• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات کوئی زیادہ پرانی نہیں۔ ایک سابق صدر پر غداری کا الزام لگا۔ عدالتوں نے انکی غیر موجودگی میں انہیں سزائے موت دی۔ کچھ عدالتوں نے اس سزا کو کالعدم بھی قرار دیا۔ ملزم نے محض ایک دفعہ عدالت کا سامنا کیا، باقی عرصہ، وہ 2016 تا 2023 باہر ہی رہے۔ 5 فروری 2023 کو انُکا دبئی کے ایک اسپتال میں طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا، اور کراچی میں سرکاری اعزازات کے ساتھ انکی تدفین ہوئی! واضح رہے کہ نواز شریف نے بطورِ وزیراعظم 26 جون 2013 کو انکوائری کیلئے وزارتِ داخلہ کو خط لکھا، ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم تشکیل پائی، اور 16 نومبر 2013 کو رپورٹ جمع ہوئی۔ پھر وزارتِ قانون سے مشاورت کے بعد 13 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کے خلاف شکایت کا اندراج ہوا۔ پس سنگین ترین جرم متعدد مواقع پر آئین معطل کرنا قرار پایا گویا آرٹیکل 6 کے اطلاق پر زور تھا... جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم اور جسٹس طاہرہ صفدر سمیت سات ججز نے مقدمہ سنا۔ اس دوران ججز تبدیل بھی ہوئے تاہم17 دسمبر 2019 کو پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں قائم 3 رکنی خصوصی عدالت نےفیصلہ سناتے ہوئے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزائے موت دی تھی۔ یاد نگاری ختم شد لیکن نادم ندیم کا ایک شعر: ’’سوال یہ ہے ہوا آئی کس اشارے پر... چراغ کس کے بجھے یہ سوال تھوڑی ہے‘‘ یاد نگاری میں اس بات کا تذکرہ دانستہ نہیں کیا کہ ججز اور مذکورہ صدر کو ذہنی مریض کیوں کہا گیا۔ تاحال یہ سلسلہ جاری ہے جسکی تفصیلات میں جانے کی بھی سر دست ضرورت نہیں۔ اتنا ضرور سوچئے کہ پھر بھی میاں نواز شریف 2024 وزیراعظم کیسے بنتے؟... لیکن ایک اہم بات یہ کہ پی ٹی آئی کے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کو جسٹس طارق جہانگیری کو عدالت کا عہدے سے ہٹانا اچھا نہیں لگا۔ فرماتے ہیں’’ ایسے حکم نامے سے عدالتی آزادی مزید سلب ہوتی ہے، اگر جج اپنی ہی عدالت میں اپنا تحفظ و دفاع کرنے سے قاصر ہو تو آئین کے تحفظ اور دفاع کا آئینی حلف بے معنی ہو جاتا ہے۔‘‘ وہ بیرسٹر ہیں راقم ان کی دلیل کیسے رد کرسکتا ہے لیکن نہایت ادب سے التماس یہ ہے کہ جعلی ڈگری پر قانون ساز گھر جا سکتا ہے تو جج کیوں نہیں؟ عالمی سطح پر اپنی عدلیہ کی رینکنگ لکھنے کو اب من نہیں چاہتا۔ جعلی ڈگری والے بھی کیا کمال ہوتے ہیں بیوی میاں کو نہیں بتاتی، میاں بیوی کو نہیں بتاتا، بچے والدین کو نہیں بتاتے حتیٰ کہ اسمبلی پہنچنے کیلئے ٹکٹ کا خواہاں اپنے لیڈر کو نہیں بتاتا کہ جب بی اے ضروری تھا تب بی اے اور جب بی اے ضروری نہیں رہا ٹکٹ ہولڈرز دوبارہ ایف اے ہو گئے۔ واہ رے الیکشن کمیشن، واہ رے سیاست۔ اب خود ہی سوچنا پڑے گا کہ جعلی ڈگری کا بھلا کوئی جج اپنی عدالت کو کیوں بتائے گا۔ جج کی مہربانی نہیں کہ اس نے کم از کم اپنی عدالت کو تو جعلی ہونے سے بچا لیا۔ گر اس طرح سوچیں تو چیئرمین نما بیرسٹر کا فرمان اپنی جگہ درست ہے! کالم ہو کہ محفل بات نکلے تو دور تلک جاتی ہے۔ 2019 میں اسٹین فورڈ یونیورسٹی (امریکہ) اور موناش یونیورسٹی (آسٹریلیا) کے کیس جب سامنے آئے تو انتظامیہ نے معذرت ہی نہیں کی نظام بھی درست کرلیا۔ سن 2017 میں یونیورسٹی آف سنٹرل لنکاشائر (برطانیہ) نے بھی جی ڈگری پر معذرت کے بعد قبلہ درست کرلیا۔ تینوں یونیورسٹیوں کو چور پڑے انکا اپنا قصور قطعی نہ تھا۔ 2015 میں دنیا کی ایک بڑی پاکستانی ’’ڈگری مِل‘‘ پکڑی گئی مگر پردہ پوشی رکھی گئی اسی طرح ایش ووڈ یونیورسٹی (2006 تا 2008) پکڑی جو ورسٹی تھی ہی نہیں محض ڈگری مِل تھی۔ اس کے بعد سے اداروں اور عدالتوں نے آن لائن تصدیق کو تقویت بخشی۔ بدقسمتی سے ہمارے کچھ یونیورسٹیوں کے سربراہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار اسلم رئیسانی کا ’’فیصلہ‘‘مانتے ہیں کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو کہ نقلی۔ پروفیسر کی ترقی کیلئے لائن مین کے تجربے بھی مان لیے گئے۔ کیوں نہ مانیں؟ کچھ یونیورسٹیوں کے سربراہ بھی فیک پبلیکیشنز یا ٹمپرنگ کی بنیاد پر بنے اور پہنچے ہوں، تو وہ بھی’’رئیسانیہ فیصلہ‘‘ہی مقدم جانیں گے نا ! کینیا میں میں 2016 تا 2021 ڈگریوں کی گڑ بڑ مجسٹریٹ صاحبان سے بڑے ججز تک تھی سو اس پیچیدگی کو کنٹرول کرنے میں بہت تدبر بروئے کار لایا گیا۔ 2015 میں جب دہلی کا ایک کا منسٹر پکڑا گیا تو لمبی جانچ نے جنم لیا اور سینکڑوں وکلاء کیس سامنے آگئے۔ بھلے ہی یہ کیس کم ہوتے ہیں اور ان پر مٹی بھی ڈالی جاتی ہے لیکن یونہی ہر کہیں مٹی ڈلی تو انصاف کہاں ملے گا؟ کوئی جعلی ڈگری والا جب کسی عہدے پر براجمان ہوتا ہے یا کوئی تجربوں اور مقالوں کے جعلی سرٹیفکیٹس رکھتا ہے تو وہ انکی مدد سے جو بھی پوزیشن انجوائے کرے وہ بحیثیت قبضہ گروپ کرتا ہے یا دھوکے باز کے طور سے کسی کا حق مارتا ہے۔ زمانہ طالب علمی میں ایک ٹرین سفر میں ہم تاش کھیل رہے تھے، ایک دوست بار بار کچھ کر کے جیت جائے۔ شور مچ گیا۔پروفیسر کی آواز آئی کہ ریحان کی چیٹنگ کسی نے پکڑی؟ ہم نے کہا، نہیں ۔ اس پر پروفیسر کا جواب تھا: پھر یہ چیٹنگ نہیں فنکاری ہے۔ وہ انیس صد بیانوے تریانوے کی فنکاریاں تو بہت معصوم تھیں لیکن یہ 2018 اور 2024 کی سیاسی فنکاریاں کچھ زیادہ ہی ’’معصوم‘‘ ہیں۔ اگر تو معصومیت کو سبجیکٹ کے طور سے لیں پھر بیرسٹر گوہر اگر زیادہ صحیح نہیں تو اپنے فرمان میں زیادہ غلط بھی نہیں گویا مقامِ اعراف ہی ہوا۔ اس مقام پر میاں ووٹ کو عزت دے رہے ہیں اور بانی پی ٹی آئی کی تبدیلی بھی معصوم سیاسیات۔فنکاریاں، ڈگریاں اور معصومیت کے گڈ مڈ سے سوشلزم و کمیونزم اب کیپٹلزم کے پیرہن میں ہیں اور آمریت و جمہوریت’’حُسن‘‘ کے آمیزے۔کھلی بددیانتی اور سیاسی جوڑ توڑسی سیاسی فنکاری چہرے بدلنے اور راتوں رات فیصلے تبدیل ہونے کی معصوم سیاست ہم رعایا قبول کر چکے۔اے ڈگری یافتہ اشرافیہ تجھے سلام!

تازہ ترین