• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سردیاں ہوں، فراغت ہو اور بندہ لاہور میں ہو اور کشمیری چائے میں کلچہ ڈبو کر نہ کھائے، یہ ممکن نہیں۔ آج صبح یہی کام کیا اور تب سے اب تک کمبل اوڑھے لیٹا ہوں، نشے کی سی کیفیت ہے، ایسے جیسے سبز چائے نہیں بلکہ بئیر پی لی ہو۔ سونے پہ سہاگہ صبح صبح ’مولانا‘ وجاہت مسعود کا کالم پڑھ لیا، کالم کیا تھا کلکتہ، دہلی اور لاہور کی مختصر تاریخ تھی اور اُس میں ایک فقرہ تو ایسا تھا کہ بے ساختہ دل سے داد نکلی حالانکہ سمجھ نہیں آیا تھا۔ بقول یوسفی، غالب واحد شاعر ہے جو سمجھ میں نہ آئے تو دونا مزا دیتا ہے۔ یہی حال وجاہت مسعودکا بھی ہے۔ جملہ کچھ یوں تھا: ”لاہور کی بندش قصباتی تھی مگر یہ بستی درت میں تہذیب کے چوتھے سپتک کو چھوتی تھی۔“ وجاہت صاحب کی تحریر پڑھنے کے بعد اصولاً بندے کو قلم توڑ دینا چاہیے لیکن پھر سوچا کہ اگر اسی طرح قلم توڑتا رہا تو لکھوں گا کیسے!

لاہور میں ایک عجیب سا نشہ ہے، گو کہ یہ شہر اب وہ نہیں رہا جو ماضی میں ہوا کرتا تھا، لیکن اپنے زوال کے باوجود اِس شہر کی شان اب بھی نرالی ہے۔ لاہور کی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں، تاہم اِس وقت میرے سامنے دو کتابیں ہیں، ایک پرانی اور دوسری نئی۔ پرانی کتاب انگریزی میں ہے جو سول اینڈ ملٹری گزٹ پریس نے 1924میں شائع کی، نام ہےOld lahore " Reminiscences of a Resident"by Colonel HR Goulding کتاب کیا ہے گویا اِک خزانہ ہے لاہور سے متعلق معلومات کا۔ لاہور کا پہلا چرچ مقبرہ انارکلی میں تھا کو پروٹسٹنٹ برادری کے لیے تھا مگر اُس سے بھی پہلے مسیحیوں کیلئے ایک عبادت گاہ کا پتا چلتا ہے جو دھیان سنگھ کی حویلی میں بنائی گئی تھی، اُس وقت کے گیریژن انجینئر کی رپورٹ کے مطابق اِس عارضی عبادت گاہ کی تعمیر پر67342 روپے خرچ کیے گئے تھے۔ اسی دھیان سنگھ کی حویلی میں یکم جنوری 1862کو گورنمنٹ کالج لاہور کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ پرانے وقتوں میں لاہور کے نئے شادی شدہ جوڑے ہنی مون منانے شالامار باغ اور شاہدرہ جایا کرتے تھے۔ شالامار باغ میں ایک ڈاک بنگلہ ہوا کرتا تھا جو زیادہ تر اِن نئے جوڑوں کیلئے مخصوص ہوا کرتا تھا۔ ایسا ہی ایک ڈاک بنگلہ شاہدرہ میں مقبرہ جہانگیر کے پاس بھی تھا جسکے ارد گرد وسیع و عریض باغات تھے اور پہلو میں دریائے راوی بہتا تھا۔ لاہور کی مشہور عمارت، رنگ محل، شاہجہان کے دور میں تعمیر ہوئی تھی اور ابتدا میں یہ کچہری کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ بعد ازاں یہاں رنگ محل اسکول بنا اور بالآخر فورمین کرسچین کالج (ایف سی کالج)کی صورت اختیار کر لی۔ لاہور کا ذکر مال روڈ کے بغیر نامکمل ہے، یہ کہنا مشکل ہے کہ کب انارکلی سے میاں میر تک کی سیدھی سڑک کو باضابطہ طور پر اَپر مال کہا جانے لگا مگر 1876ء سے پہلے کے نقشوں میں اسے لارنس روڈ کے نام سے دکھایا گیا ہے۔

