• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ افسانہ ہے یا حقیقت، مگر یہ قصہ میرے پیدائشی علاقے خوشاب شاہپور میں مشہور بہت ہے۔ اس وقت ضلع کا صدر مقام سرگودھا نہیں بلکہ شاہ پور ہوا کرتا تھا۔ سر خضر حیات ٹوانہ پنجاب کے وزیر اعظم تھے اور انکے والد سر عمر حیات ٹوانہ اپنی کالرہ اسٹیٹ میں ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کررہے تھے۔ وہ18ٹوانہ لانسرز میں اپنی فوجی خدمات کی وجہ سے برطانیہ سے اعزازی جنرل کا خطاب پا چکے تھے، ریٹائرمنٹ کے بعد وہ زمینداری پر توجہ دینےکے ساتھ ساتھ اپنے شوق بھی پورے کرتے تھے، وہ شطرنج کے بہترین کھلاڑی تھے ،فالکنز کے ذریعے شکار میں عالمی شہرت رکھتے تھے، انہوں نے بہترین نسلوں کے کتے اور گھوڑے بھی پال رکھے تھے۔ کبھی کبھار وہ کالرہ سے شاہپور آتے تھے۔ ایک ایسے ہی وزٹ کے دوران شاہپور میں ایک حسین خاتون پر ان کی نظر پڑ گئی تو وہ انہیں اس قدر بھائی کہ انہوں نے اس غریب خاتون کے گھر شادی کا پیغام بھیجا۔ نامہ وپیام کے بعد معاملہ طے ہوگیا تو جنرل سر عمرحیات ٹوانہ باقاعدہ ڈھول تاشوں کے ساتھ دولہا بنے برات لیکر شاہپور اترے اور اس حسینہ کو بیاہ کر اپنی جاگیر پر لے گئے۔ وہ خاتون جب بیگم ٹوانہ بنیں تو گویاجنرل سر عمر حیات ٹوانہ کی ملکہ نور جہاں بن گئیں۔ شہنشاہ جہانگیر نےاپنی نورجہاں کو آدھی مملکت دیدی تھی جنرل عمر حیات اپنی محبت میں بادشاہ جہانگیر سے بھی آگے گزر گئے۔ وہ ہر ہفتے ،جمعرات کے روز اپنی زندگی کو انکے میکے بھیج دیتے اور جمعہ کو ڈھول تاشوں کے ساتھ دولہا بنے برات کے ساتھ شاہپور جاتے اور اسی خاتون سے دوبارہ شادی کی رسم ادا کرکے اسے واپس اپنے گھر لے آتے۔ یہ واقعہ ہر ہفتے ہوتا وہی دولہا، وہی ڈھول تاشے اور براتی بھی پرانے ہوتے مگر رسم نئی شادی کی ہوتی۔

اب تو نہ جاگیریں رہیں نہ وہ ٹوانے اور نواب رہے جو ایسے شوق پالیں مگر آج کی دنیا میں بھی تضادستان کے شہری نئی شادی اور پرانے براتیوں والے تجربے سے مسلسل گزر رہے ہیں۔ ہر حکمران اور ہر نئی حکومت آتے ہی نئی شادی کرتی ہے ڈھول تاشے بجتے ہیں، براتی خوش ہوتے ہیں کہ شادی کے بعد حالات پرسکون ہوجائیں گے مگر جب کوئی نئی حکومت آتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اب نظام کو بدلنا ہوگا یعنی نئی شادی رچانی ہوگی ،افسوس یہ ہے کہ براتی نئی نئی شادیاں دیکھ کر اُکتاہوچکے ہیں اب تو نظام بدلنے پر کوئی خوش بھی نہیں ہوتا کیونکہ اگر اسی ایک ہی خاتون سے بار بار شادی ہونی ہے اور براتی بھی وہی پرانے ہونے ہیں تو پھر اس ناٹک میں دلچسپی، جوش اور خوشی کہاں رہے گی۔

