وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ ایک ماہ 10 دن میں 3 کروڑ بارہ لاکھ شناختی کارڈزکی تصدیق ہوچکی، ایک تہائی شناختی کارڈزکی تصدیق ہوئی،اب تک 30 ہزار لوگ ایسے شناخت ہوچکے جو لوگوں کے فیملی ٹری میں نہیں تھے۔
چوہدری نثار نے نیوز بریفنگ میں مزید کہا کہ غیر متعلقہ افراد کے شناختی کارڈز بلاک کردیئے ہیں، 14 غیر ملکیوں نے خود فون کرکے اپنے شناختی کارڈز اور پاسپورٹ واپس کیے،اندھیر نگری انشااللہ ختم ہوجائے گی ۔
انہوں نے کہا کہ امریکی شہری پر 2011ء میں گرفتاری کے وقت جاسوسی کے الزامات نہیں تھے، لیکن یہ اس وقت حساس علاقے میں پایا گیا تھا،امریکی شہری کو 2011ء میں ڈی پورٹ کیا گیا تھا،ہیوسٹن اور اسلام آباد، دونوں جگہ آفیشلز نےبتایا کہ کمپیوٹر خراب تھا،جس نے امریکی شہری کو چھوڑا وہ گرفتار ہے، اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہوگی،غلطی کی نشاندہی کرنے والے کو وزارت داخلہ نے ایک لاکھ روپے انعام دیا،سینیٹر اعظم سواتی نے بھی متعلقہ افسر کے لیے بطور انعام ایک لاکھ روپیہ بھجوایا، یہ شخص جاسوس نہیں تھا، کم از کم کوئی ایسے شواہد سامنے نہیں آئے، لیکن قابل اعتراض سرگرمیوں میں ضرور تھا، جے آئی ٹی ر پورٹ اور عدالتی حکم کی روشنی میں اس امریکی شہری کو ڈی پورٹ کیا جائے گا۔
چوہدری نثار کہتے ہیں کہ یہ تاثر غلط ہے کہ سارک میٹنگ میں میری طرف سے ظہرانہ تھا اور میں وہاں نہیں تھا، حکومت پاکستان نے میزبان ملک کی پوری عزت افزائی کی،ہم نے تو مہمان وزراءکے لیے ہیلی کاپٹر کی سروس بھی دی،آپ کے گھر میں کوئی آئے اور آپ کی تضحیک کرکے چلا جائے اور آپ گھگو بن کر بیٹھے رہیں یہ کہاں کا احترام ہے ؟مجھ پر لازم ہے کہ میں اپنے مہمان کی عزت کروں لیکن پاکستان کی تضحیک پر جواب دینا بھی میرا فرض ہے،غلام علی، شہر یار خان،نجم سیٹھی اور راحت فتح علی خان نے ہندوستان کا کیا قصور کیا تھا؟
انہوں نے یہ بھی کہا کہ روایت سے ہٹ کر بھارتی وزیر داخلہ کو خصوصی پریزنٹیشن کی اجازت دی،لیکن ان کی تقریر میں جو باتیں آئیں تو مجھ پر لازم تھا کہ میں ان کا جواب دیتا،اگر میں نے غلط کہا تھا تو بھارتی وزیر داخلہ اسی ایوان میں جواب دےسکتے تھے،بھارتی وزیر نے راجیہ سبھا میں جو کہا وہ یہاں کہتے تو میں ان کا جواب دیتا،امن بھائی چارے کے لیے اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہے کہ ہم نے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے۔
چوہدری نثار نے مزید کہا کہ بھارتی وزیر داخلہ کو کہوں گا کہ یہ قوم نہ کسی کے تسلط میں رہ سکتی ہے نہ مقبوضہ کشمیر میں جاری آپریشن قابل قبول ہے، مسائل کا حل مذاکرات میں ہے، آپ کے پاس کوئی اور حل ہے تو ہمیں بتائیں، چوہدری نثار
