• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلزپارٹی ریاستی سطح پر اپنی تاریخ کے المناک تسلسل سے باہر نہیں نکل سکی۔ سندھ میں اس کے منتخب او ر عوامی اقتدار کو آٹھ برس سے زائد ہوگئے ہیں۔ ان آٹھ برسوں میں پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے خصوصاً پنجاب میں، سندھ میں ’’گورننس‘‘ کے سوال کو اپنےضمیر کے قیدی کی حیثیت دے دی ہے۔ ایسا لگتا ہے پنجاب کے میڈیا کو آخرت میں کسی اور سوال کا جواب نہیں دینا، وہ صرف یہ بتانے کا پابند ہوگا ، ’’سندھ میں ’’گورننس‘‘ کے معاملے پر تم نے کلمہ ٔ حق کہنے میں کوتاہی تو نہیں کی؟‘‘ اور پنجاب کے الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا میں ’’کلمہ ٔ حق‘‘ کہنے کا یہ جہاد بڑی ہی شاندار کہانی ترتیب دے رہا ہے۔ یہاں تک کہ اب اس صوبے میں ایسے ’’مجاہد‘‘ کی تلاش کرلی جاتی ہے جو پورے کراچی میں صرف ایک ’’گٹر‘‘ کے کھلا رہ جانے پر بھی سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے ساتھ ساتھ خود اپنا تن من دھن قربان کرنے پر آمادہ تھا اس ’گٹر‘‘ کا منہ کھلا نہیں رہناچاہئے؟ چونکہ لاہور میں تو قیام پاکستان سے لے کر آج تک کسی ’’گٹر‘‘ میں کبھی کسی خرابی کا وجود ہی نہیں رہا، پنجاب کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو شہر کراچی میں ’’شاپنگ بیگز‘‘ کے ڈھیروں نے یہاں تک پریشان کردیا ہے کہ ملک کی سالمیت، ان شاپر بیگوں میں پوشیدہ ہے۔ حیرت کا شاہی مینارہ اس وقت اپنی بلندیوں کی انتہائوں کو چھو لیتا ہے جب کراچی میں بارش کا برسنا ہی، سندھ حکومت کی ’’نعوذ باللہ‘‘ ’’بیڈگورننس‘‘ کا نتیجہ ثابت کرنے میں دن رات ایک کردیا جاتا ہے جبکہ صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں، 2016 سمیت ، مجال ہے بارشوں کے دوران میں یا بعد کہیں پانی کھڑا دکھائی دے یا لوگ ’’تڑاپر، تڑاپر‘‘ا پنی قسمتوں پر روتے دکھائی دیں۔ آخر سندھ اس حد تک ٹارگٹ کیوں کیا جاتا ہے؟ کراچی کا بحران ضرب عضب کے باوجود اپنے خونیں پہلو اجاگر کرتا رہتا ہے۔ شہر کے اندر اصل حقائق کیا ہیں؟ رینجرز کے آپریشنز نے وہاں زیرزمین کیسے جذبات کو جنم دیاہے۔ اس باب پر ایسے ہی گفتگو نہیں کی جاسکتی نہ پنجاب میں بیٹھا دانشو ر اس حوالے سے کوئی مصدقہ رائے دے سکتا ہے۔ ہاں، کسی کے پاس تیسری نظر ہو وہ اس سلسلے میں ایم کیو ایم کے بیانات اور کراچی میں مقیم دانشوروں کے افکار و آرا سے حقائق کی وہ تصویر دیکھ سکتا ہے جس میں حالات کا نہایت ہی تشویشناک چہرہ متشکل ہوا ہے؟
ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا’’میں نے انتخابات جیتنے کے لئے کبھی قسمت پر انحصار نہیں کیا، میں ملک کے کونے کونے میں گیا۔ میں بہ نفس نفیس خاکروبوں کی جھونپڑیوں اور کچی آبادیوں کے رہائشیوں تک پہنچا، میں نے ہر جگہ اپنے قدموں کے نشان چھوڑے، میری آواز ہرگھر تک پہنچی، میں تین مرتبہ ایک ہی گائوں میں گیا..... یہ وہ گائوں تھا جو صدیوں کی اسیری کے بعداپنے پیر کے اثر و رسوخ سے آزاد ہو رہا تھا۔ لوگوں کے دلوں میں اتنی محبت اور عقیدت ایک گنہگار سیاستدان کے لئے نہیں ہوسکتی، یہ سب ایک ایسے شخص کے لئے تھا جسے اس کےناکردہ گناہوں کی پاداش میں سزائے موت سنائی گئی۔ مجھے وہ لمحہ یاد ہے کہ جب ہماری جیپ گائوں سے روانہ ہوئی، میرے کانوں میں جئے بھٹو کے نعرے گونجتے رہے۔ یہاں تک کہ ہم ان نعروں کی دسترس سے دور نکل آئے۔ شاید یہ سچ تھاکہ میں اس دھرتی کے لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اتر چکا تھا اور اس طرح کا منظر دوسروں کے لئے ایک انوکھی چیز تھی۔ ہوسکتا ہے دوسروں کے لئے یہ ایک فرسودہ فقرہ ہو جب میں یہ کہتا ہوں کہ ’’میں ہر گھر اور بارش میں ٹپکنے والی چھت کے نیچے بولا جانے والا لفظ ہوں، میرا رشتہ اس دھرتی کے پسینے اور دکھ سے ہے، لوگوں کے ساتھ میرے ابدی تعلق کو تو میں کبھی نہیں توڑ سکتا۔‘‘ 
اور پاکستان کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کی ان مٹ جڑت، آپ یاد کریں جب بانی چیئرمین نے اپنے وطن کے لئے ایک فیصلہ کن بیانیہ جاری کیا، یہ تھا: ’’قائداعظم کی وفات کے ایک دن بعد ہی بھارتی مسلح افواج حیدرآباد میں داخل ہو چکی تھیں، اس سے پہلے بھارت جوناگڑھ، منگرولی اور مناور پر بھی ناجائز طور پر قبضہ کر چکا تھا۔ ریکارڈ افسوسناک حد تک برا اور ٹوٹے ہوئے وعدوں سے بھرا پڑاہے۔ یہ عظیم پیمانوں پر چال بازیوں اور شیطانی دھوکوں سے لبریز ہے۔ بھارت کی ’’مدر انڈیا‘‘ کی چیرپھاڑ والی پوزیشن ابھی تک نہیں بدلی۔ کئی برسوں کی کوششوں کے بعد بھارت نے پاکستان کو معذور اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوششوں میں کافی حد تک کامیابی حاصل کرلی ہے۔ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے بھارت مستقل مزاجی اور اٹل مقصد کے لئے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے در پے رہاہے۔ بھارت نے پاکستان کو اس کے اثاثے لوٹانے سے انکار کردیا تھا یہاں تک کہ گاندھی کو مرن برت رکھنا پڑا۔ جب پاکستان نے اپنی کرنسی کی قیمت کم کرنے کا خودمختارانہ فیصلہ کیا تو بھارت نے اچانک کسی اطلاع کے بغیر پاکستانی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے تمام تجارتی تعلقات ختم کردیئے۔ اگر بھارت کی طرف سے ہونےوالی مسلسل جارحیت کی خوفناک کہانیوں کو ایک طرف بھی رکھ دیں تو پھر حیدر آباد نے پاکستان کو جو فنڈز منتقل کرنے تھے بھارت نے ان کی منتقلی رکوانے میں کسی مروت کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی انڈیا آفس لندن کی کتابوں کی تقسیم میں مروت کا اظہارکیا۔ ’’انڈین بین ٹریٹی‘‘ پر بھی ایک قطرہ پانی پر بھارت نے کسی قسم کی مروت کا اظہار نہیں کیا تھا۔‘‘
پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کا عوا م سے رشتہ اور وطن سے محبت کی دو مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ یہ دو مثالیں نہیں ہیں ذوالفقار علی بھٹو کا ہر سانس ان دو جذبوں کی بنت سے تخلیق ہوتا تھا۔ یہی بھٹوز اور پیپلزپارٹی کا گناہ عظیم ہے جسے معاف نہیں کیا جارہا۔ پھانسی کے تختے سے لے کر دار کشی کی ذہنی بدیوں تک یہ سلسلے ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔ عوام اور وطن کا پیپلزپارٹی کی قیادت سے تعلق ختم یا مشکوک کرنے کی بدلحاظی کی آخری حد تک جاتی ہوئی مہم جاری ہے!
