کشمیریوں کی آزادی کی تحریک جولائی 1931ء سے جاری ہے، جب ڈوگرا مہاراجہ کشمیر کا حکمران تھا اور 13 جولائی 1931ء کو 21 کشمیریوں کو سری نگر جیل کے باہر ڈوگرا مہاراجہ کے ظالم فوجیوں نے شہید کردیا تھا۔ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب کشمیری عبدالقدیر کے مقدمہ کو سننے کو جمع ہوئے تھے۔ اس سے پہلے جن کو ڈوگرا ڈی آئی جی چوہدری رام چند نے امام منشی محمد اسحٰق کو جموں کے میونسپل پارک میں جمعہ کا خطبہ دینے سے روک دیا تھا جس کی وجہ سے کشمیر بھر میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جمعہ کے خطبہ کی بندش پر ہی موقوف نہیں ڈوگرا مسلم دشمنی پر اس قدر زیادہ اترا ہوا تھا کہ اس نے قرآن مجید کی بے حرمتی تک کر ڈالی، جس کی وجہ سے پورا کشمیر سراپہ احتجاج بن گیا۔ سری نگر میں کشمیری مسلمان جامع مسجد میں جمع ہوئے اور ان واقعات کے ذمہ داران کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ عبدالقدیر اس قدر بہادر شخص تھا کہ اس نے مہاراجہ کے محل کی طرف انگلی کا اشارہ کرکے کہا کہ اِس محل کی اینٹ سے اینٹ بجا دو اور ہر اینٹ کو گرا دو۔ اُس کو غداری کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ 12 جولائی 1931ء کو پرتشدد مظاہرے ہوئے جبکہ عبدالقدیر سینٹرل جیل سری نگر منتقل کردیئے گئے تھے۔ جیل میں ہی اُن کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ 13 جولائی 1931ء عبدالقدیر کے مقدمہ کے موقع پر ہزاروں کشمیری مسلمان سینٹرل جیل کے باہر جمع ہوئے۔ مجمع ڈوگرا راج اور مسلمانوں پر ظلم کے خلاف نعرے لگا رہا تھا کہ ظہر کا وقت ہوگیا۔ ایک نوجوان نے اذان کیا دی کہ ڈوگرا ظالم پولیس و فوج آپے سے باہر ہوگئی اور انہوں نے اذان دینے والے نوجوان کو گولی مار دی۔ دوسرا شخص اذان دینے کے لئے اٹھا اس کو بھی شہید کردیا گیا۔ اس طرح 21 افراد کو اذان دینے کے جرم میں شہید کیا گیا مگر مسلمانوں نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر اذان کے عمل کو مکمل کیا۔ پھر کیا تھا کہ لوگ سڑکوں اور گلیوں میں پھیل گئے اور ڈوگرا راج کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔ مکمل ہڑتال تھی، ریاستی نظام معطل، سڑکیں سنسان تھیں۔ ایک ہفتہ تک سوگ منایا گیا۔ اس وقت برطانیہ حکمراں تھا وہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا دعویٰ بھی کرتے تھے مگر 1931ء میں جب یہ واقعہ ہوا تو خاموش رہے اور شاید جلیانوالہ باغ کا سانحہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ جہاں ڈوگرا راجہ اِس قتل عام کا ذمہ دار تھا وہاں برطانیہ کو بھی موردِالزام ٹھہرایا جائے گا۔ وہ روزے کا دن تھا اور آج جب 83 برس بیت گئے ہیں کشمیریوں کی شہادت کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ان کی بہادری اور دلیری کو خراج تحسین و عقیدت پیش کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اسلام سے اپنی محبت اور قوتِ ایمانی کے جذبے سے سرشاری کا جو مظاہرہ کیا وہ رہتی دُنیا تک سب کے لئے مشعل راہ رہے گا۔ اِس ظالمانہ اور بہیمانہ قتل و غارت گری کی وجہ سے کشمیری اِس نتیجہ پر پہنچے کہ ان کو ایک سیاسی قیادت کی ضرورت ہے۔ چنانچہ انہوں نے مسلم کانفرنس کے نام سے ایک سیاسی پارٹی کو جنم دیا تاکہ کشمیری اپنے حقوق کا تحفظ کرسکیں اور آزادی کی جنگ لڑ سکیں۔ 1934ء میں ہونے والے انتخابات میں مسلم کانفرنس نے 21 نشستوں میں سے 10نشستیں حاصل کرکے اپنی سیاسی موجودگی کا اظہار کیا اور دو سال بعد ہی انہوں نے 21 نشستوں میں سے 19 سیٹیں حاصل کرکے اپنی اکثریت اور ارادہ واضح کردیا اور اپنی سیاست کا لوہا منوایا۔ اِس کامیابی سے کانگریس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور کشمیریوں میں ’’تقسیم کرکے حکمرانی کرو‘‘ کے اصول کو اپنایا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد ڈوگرا راج کی جگہ بھارتی حکومت نے لے لی۔
