا اس لیےغمگین ہیں مگر مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے والد مرحوم راجہ طاہر کے ہمراہ پوران( انکے گاؤں کا نام جو سرائے عالم گیر کے قریب ہے، پوران کا مطلب پرانا ہوتا ہے) سے گزرنے والے سکندر اعظم اور دریا کے پار رہنے والے پورس دونوں کو اکٹھے بٹھاکر محفل برپا کررہا ہوگا۔ وہ راجہ تھا ،سکندر اور پورس جیسے راجائوں میں ہی رہے گا۔

تازہ ترین