حملے بھی آپ کرتے ہیں، کشمیریوں کا قتل عام بھی کرتے ہیں، دھمکیاں بھی دیتے ہیں اور مذاکرات کے دروازے بھی بند کرتے ہیں، دنیا دیکھے اور بھارتی میڈیا دیکھے کہ غلطی پر کون ہے، سارک کانفرنس میں جو کچھ کہا اور کیا وہ ملک کے مفاد میں کیا، آئندہ بھی کروں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک سیاسی جماعت کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا، یہ وہی جماعت ہے جو چند ہفتے پہلے کشمیری عوام کو بے وقوف بناتی رہی،یہ وہ منافقت ہے جو اس وقت ہماری سیاست پر چھائی ہوئی ہے،پرسوں جو میری تقریر ہوئی، وہ شیڈول کے مطابق تھی، اب ہر چیز چھپی چھپائی نہیں ہونی چاہیے، ولن یہاں ہیرو نہ بنیں، میٹنگ میں کسی نے اسمبلی کی تقریر پر شدید تحفظات کا اظہار کیا، میں نے کہا اس کا جواب ملٹری کی طرف سے نہیں آنا چاہیے اس کا جواب حکومت دے گی، ملٹری حکومت کا حصہ ہوتی ہے۔
چوہدری نثار نے یہ بھی کہا کہ مجھے وزیراعظم کی طرف سے پیغام آیا کہ پہلے انہیں تقریر کرنے دیں، وزیراعظم کی تقریر پہلے ہوگئی ان کا ایک اسٹیٹمنٹ تھا، میں نے تو ہر چیز میں تعریف سب کی کی ہے، یہ بھی کہاکہ پہلی بار زرداری صاحب کی تعریف کی ہے، ان کے ڈھنڈورچی کھڑے ہوگئے اور کہاکہ آصف زرداری کو کوئی ضرورت نہیں ہے، اگر آصف زرداری کو ضرورت نہیں ہے تو انہوں نے میرا تعریفی خط کیوں سنبھال کر رکھا ہے، آصف زرداری کو میری تعریف کی ضرورت ہے لیکن ان ڈھنڈورچیوں کو کیا پتہ۔
انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ کیا یہ میرا قصور ہے کہ 2009ءاور 2010ءمیں 2ہزار واقعات ہوئے، مگر کیوں کہ ایک ڈرامہ وزیراعظم کے سامنے رچانا تھا، پوائنٹ اسکورنگ ہونی تھی اور ایک تماشا لگانا تھا سو وہ تماشالگایا گیا، انہی دو اشخاص نے دھرنے کے دوران بد ترین بدتمیزی کی، میں نے پریس کانفرنس کرنی چاہی لیکن وزیراعظم آڑے آگئے۔
چوہدری نثار کہتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کے چار نقاط پر سب سے زیادہ تیزی سے کام ہوا، دس نکات صوبوں کے بارے میں اور باقی دیگر وزارتوں کے بارے میں ہیں، یہ سب میل جول کا نتیجہ ہے کہ دہشت گردی ایک چوتھائی سے بھی نیچے آگئی ہے، دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ ایک ماڈل کے طورپر تصور ہوتی ہے، بارڈر کےباہر دشمنوں کی ایک لائن لگی ہے جو وہاں سے پلان کرتے ہیں، کبھی غیر ملکی گٹھ جوڑ کی بات کریں تو ہمارے اپنوں کو آگ لگ جاتی ہے،جب سیکیورٹی ادارے اپنی جانیں دے رہے ہوں تو آپ کو ان کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، میرا کام ہے انٹیلی جنس شیئرنگ کرنا، دو سال میں 20ہزار انٹیلی جنس آپریشن کیے گئے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک ٹولہ ایسا پیدا ہوگیا ہے جو ہر چیز کا الزام مجھ پر ڈالتا ہے، سول آرمڈ فورسز جو ہم دیتے ہیں اس پر بھی کہتے ہیں کہ آپ یہ بھی نہیں کرسکتے، آپ بلاشرکت غیرے اقتدار کے مالک ہیں، یہ لڑائی جھگڑا ختم ہونا چاہیے، لیکن ایک پارٹی نے تہیہ کرلیا ہے کہ اس نے مجھے ٹارگٹ کرنا ہے، اپوزیشن لیڈر حکومت کے خلاف ہوتے ہیں لیکن وہ میرے خلاف ہیں، میری ذمہ داری ہے کہ میں سیکیورٹی فورسز کو بلاجواز تنقید سے بچاؤں، کچھ ایسے لوگ چھپے ہوئے ہیں جنہیں