19 جولائی 1947ء کو مسلم کانفرنس نے ایک قرارداد کے ذریعے کشمیر کو پاکستان میں شامل کردیا۔ اس میں جہاں اسلامی اخوت کا جذبہ کارفرما تھا وہاں پاکستان سے جغرافیائی قربت کی موجودگی کا احساس بھی تھا۔ 77 فیصد کشمیریوں کا مذہب اور ثقافت پاکستان سے ملتی تھی۔ 66 سال سے کشمیری اپنی اِس قرارداد کو عملی جامہ پہنانے کی جدوجہد کررہے ہیں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اُن کو حاصل حقوق سے آج بھی محروم ہیں۔ بھارت استصواب رائے کے وعدہ سے پھر گیا اور ظلم و ستم کی انتہا کررکھی ہے۔ اس وقت دُنیا بھر میں ان علاقوں میں جہاں جنگ آزادی چل رہی ہے اُن کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ جموں و کشمیر میں سب سے زیادہ ملٹری موجود ہے جس کی تعداد 7 لاکھ کے قریب ہے اور جو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لئے بلاامتیاز قتل و غارت گری میں لگی ہوئی ہے۔ کشمیریوں کو اچانک غائب کردیا جاتا ہے، خواتین کی بے حرمتی کے واقعات عام ہیں اور نوجوانوں کو قتل کرنا اُن کا روزمرہ کا معمول ہے۔
اگر 1989ء سے 2013ء تک قتل و غارتگری کی تفصیل کا جائزہ لیں تو وہ اس طرح ہے، 1989ء سے 2013ء تک بھارتی فوج نے 93984 افراد کو قتل کردیا جس میں سے 7 ہزار سے زائد کشمیری پولیس کی حراست میں مارے گئے۔ کوئی سوا لاکھ کے قریب کشمیری گرفتار کئے گئے، 23 ہزار کے قریب خواتین بیوہ ہوئیں، ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم ہوئے۔ تقریباً 10 ہزار سے زیادہ خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور مکانات، دکانوں اور کھیتوں کھلیانوں کو تباہ کئے جانے کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ جنوری 2014ء سے 15 جون 2014ء تک بھارتی درندوں نے 54 افراد قتل کردیئے ہیں۔ 9 افراد حراست میں مارے گئے۔ ساڑھے تین ہزار کشمیری گرفتار کئے گئے، 2عورتیں بیوہ اور34عورتوں کی بےحرمتی کی گئی۔ 3بچے یتیم ہوئے اور 8دکانوں اور مکانوں کو جلا دیا گیا۔ یہ ایسی صورتِ حال ہے جس پر عالمی ضمیر جاگنا نہیں چاہتا ہے اور افیم کھا کر سو گیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے بھی اُن کو پذیرائی کم مل رہی ہے۔ حالیہ دورئہ بھارت میں پاکستان کے وزیراعظم حریت کانفرنس کے وفد تک سے نہیں ملے۔ جس سے پاکستان میں سوال اٹھے مگر کشمیری اپنے دھن کے پکے حریت کے متوالے اور ظلم و ستم کے خلاف صفِ آرا ہیں۔ ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کو اپنی حمایت و تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔ بھارت میں نریندر مودی کی حکومت کے آنے کے بعد بھارتی روئیے میں اور سختی آگئی ہے، وہ ہندو توا کے فلسفہ پر عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی قرارداد کی رو سے جو کمیشن دہلی اور سرحد کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لیتا تھا اُس کو بھارت جانے کا حکم دے دیا ہے۔ اس طرح اُن کے نزدیک کشمیر کا مسئلہ ختم ہوگیا۔ نریندر مودی نے حال ہی میں کشمیر کا دورہ کیا جہاں مکمل ہڑتال نے اُن کا استقبال کیا۔ وہ کئی ترقیاتی کاموں کا اعلان کرکے آئے ہیں مگر ترقیاتی کاموں اور آزادی میں بہت فرق ہے۔ اِس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ کشمیر میں ظلم و ستم اور بڑھے گا۔ پاکستان کے عوام کو اُن کی حمایت میں کمر کس لینا چاہئے کیونکہ نریندر مودی اپنی سی کارروائیاں ضرور کرے گا۔