وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ سانحہ کوئٹہ کی ابتدائی تفتیش میں چند شواہد ملے ہیں ، کوئٹہ سانحہ ایک روٹین کا دہشت گرد حملہ نہیں تھا، وزیراعظم کو جو بریفنگ دی گئی ہے اس میں شواہد ملنے کا بتایا گیا ہے۔
چوہدری نثار نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ قومی اسمبلی میں کل ہونے والی تقاریرپر افسوس ہوا، تقریر کرنے والوں کی کاش آواز ’را‘ اور افغان خفیہ ایجنسی کے خلاف بھی اٹھتی،کل جو یہاں سے آواز گئی وہ کسی غیر ملک کی پارلیمنٹ سے آتی تو وہ بھی قابل مذمت تھی، خواہ کوئی اپوزیشن میں بیٹھا ہے یا حکومت میں، ہر ایک اپنے عمل کا ذمہ دار ہے، ایسے الفاظ استعمال ہوئے جو ہمارے انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے لیے تضحیک آمیز ہے، ہماری ایجنسیوں کو کمزور کرنے کا عمل تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہاں بیٹھا ایک ایک رکن سیکیورٹی ایجنسیز کی قربانیوں، کاوشوں اور کردار کو قدر کی نگاہ سےدیکھتا ہے، کوئی بھی ہو حکومت میں ہو یا حکومت سے باہر، میں ایسے کسی بھی بیان کی مذمت کرتاہوں، ایسے بیان کسی صورت قابل قبول نہیں۔
وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کا ایوان سے خطاب میں کہنا تھا کہ پہلے ملک میں روز پانچ چھ حملے ہوتے تھے، جی ایچ کیو پر حملہ 36 گھنٹے جاری رہا، ایئرفورس اور بحریہ کے اڈوں پر حملے ہوئے،دارالحکومت اسلام آباد تک محفوظ نہ تھا، آج تو ایسا نہیں ہے، امن و امان کی صورتِ حال میں بہتری سول اور ملٹری اتحاد کے باعث ممکن ہوئی۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ آج دھماکا ہو تو خبر بنتی ہے، پہلے دھماکا نہ ہو تو خبر بنتی تھی،یہ تبدیلی سول ملٹری ہم آہنگی سے آئی، ہمارے خلاف دشمن مقامی اور اندرونی نہیں غیر ملکی بھی ہے، مذاکرات کا فیصلہ ہوا تو بڑے بڑے پروپیگنڈے ہوئے کہ حکومت کچھ اور آرمی کچھ اور چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملٹری نے بھی مذاکرات کو مکمل سپورٹ کیا، جنرل کیانی نے کہاکہ اس سے بہتر کوئی آپشن نہیں ہے، سیاسی اختلافات اپنی جگہ ہوں گے، پیپلزپارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم کو شدید اختلافات تھے، لیکن ان سمیت سب نے اتفاق کیا، ہم نے دل و جان سے مذاکرات کیے، اس میں ملٹری مکمل طورپر ہمارے ساتھ تھی۔
چوہدری نثار نے کہا کہ وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں آج کئی اہم مسائل زیربحث نہیں آئے،پیریا منگل کو ایک اوراجلاس بلایا جائے گا جس میں تمام وزرائے اعلیٰ کوبلایا جائے گا،ڈھائی سالوں میں کارروائیوں سے پاکستان کی سیکیورٹی صورت حال بہترہوئی ہے،ملٹری کورٹس پرآصف زرداری نے حمایت کی تواس کی تعریف کی۔
وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ پہلی دفعہ ہوا کہ ان لوگوں نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی اور یہ پہاڑوں سے نیچے آئے، بات چیت کے دوران ہی ہمیں اندازہ ہوگیا کہ ہم سے دہرا کھیل کھیلا جارہا ہے، ایک طرف وہ بات چیت کررہے تھے دوسری طرف دباؤ ڈال رہے تھے،اسی دوران وزیر اعظم نے خاموشی سے سول ملٹری بات چیت شروع کردی،تین مہینے بات چیت جاری رہی، لیکن کراچی ایئر پورٹ پر حملے کے بعد وزیراعظم نے میٹنگ میں فیصلہ کیا کہ بہت ہوگیا، اب ہمیں دوسرا آپشن استعمال کرنا ہے، مئی میں فیصلہ ہوا اور 7جون کو وزیراعظم کی زیر صدارت یہ فیصلہ ہوا کہ 14 جون کو آپریشن شروع ہو۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس بات پر سب نے اتفاق کیا کہ ہم ملٹری آپریشن کی مخالفت نہیں کریں گے، ملٹری آپریشن بھی تمام پارٹیوں کے اتفاق سے ہوا، کوئی ملٹری آپریشن کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک اسے مکمل عوامی اور حکومتی سپورٹ نہ ہو، سب کی ملی جلی کاوشوں سے پاکستان کی سکیورٹی حالت میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے، ہم نے مل جل کر کوشش کرنی ہے کہ دہشت گردی کی شرح صفر پر آئے، فوج کا تو بہت بڑا کردار ہے لیکن انٹیلی جنس ایجنسیز اور پولیس کا بھی کردار ہے، ناکوں پر کھڑے اہلکار تربیت یافتہ نہیں لیکن بد ترین دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔
چوہدری نثار مزید کہتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان میں سب کا رول ہے، فیڈرل گورنمنٹ کی سات وزارتیں اور چاروں صوبائی حکومتوں کا کردار ہے، میں نے کبھی کسی صوبائی حکومت پر تنقید نہیں کی، اجلاسوں میں کمزوری کی نشاندہی ضرور کی لیکن کبھی پبلک اسٹیٹمنٹ نہیں دیا، کوئٹہ واقعہ بڑا اندوہناک ہے، لیکن قوم نے وہ دن بھی دیکھے جب ہر دوسرے دن ایسے واقعات ہوتے تھے، یہ بد ترین لوگ جو ہمارے ملک میں آگ اور خون کی ہولی کھیل رہے ہیں یہ ہمارے درمیان اختلاف نہیں ڈال سکیں گے، ہم زیادہ پرعزم ہوکر ان کا مقابلہ کریں گے اور قلع قمع کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایک مشکل وقت میں جب ملک کے سپاہی اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ملک کو تحفظ دے رہے ہیں، یہ ایک روٹین دہشت گرد حملہ نہیں تھا، یہ بڑا منظم اور سائنسی طور پر قابل عمل حملہ تھا، کچھ شواہد ملے ہیں، چند دن اور اس حوالے سے چاہئیں، جلد سے جلد اس تفتیش کو منطقی انجام تک لے جانا چاہیے، کچھ شواہد ملے ہیں تحقیقات کے لیے مزید کچھ دن چاہئیں،بہت ساری چیزیں ہیں جو پہلی دفعہ ہوئی ہیں۔
چوہدر ی نثار نہ یہ بھی کہا کہ دہشت گردی کے خلاف اتحاد قائم رہے گا تو ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچاکر دم لیں گے، ملٹری کورٹس کی بات تو ٹھیک ہے لیکن سب نے اس کے لیے ووٹ نہیں کیا، اگر ملٹری کورٹس بنے تو ن لیگ نے وہ سیاسی مخالفین کے لیے نہیں دہشت گردوں کے لیے بنائے، کوئی نہیں چاہتا کہ اپنے نارمل سسٹم کو ہٹاکر فوجی نظام لایا جائے، کوئی بھی جمہوری حکومت نہیں چاہتی کہ کوئی سخت قانون لایا جائے۔