بھارت کے مفادات سے زیادہ ہمدردی ہے، میری ذمہ داری ہے کہ جہاں جہاں کرپشن ہوئی ہے میں ان کا آلہ کار نہ بنوں، سو ان کو یہ تکلیف ہے، ہر روز بیان میرے خلاف آتاہے، میں نہیں چاہتا کہ جواب دوں اور ان کے لیول پر جاؤں، وہ ذاتیات پر اتر آتے ہیں، میں نے کبھی نہیں کہ وہ میٹر ریڈر تھا اس مقام تک کیسے پہنچ گیا، جو بہت بڑے بنتے ہیں، مجھے پتہ ہے کہ ایل پی جی کا ٹھیکہ کس طرح ریگولرائز کیا گیا ہے، میں نے تو کبھی نام نہیں لیا، ٹینڈر کسی اور کمپنی نے نام نکلا اور جس نے اپلائی ہی نہیں کیا اسے ٹھیکا دے دیا گیا۔
چوہدری نثار نے یہ بھی کہا کہ عمران سے کہاکہ بلاول کو کنٹینر پر چڑھانے سے پہلے دبئی کے محلات کا پوچھ لینا،پاناما لیکس پر تو وزیراعظم نے کہا ہے کہ تحقیق کرلو، آپ سے تو میں صرف جواب مانگ رہا ہوں کہ سرے محل آپ کا ہے یا نہیں، وہ جو ڈائمنڈ نیکلس ہے، اس کا کیا بنا، کس کے پاس ہے، قوم سے منافقت اور زیادتی نہ کی جائے، اگر کوئی ہمارے ساتھ ہے تو کرپٹ ترین، دوسری طرف ہے تو بے قصور، جن قوانین پر ایکسٹینشن کی ضرورت ہے وہ ہونی چاہیے اور دہشت گردوں کے خلاف گھیرا تنگ ہونا چاہیے۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ اگر اعتزاز احسن یا خورشید شاہ نے میرے خلاف کچھ کہنا ہے تو آئیں میڈیا کو استعمال کریں، جیوری بنائیں، اس موقع پر چوہدری نثار نے جیوری کے لیے اپنے مجوزہ صحافیوں کے نام پیش کردیئے ۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم کو نہیں پتہ چلتا کون صحیح ہے کون غلط، جسٹس وجیہہ الدین اور جسٹس طارق محمود یا اور ججز، کمیشن بنالیں، ہمارا جھگڑا آپس میں نہیں ہونا چاہیے، انہوں نے صرف وزیراعظم کو متاثر کرنے لیے اسمبلی میں تماشا بنایا۔
چوہدری نثار کہتے ہیں کہ کچھ لوگ آئے اور کہاکہ ایان علی کا کیس واپس لیں اور ڈاکٹر عاصم کی ضمانت ہونے دیں، آپ کی اور پیپلز پارٹی کی صلح ہوسکتی ہے، مجھے بتائیں کہ پانچ کروڑ لے جاتے ہوئے ایک لڑکی گرفتار ہوئی اور اس کےبعد زمین آسمان ملادیئے گئے اور اس لڑکی کو ڈیفنس کون کررہا ہے جو سب سے زیادہ میرے خلاف بولتے ہیں، عمران خان صاحب یہ کنڈیشن ہے آپ سے دورہونے اور ہمار قریب ہونے کی، میں نے کہاکہ ڈاکٹر عاصم کا کیس تو نیب کے پاس ہے اور پراسیکیوٹر جنرل آپ کے دور کا لگا ہوا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ میرے دل و ذہن میں ہر وقت میرا حلف ہوتا ہے، غلطیاں ہوسکتی ہیں گناہ نہیں ہوگا، بات چیت، مذاکرے، کسی بھی قسم کی بحث اور آپ سے تعاون کے لیے بھی تیار ہوں، لوگوں کی کھال اتارنے والے ایان علی کا کیس مفت میں لڑرہے ہیں، ہماری پارٹی میں کوئی گروپ نہیں ہے، اکا دکا لوگ ہیں جو اپوزیشن کو تھپکی اور لیڈرشپ کے کان بھرتے ہیں، میں نے ایسی نیچی اور گری ہوئی حرکت کبھی نہیں کی، بھارتی میڈیا منیجر نے اپنے وزیر داخلہ کی تقریر لیک کی، ہمارے میڈیا منیجر نے میری تقریر لیک کی، ایان علی اور بلاول بھٹو کے ٹکٹس ایک ہی اکاؤنٹ سے خریدے جاتے ہیں۔