لاہور سے متعلق دوسری کتاب جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے ”لاہور کی کھوج“ ہے جو سید فیضان عباس نقوی المعرف لاہور کے کھوجی نے لکھی ہے۔ یہ ہر لحاظ سے ایک منفرد کاوش ہے، میری نظر سے ایسی کتاب پہلے نہیں گزری جس میں لاہور کے معدوم ہوتے ایک سو تاریخی مقامات کے بارے میں معلومات کو یوں یکجا کر دیا گیا ہو۔ یہ کھوجی گزشتہ پندرہ برس سے لاہور کی تاریخ اور ورثے پر تحقیق کر رہا ہے، لاہور کی کوئی گلی اور کونا ایسا نہیں جو اِس کھوجی کی نظر میں نہ آیا ہو۔ مصنف نے ایسی تین سو عمارات کا کھوج لگایا ہے جو سو سال سے زیادہ پرانی ہیں مگر کتاب میں صرف سو کا ذکر ہے۔ اِن میں مساجد، مندر، گوردوارے، چرچ، مقبرے، باغات، کنوئیں، تالاب، حویلیاں، حجرے، قلعے، دھرم شالے، مزار، ڈاک بنگلے، چوبارے شامل ہیں۔ کچھ عمارتیں بالکل کھنڈر بن چکی ہیں اور اگر اِن کی حفاظت نہ کی گئی تو رہا سہا نشان بھی مِٹ جائے گا۔

مغل پورہ ریلوے اسٹیشن کے نزدیک ایک ڈاک بنگلے کے آثار باقی ہیں، یہ ڈاک بنگلہ اب بھوت بنگلے کا منظر پیش کر رہا ہے، بارشوں نے اِس کی حالت مزید تباہ کر دی ہے، اگر اسے محفوظ نہ کیا گیا تو یہ تاریخی ڈاک بنگلہ زمین میں دفن ہو جائے گا۔ لاہور کے مشہور زمانہ قلعہ گوجر سنگھ کے بڑے حصے پر پولیس لائن تعمیر ہو چکی ہے اور اب صرف قلعے کا داخلی دروازہ اور کہیں کچھ پرانی عمارت کے آثار رہ گئے ہیں۔ بہت ہی کم لوگ جانتے ہوں گے کہ رنجیت سنگھ کی پوتی شہزادی بمبا کی رہائش مال ٹاؤن اے بلاک کے مکان نمبر 104میں تھی۔ شہزادی نے آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کی، کچھ عرصہ لندن میں رہی، پھر لاہور آ گئی اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر سدرلینڈ سے شادی کر لی اور مسیحیت قبول کر لی۔ پہلے جیل روڈ پر اپنی رہائش رکھی اور پھر ماڈل ٹاؤن منتقل ہو گئی اور 1957میں اپنی وفات تک یہیں رہی۔ شہزادی کی وفات کے بعد یہاں ایک میوزیم کھولا گیا جو بعد میں نہ جانے کیوں بند ہو گیا، اب اِس حویلی نما گھر کے چار حصوں پر نئے بنگلے تعمیر ہو چکے ہیں۔ اگر آپ انارکلی جائیں تو ایک قدیم عمارت دیکھنے کو ملے گی جو دھنی رام روڈ پر واقع ہے، یہ دھرم شالہ انارکلی ہے، یہ سیٹھ دُگنی چند نے 1932 میں تعمیر کروائی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد یہ عمارت مسلم مہاجرین کو رہائش کیلئے دے دی گئی تھی، اُن کی اولادیں آج بھی یہاں مقیم ہیں۔ آج یہ عمارت انتہائی مخدوش ہو چکی ہے اور خطرناک حالت میں ہے۔ اسی طرح بنگلہ رتن چند میو اسپتال سے منسلک مسجد مائی لاڈو کے سامنے واقع ہے جس کا داخلی دروازہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں کھلتا ہے۔ یہ بنگلہ رنجیت سنگھ کے منشی دیوان رتن چند نے بنوایا تھا۔ بنگلے کی پیشانی پر اوم کا بڑا نشان بنا ہوا ہے، بیرونی دروازے پر اب بھی سنگ مرمر کی تختیوں پر رتن باغ انگریزی، ہندی اور گرمکھی میں لکھا ہے۔

یہ اِس کتاب سے چند دانے ہیں جو میں نے چنے ہیں، ورنہ ہر صفحے پر لاہور کی تاریخ پھیلی ہے، جسے پڑھ کر دکھ بھی ہوتا ہے اور خوشی بھی کہ ایسا شاندار شہر ہمارے پاس ہے کہ جسکے چپے چپے پر سینکڑوں سال پرانی عمارتیں ہیں، دنیا کے چند شہر ایسے ہیں جو ایسی جاہ و حشمت رکھتے ہیں۔ لاہور سے محبت کرنے والوں کو یہ کتاب لازماً خریدنی چاہیے، جبکہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اُن عمارتوں اور تاریخی مقامات کی حفاظت کیلئے خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دے ورنہ اگلے دو چار برسوں میں لاہور کی یہ بچی کھچی تاریخ بھی باقی نہیں رہے گی، اور اگر یہ بھی مشکل کام ہے تو کم از کم اِس کتاب کی کاپیاں پنجاب کے تمام اسکولوں اور کالجوں میں بھیجے تاکہ نئی نسل کو علم ہو سکے کہ لاہور جو اِک شہر تھا اب نہیں رہا۔

تازہ ترین