ابھی27 ویں ترمیم کی شادی کی رسوم جاری ہیں کہ پھر سے نئی شادی یعنی28 ترمیم کی تیاریاں شروع ہیں، ابھی تک تو 27 ویں شادی کے ڈھول بج رہے ہیں تو28ویں کی اتنی جلدی کیوں؟ براتی نئی نئی شادیوں سے اُکتاچکے، ون ڈش اورSameڈش کھا کھا کر اب شادی کے کھانوں میں دلچسپی ختم ہوچکی ہے۔ جنرل سر عمر حیات ٹوانہ کے براتی توانکے اپنے مزارعے اور ملازم ہوتے تھے اس لئے وہی کھانے، وہی دلہن اور وہی بینڈ باجے برداشت کرلیتے تھے اب براتیوں میں عام لوگ ہیں اور وہ ان نئی نئی شادیوں کے نتائج سے آگاہ ہیں اب انہیں ان شادیوں میں ذرہ برابر دلچسپی نہیں۔

تضادستان کی تاریخ دیکھیں7سال تک تو آئین کے کسی ڈرافٹ پر اتفاق ہی نہ ہوا۔1954میں کچھ کامیابی ملی مگر پھر1956ء کا آئین آیا، تضادستان کی شادی ہوئی ڈھول، ڈانس اور تالیاں بجیں۔ پیریٹی کا اصول طے ہوا کہ مشرقی پاکستان اپنی زیادہ آبادی کے باوجود مغربی پاکستان کے برابر نشستیں لے گا۔ ابھی شادی کا نشہ جاری تھا اور نئی شادی یعنی الیکشن کی تیاریاں جاری تھیں، نیا چیف الیکشن کمشنر مقرر ہوچکا تھا کہ سیاستدانوں کو راہ سے ہٹا کر1958ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے نئی شادی رچانے کا فیصلہ کر لیا، نئی شادی پر بہت خوشیاں منائی گئیں ،کہا جاتا ہے کہ شادی کی خوشی میں گلیاں صاف کروائی گئیں ،نالیوں میں سفید چونا ڈال دیا گیا، گوشت کی دکانوں پر جالیاں لگا دی گئیں، بنیادی جمہوریت کا نظام شروع کیا گیا ،پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام آگیا۔ یہ شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی براتی بہت جوش میں تھے۔ تضادستان میں زرعی انقلاب اور صنعتی انقلاب کا ڈھنڈورا پٹنا شروع ہوگیا، سب کچھ ہرا ہرا لگ رہا تھا مگر بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح کو جس طرح ہرایا گیا اور جو سیاست کی گئی اس نے بالآخر نحوست کے سائے لمبے کردئیے۔ ہنگامے، جیلیں اور تحریکیں شادی کا مزہ کرکرا کرنے لگیں ۔اسی دوران جنرل یحییٰ خان تیار ہوگئے اور اقتدار میں آتے ہی ایک اور شادی کا انتظام کرلیا ۔ پارلیمانی انتخابات ، غیر جانبدارانہ رویہ اور ڈسپلن کے نام پر کی گئی اس شادی کا المناک انجام1971ء کو ہوگیا ،ملک ٹوٹا تو مارشل لا،ء یحییٰ خان اور شادی سب ختم ہوگئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو سے ملک پھر سیاستدانوں کے ہاتھ میں آگیا۔ 1973 ء کا متفقہ آئین منظور ہواتضادستان کے اس نئے باضابطہ نکاح پر براتی حد سے زیادہ خوش تھے، یہ آئینی ، جمہوری، مرضی اور برابری کی شادی تھی۔ مگر تضادستان میں خوشیاں دائمی نہیں ہوتیں انکی عمر مختصر ہوتی ہے اس آئینی نکاح پر1977میں ڈاکہ پڑا اور تضادستان کی دلہن جنرل ضیاء الحق کے حرم کی زینت بن گئی، دائیں بازوکے براتی پر اُمید تھے کہ پہلی شادیاں غیر اسلامی تھیں گو وہ نکاح یافتہ تھیں مگر ان میں اسلامی روح مفقود تھی ،جنرل ضیاء الحق کو مردِ مومن ، مردِ حق قرار دیا گیا۔11سال پرانے براتی ظلم و ستم کا شکار رہےاور نئے براتی مردِ مومن ، مردِ حق کا ورد کرتے روز روز ولیمے کھاتے رہے۔ مگر پھر قضا نے فضاءکو پیغام دیا اور سب کچھ آگ بن کر ہوا میں بکھر گیا۔ ایک بار پھر سے جمہوری اور آئینی دور شروع ہوا محترمہ بے نظیر بھٹو نے نئی امید جگائی مگر’’ اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے‘‘کے مصداق18ماہ میں سازش تیار ہوئی اور حکومت کا بوریا بستر گول کردیاگیا ۔خیر یہ ہوئی کہ جمہوریت قائم رہی، اسمبلیاں پھرو جود میں آگئیں1990ء کا الیکشن چمک اور دھمک دونوں کا شکار تھا نواز شریف وزیر اعظم بنے محترمہ نے الیکشن کو مان کر اسمبلی میں بیٹھنا قبول کرلیا۔ نواز شریف کی پر واز غلام اسحاق خان کو پسند نہ آئی اور یوں ان کا بھی دھڑن تختہ ہوگیا، دوبارہ محترمہ آئیں مگر یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی1996ء میں انہیں پھر سے رخصت کرکے نواز شریف کو 1997میں لایا گیا یہ دور دوسال چلاتو جنرل مشرف چھڑی ہلاتے آگئے پھر نئی شادی کا غلغلہ ہوا، نظام بدلنے لگا بظاہر ایک اچھا بلدیاتی نظام بنا مگر چونکہ نیت سیاسی اور مفاداتی تھی عوامی فلاح کی نہ تھی، اس لئے ایوب خان کی بنیادی جمہوریت، ضیاء الحق کی اسلامی جمہوریت کی طرح جنرل پرویز مشرف کی روشن خیال جمہوریت بھی چل نہ سکی۔ دس سال نئی شادی کے سحر میں گزرے جنرل پر ویز مشرف گئے تو ساتھ ہی ان کی روشن خیالی، مقامی حکومتوں کا نظام اورق لیگ بھی رخصت ہوگئی۔اب پھر سے جمہوری شادیانے بجے مگر اس بار براتی مضمحل تھے، ان میں نونی اور پپلی تقسیم تھی، میمو گیٹ اور اسامہ بن لادن کی گرفتاری سمیت بہت کچھ ہوا پھر2013میں نواز شریف کی برات اُتری مگر سسرال سے بن نہ سکی اور یہ دور بھی جلد ہی رخصت ہوگیا ۔اب عمران خان سسرالیوں کے پسندیدہ دولہا بنے بڑے چاؤ سے لائے گئے ڈھول تاشے بھی بجے بیرونی براتی بھی پھول سجائے آئے مگر سسرالیوں کو دولہے کی ادائیں پسند نہ آئیں اور اب پھر سے نئی برات ،نیا دولہا ہے، براتی پھر پرانے ہیں۔ اس بار کھانے ہی بدل دیں وہی پرانا ذائقہ، پرانا دستر خوان اور پرانی رسوم ہضم نہیں ہونگی۔

نئی شادی جوش دیتی ہے، برات میں سجا سجایا دولہا اچھا بھی لگتا ہے لیکن ایک ہی سے بار بار شادی اور پھر ہر بار اس شادی کے نتائج پر مایوسی سے براتی تھک چکے ہیں اب28ویں شادی کا ڈھول بجاتو براتی رقص کی بجائے کہیں آہ وبکا نہ کرنے لگیں اور شادی غم کی کیفیت میں نڈھال ہوکرگر نہ پڑیں....!

تازہ ترین