چنانچہ بی بی کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نشانے پر رہے۔ ایسے لوگ پارٹی تک کے اندر پیدا ہوگئے یا کرا دیئے گئے جنہوں نے سابق صدر کو ’’سیاسی ملبہ‘‘ قرار دینے کے سیاسی اندھے پن یا سازشی کارستانیوں کا مظاہرہ کیا۔ آصف زرداری کی سیاسی بصیرت اور بے گناہی کو پورے عزم کے ساتھ سامنے لانےکی بجائے بلاول بھٹو زرداری اور ان کے مابین ’’خلیج‘‘ کے فسانے تراشے گئے، پارٹی کے اندر ایسے لوگ پھر آن موجود کے جنہوں نے ان ’’افسانہ نگاروں‘‘ کی تھیوریوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا شروع کردیا جیسا کہ گزشتہ ’’چیلنج‘‘ میں عرض کیا گیا تھا۔ اب فریال تالپور سیاسی کردارکشی کے ایسے تازہ ترین منصوبوں کی تازہ ترین یرغمالی ہیں۔ کہانیاں تراشی جاتی ہیں، خبریں بنائی جاتی ہیں، واقعات کے پہاڑ کھڑے کئے جاتے ہیں، یہاں سے فرصت ملنے پر آصفہ کو بلاول کے مقابلے میں لیڈرشپ کے لئے ’’بہتر چوائس‘‘ کا نظریہ پیش کیا جاتا ہے، کیسا عجب لطیفہ ہے۔ کراچی میں ’’گٹر پر ڈھکن‘‘ پاکستان کی بقا کا سوال بن جاتا ہے۔ لاہور میں 400سے زائد بچوں کا اغوا اور ان کے اعضا کی قطع و برید جیسے ناقابل بیان المیے پر اسکرینوں اور صفحات کوئی اجتماعی تھرتھلی اور آہ و بکا کا ایک منظر بھی نظر نہیں آتا۔ صرف ’’تذکرے‘‘ پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ کہنا یہ ہے ، پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت اپنے کردار اور نصب العین ’’عوامی حکمرانی‘‘ جمہوریت کے پلیٹ فارم پر یکسو ہے اس کے یہاں اس تناظر میں کوئی کنفیوژن نہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کا سیاسی مستقبل یا ان کا قومی رہنما کی حیثیت کے مقام و مرتبہ پروسیس میں ہے، پاکستانی عوام کے درمیان وہ ممکنہ بہترین چوائس ہیں۔ آصف علی زرداری، فریال تالپور، بلاول کے نظریاتی سرپرست اور ذاتی طور پر اس کے ہم رکاب ہیں۔ وہ پارٹی کی اندرونی تنظیم ہو یا سندھ میں گورننس، بلاول ان مسائل سے نبردآزما ہی نہیں جرأت مندانہ پیش قدمی سے کام لے رہے ہیں۔ پاکستانی عوام کم از کم اب اپنی سیاسی قیادتوں کے بارے میں ’’بیریوں‘‘ کو پہچاننے کی بھرپور کوشش کریں۔ کالم کی گنجائش ختم ہوئی، جو رہ گیا وہ پھر کبھی!
تازہ ترین