• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
علامہ طاہر القادری کا انقلابی اور عوامی اعلان ریکارڈ پر ہے کہ وہ کینیڈا سے اپنے کپڑے اور موزے تک سمیٹ کر پاکستان آ گئے ہیں تاکہ وہ کرپشن، غربت اور جہالت اور خود غرض لیڈروں سے نجات دلانے کیلئے پاکستانی قوم کو اپنے ’’انقلاب‘‘ کا کوئی ’’روڈ میپ‘‘ یا پلان دیئے بغیر ہی انقلاب کی شخصی قیادت خود کر سکیں لیکن جب رمضان کے آخری عشرے میں نیو یارک سے ہم طاہر القادری کے دیس کینیڈا کے شہر ٹورانٹو گئے اور اس کے نواحی علاقوں سی ساگا، اوک ول، ملٹن اور دیگر علاقوں میں جا کر اور احباب سے مل کر دیکھا تو طاہر القادری صاحب کا تمام ترکہ اور ’’اثاثے‘‘ بدستور اپنی جگہ موجود پائے بلکہ شنید ہے کہ موصوف کا خاصا ذاتی سامان بھی ابھی پیچھے رہ گیا ہے جو ان کی واپسی کی صورت میں استعمال میں آ سکے گا۔ سی ساگا میں ان کی ہدایات اور نگرانی میں چلنے والا اسلامک سینٹر یعنی مسجد اپنی جگہ قائم و دائم اور علامہ کی عدم موجودگی میں بہتر انداز میں چل رہا ہے اور ان کے معتقدین اور مقربین علامہ کی ہدایات کے مطابق مصروف کار ہیں اور ان کے ناقدین اور مخالفین کا وہاں جانے کیلئے سوچنا بھی بدستور محال ہے حالانکہ کینیڈا جیسے جمہوری معاشرے کے چرچوں اور عبادت گاہوں میں دیگر مسالک اور مذاہب کے ماننے والوں کیلئے بھی دروازے کھلے رکھنے کا رواج عام ہے۔ 11 ستمبر کے سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بعد نیو یارک سے نیاگرا آبشار کے بارڈر سے کینیڈا میں داخل ہونے والے غیر قانونی تارکین پاکستانی اور بنگلہ دیشی مسلمانوں کو سرحدی علاقوں کے چرچوں نے پناہ بھی دی اور ضروری قانونی امداد بھی فراہم کی تھی۔ جی ہاں! سی ساگا کے اسلامک سینٹر کے علاوہ وہ قیمتی مکان بھی اوک ویل کے علاقے میں موجود ہے جہاں مبینہ طور پر علامہ کی خواہش کے مطابق ان کے معتمد خاص کامران خواجہ کی کوششوں سے مئی کے وسط میں دو برطانوی ممتاز اور با اثر شخصیات سے بھی خفیہ، خاموش اور خاصی تفصیلی ملاقات رہی اور اس ملاقات کا بقیہ حصہ علامہ نے بعد میں لندن جا کر مکمل کیا۔ سی ساگا کے مکان میں ہونے والی اس خفیہ ملاقات کا دستاویزی ثبوت میرے پاس موجود ہے جو صرف علامہ کی طرف سے انکار کی صورت میں ہی پیش کروں گا۔ میری معلومات اور بعض ذمہ دار، دیانتدار اور علامہ کے ہمدرد حلقوں کا کہنا ہے کہ لاہور کی بجائے اسلام آباد میں علامہ کے اترنے کا پروگرام، مقصد اور تفصیلات پر گفتگو رہی بلکہ ایک ایسے ہولناک ایکشن پلان پر بھی بات ہوئی جو ہٹلر کے نازی انقلاب اور حصول اقتدار کی یاد تازہ کر دیتا۔ اور پلان کی کامیابی کی صورت میں آج آپ کو بارش کی صورت میں ٹپکتی چھت والی قومی اسمبلی کی بلڈنگ اسلام آباد میں موجودہ شکل میں نظر نہ آتی۔ بہرحال علامہ صاحب کامران خواجہ کے نام پر خرید کردہ مکان میں تمام ملاقاتیں اور سرگرمیاں کرتے ہیں جبکہ ان کی اصل رہائش ایک اور علاقے میں ایک شاندار مکان میں ہے۔ پاکستانی عوام کس قدر خوش قسمت ہیں کہ پاکستان میں اپنے ذاتی تصور کے مطابق ’’عوامی انقلاب‘‘ کی قیادت کرنے والے اسلامی اسکالر اور سیاستداں کینیڈا میں لوڈشیڈنگ اور کرپشن سے پاک ماحول میں انتہائی آرام دہ زندگی گزار کر اور موازنہ کر کے پاکستان کے غریب، تعلیم سے محروم، تعصب اور قبیلوں میں تقسیم، کرپشن اور بد امنی کے ستائے ہوئے پاکستانی عوام کو اپنے تصور انقلاب کی کوئی بھی تفصیل و تیاری کے بغیر ہی ان کو انقلاب سے ہمکنار کرنے کیلئے مصروف کار ہیں۔ جدید دنیا کی عالمی تاریخ کا اس قدر ’’مبہم‘‘ انقلاب لانے کا معرکہ علامہ طاہر القادری ہی انجام دے سکتے ہیں۔ اپنے اس ’’انقلاب‘‘ کیلئے علامہ صاحب کسی ترجیح و تمیز یا تدبیر کے بغیر ہر طرح کا تعاون اور معاون قبول کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس کار خیر میں پاکستانی اور غیر پاکستانی کی کوئی شرط نہیں ہے۔ کینیڈا کے پارلیمانی اور جمہوری نظام میں چند سال گزار کر سٹیزن شپ کا امتحان پاس کر کے ملکہ برطانیہ اور کینیڈا کے پارلیمانی جمہوری نظام کی وفاداری کا حلف اٹھانے کے بعد پاکستان میں کرپشن، دہشت گردی، خود غرض لیڈر شپ سے دوچار پارلیمانی جمہوری نظام کو تباہ کر کے انقلاب لانے کی ذمہ داریاں بیک وقت کینیڈا اور پاکستان میں وہ کیسے پوری کریں گے؟ یہ معمہ اور تضاد علامہ صاحب ہی حل فرما سکتے ہیں کہ کینیڈا میں پارلیمانی جمہوریت کی وفاداری کریں اور مصیبت زدہ پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کی اصلاح اور صفائی کی بجائے تباہ کر کے عراق کے ابو بکر کی طرز کی شخصی حکومت کو خلافت کا نام دے کر قائم کریں۔ اس سلسلے میں کینیڈا کے بعض ذمہ دار اور دیانتدار افراد جو مئی کے وسط میں دو با اثر اور ممتاز برطانوی شخصیات کے ساتھ مبینہ خفیہ ملاقات و مذاکرات سے آگاہی رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس میں مبینہ طور پرعلامہ کو تجویز کیا گیا کہ وہ لاہور جانے کی بجائے اسلام آباد میں اتریں اور وہاں بڑے سے بڑا ہجوم اکٹھا کر کے اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی عمارت کا رخ کریں۔ یہ عمارت کافی پرانی ہو چکی ہے۔ اس کی چھت بھی بارش میں ٹپکتی ہے۔ لہٰذا یہ ہجوم توڑ پھوڑ کرتا ہوا قومی اسمبلی کے سامنے جائے اور کچھ لوگوں کو کسی طرح عمارت میں گھسنے اور آگ لگانے کے کام پر مامور کر دیا جائے۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو گیا تو پھر علامہ کے اسلام آباد اترتے ہی ’’انقلاب‘‘کا پہلا مرحلہ کامیاب ہو کر عالمی شہرت اور پاکستان میں دھاک بٹھانے کا کام دے گا۔ کہا جاتا ہے کہ اس بات کی اطلاع پاکستان کے حساس اداروں کو بھی ہو گئی اور وسط مئی کی خفیہ ملاقات کے علاوہ لندن میں علامہ کی ملاقاتوں کی رپورٹیں بھی مل گئیں، اسی لئے علامہ طاہر القادری کو اسلام آباد کی بجائے لاہور میں اتارا گیا اور یہ پلان ابھی تک ناقابل عمل ہے۔ اگر آپ تاریخی تناظر میں دیکھیں تو 27 فروری 1933ء کو جرمنی کے ایک اینٹیں بنانے والے بیروزگار نوجوان مزدور MARIMUS نے جرمن پارلیمنٹ کو جو آگ لگائی تھی وہ تو اعتراف جرم کر کے پھانسی کی سزا پا گیا لیکن ایڈولف ہٹلر نے اپنے ’’نازی انقلاب‘‘ کو مضبوط کرنے اور اقتدار پر گرفت کیلئے استعمال کیا۔ اس کا نعرہ بھی جمہوریت کو بدنام کر کے تباہ کرنا اور اپنے شخصی اقتدار کو مضبوط کرنا تھا۔ وہ اصولوں کا سہارا صرف اپنے اقتدار کی ضرورت کے مطابق استعمال کرتا رہا۔ جرمنی کی عظمت، بحالی، عوام کی خوشحالی، ملک کی مضبوطی، جرمن معاشرہ کے اتحاد کے نعرے لگا کر اور پارلیمنٹ کو آگ لگا کر مضبوط اقتدار کا مالک بنا تھا۔ پارلیمنٹ کی عمارت کو آگ لگانے سے صرف چند روز قبل چانسلر کی نشست سنبھالنے والے ایڈوولف ہٹلر کا جمہوریت کو تباہ کرنے اور پارلیمنٹ کو آگ لگانے کا ماڈل کسی کیلئے دلکش اور کامیابی کا راستہ نظر آتا ہو لیکن ہٹلر اور اس کی قیادت میں جرمنی کی بد ترین تباہی شکست اور انجام پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔آج ہٹلر کا نام خود جرمنوں کیلئے بھی معذرت اور ندامت کا باعث ہے۔
طاہر القادری کے دیس کینیڈا کے مسلمانوں میں آج کل سیاسی ہلچل یوں ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد لبرل پارٹی کی حامی ہے اور وفاقی پارلیمنٹ کے لئے تمام حلقوں میں پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کا مرحلہ جلد ہی شروع ہونے والا ہے لہٰذا بعض ایسے انتخابی حلقے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی خاصی بہتر اور اہم ہے اگر وہ کسی کو الیکشن جتوا نہیں سکتے تو کسی امیدوار کو ہرانے میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں بلکہ کینیڈا کی سیاسی پارٹیوں اور نظام میں امریکہ کے مقابلے میں کینیڈا کے مسلمان زیادہ سرگرم ہیں۔کم و بیش چھ پاکستانی نژاد کینیڈین شہری لبرل پارٹی کی نامزدگی برائے وفاقی پارلیمنٹ کے امیدوار حاصل کرنے کیلئے سرگرم ہیں جن میں کراچی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل اے۔ کے۔ مفتی بھی ہیں تو عمران میاں اور نئی نسل کے دیگر پاکستانی نژاد امیدوار بھی اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں پارٹی ممبر شپ اور اپنی نامزدگی کیلئے سرگرداں ہیں۔ یہ بڑا صحت مند منظر اور ماحول ہے اگر یہ امیدوار افہام و تفہیم سے بیٹھ کر ایک دوسرے کے مد مقابل ہونے کی بجائے متحد ہو کر تعاون سے فیصلے کریں تو مسلمان اور پاکستان کمیونٹی کینیڈا میں اپنا سیاسی سفر بہت تیزی سے طے کر سکتی ہے۔ ہملٹن کے علاقے میں پاکستانی بمقابلہ پاکستانی کی نا خوشگوار صورت پیدا ہونے جا رہی ہے مگر ڈاکٹر اضرب خان جیسے معتدل اور سب کیلئے قابل قبول شخصیت افراد بھی سرگرم ہیں جو کمیونٹی میں متحارب افراد کی صلح صفائی کیلئے مصروف رہتے ہیں۔ علامہ طاہر القادری پاکستان کے پارلیمانی نظام اور جمہوریت کو بذریعہ انقلاب لانے کا عزم لے کر پاکستان آئے ہیں مگر کینیڈا کے مسلمان تو یہاں کے پارلیمانی نظام میں خود کو شامل کرنے کیلئے متحرک ہیں۔ البتہ لبرل پارٹی کے حامی مسلمان پارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم ٹروڈو کے صاحبزادے جسٹن ٹروڈو کے اس بیان پر ناراض ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے۔ نوجوان ٹروڈو کو احتجاجی ای میلز اور پیغامات بھیجے جا رہے ہیں اور بعض اپنی پارٹی ممبر شپ بھی منسوخ کر رہے ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کینیڈا میں مسلمان ایک اقلیت ہیں، ان کو نظام کے بائیکاٹ کے بجائے اس نظام کا حصہ بن کر اپنا موقف منوانا ہو گا ورنہ وہ علامہ طاہر القادری کو واپس کینیڈا بلوا کر کینیڈا میں انقلاب کے ذریعے نظام تبدیل کرنے کی تحریک چلائیں۔
تازہ ترین