• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہی ایک سوال عام آدمی کے ذہن میں کلبلا رہا ہے اور شدید اضطراب کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس ڈستے ہوئے سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے میرا یہ مشورہ ہو گا کہ رمضان کی جو مبارک ساعتیں ہمیں دستیاب ہیں، اُن میں اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کی پوری پوری کوشش کی جائے کہ شب قدر طاق راتوں میں آتی ہے جس میں قرآن حکیم نازل ہوا اور پاکستان وجود میں آیا اور برصغیر کے مسلمان آزادی کی نعمت سے فیض یاب ہوئے تھے۔ رمضان کے آخری عشرے میں ہمیں یہ دعا کثرت سے مانگنے کی تائید کی گئی ہے کہ ’’اے اللہ آپ سراپا عفو و درگزر ہیں‘ عفو و درگزر کو پسند فرماتے ہیں تو پس مجھے بھی معاف کر دیجیے۔‘‘ ایک ایسے ماحول میں جس میں عفو و درگزر کی صدائیں بلند ہو رہی ہوں، انسان کے اندر سوز و گداز اور باہمی الفت کے لطیف جذبات نشو و نما پاتے ہیں، سکونِ قلب میسر آتا اور عید کی خوشیاں دوبالا ہو جاتی ہیں۔ اس بار حکومت نے چھٹیوں کی بارش کر دی ہے اور ایک اندازے کے مطابق معمولات زندگی آٹھ دس روز بند رہیں گے اور عوام بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ’’لطف‘‘ اٹھا سکیں گے۔ بڑے لوگوں کو تو کچھ فرق نہیں پڑتا کہ وہ بیرون ملک سدھار گئے ہیں اور پریشان حال اور پسے ہوئے شہری ایک دوسرے سے پوچھ رہے کہ وہ لندن کیا لینے گئے تھے اور امریکہ کس آرزو کی تلاش میں نکلے ہیں اور سعودی عرب میں اس قدر طویل قیام اس وقت کیوں کیا جا رہا ہے جبکہ ملک مسائل میں جل رہا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ حکمران اور حکام عوام کی سوچ کو بڑی اہمیت دیتے اور انھیں مطمئن رکھنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔ اب انھیں اس طرح کی ’’فضول‘‘ باتوں سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ کہتے ہیں انھیں بڑبڑانے کی عادت سی پڑ گئی ہے اور الیکٹرانک میڈیا نے انھیں چوڑ کر دیا ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں اور واقعات کو بڑھا چڑھا کر دکھاتا اور قدم قدم پر بیڈگورننس کا تاثر دیتا ہے۔ اب آئی ڈی پیز کے معاملے ہی کو دیکھ لیجیے۔ دس لاکھ سے زائد قبائلیوں نے خیبرپختونخواہ میں ہجرت کی ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر انخلا میں کچھ مشکلات بھی پیدا ہو جاتی ہیں، انتظامی نااہلیاں بھی سامنے آتی ہیں، مگر ہمارے میڈیا میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ہجرت کرنے والوں کو خوراک نہیں مل رہی، انھیں پانی میسر نہیں، اُن کی رجسٹریشن میں کئی کئی دن لگ جاتے ہیں اور خواتین راشن کے لیے قطاروں میں لگی رہتی ہیں۔ ٹانک میں تو پولیس اور مہاجرین میں تصادم بھی ہو گیا ہے۔ اب آپ ہی سوچیے کہ اس نوع کی باتیں اچھالنے سے آپ کس کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ فوج کا پورا ڈویژن اُن کی شب و روز دیکھ بھال کر رہا ہے۔ فلاحی تنظیموں کے ہزاروں رضاکار اُن کی خدمت بجا لا رہے ہیں، پورے ملک سے تحائف آ رہے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں پنکھے، خیمے، کپڑے اور ادویہ پہنچ رہی ہیں۔ حکومت کے کارندے مشین کی طرح کام کر رہے ہیں،لیکن میڈیا ان تمام سرگرمیوں کو ایک مربوط اور موثر انداز میں پیش نہیں کر رہا، جبکہ ہماری تو یہ سرتوڑ کوشش ہے کہ مہاجرین کا دامن اچھی یادوں سے بھر دیں کہ وہ جب واپس جائیں تو اپنے اہل وطن کی میزبانی کو اچھے لفظوں میں یاد رکھیں اور فاٹا کو دہشت گردوں سے مستقل طور پر محفوظ رکھنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔اب جوں جوں چودہ اگست قریب آ رہا ہے، عجب عجب وسوسے پیدا ہو رہے ہیں کہ عمران خاں کی سونامی کیا حشر برپا کرے گی اور شیخ الاسلام طاہر القادری کیا قیامت ڈھانے والے ہیں۔ یہ دونوں نیم سیاسی اور نیم روحانی جماعتوں کے تیور کچھ اچھے نہیں۔ عمران خاں کی طلسماتی شخصیت نے نوجوان مردوں اور خواتین کی آرزوئوں کو شعلہ صفت بنا دیا ہے اور اُن کے اندر یہ احساس بھر دیا ہے کہ انتخابات میں اُن کا مینڈیٹ چرا لیا گیا ہے، چنانچہ ان میں اشتعال کا رنگ غالب آتا جا رہا ہے۔ پی ٹیآئی کے وائس چیئرمین جناب مخدوم شاہ محمود قریشی ایک ایک ضلع جاتے اور نوجوانوں کو لانگ مارچ کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ عمران خاں نے لندن سے واپس آ کر بیان دیا ہے کہ یوم آزادی کے موقع پر ہماری سونامی بادشاہت کو بہا لے جائے گی اور عوام کو حقیقی آزادی حاصل ہو گی۔ اسی طرح شیخ الاسلام طاہر القادری اگرچہ اپنے ماڈل ٹائون سیکرٹریٹ سے باہر نہیں نکلے ہیں، مگر اُن سے ملاقات کے لیے ہر روز ڈیڑھ دو ہزار فدائین آ رہے ہیں۔ بریلوی مسلک میں پیر و مرشد کو بہت اونچا مقام حاصل ہے اور اُن کے حکم پر پیروکار جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی اس بات میں بڑا وزن محسوس ہوتا ہے کہ مروجہ گلے سڑے نظام کی اصلاح ممکن ہی نہیں اور اس کی جگہ ایک ایسا نظام لانا ہو گا جو آئین کی روح کے عین مطابق ہو اور اس عمرانی معاہدے کا احترام کیا جائے جو شہریوں نے ریاست کے ساتھ کیا ہے۔
یہ دونوں قوتیں جو بظاہر مختلف اہداف رکھتی ہیں، انھیں ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اس میں چودھری شجاعت حسین کارول بہت اہم اور بے حد مشکل ہے کیونکہ عمران خاں اور طاہر القادری ایک دوسرے کی قیادت اور برتری تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے علاوہ شیخ الاسلام کا سلوک چودھری برادران کے ساتھ کچھ زیادہ اچھا نہیں۔ شاید اُن کے سر میں کچھ زیادہ ہی سودا سما گیا ہے اور وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اُن کا کوئی سیاسی بیس نہ ہونے کی وجہ سے وہ بتدریج تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔ دہری شہریت کی وجہ سے اُن کی قیادت کا سکہ چل نہیں رہا۔ گزشتہ سال انھوں نے اسلام آباد میں جو چار روزہ دھرنا دیا تھا، اس کی یادیں بڑی تلخ ہیں۔ لوگوں کو احساس ہوا کہ جو شخص خود آرام دہ کنٹینر میں تمام سہولتوں سے لطف اندوز ہوتا رہے اور ہزاروں عورتوں، بچوں اور جوانوں کو سخت سردی میں ٹھٹھرنے کے لیے چھوڑ دے، وہ عوامی انقلاب نہیں لا سکتا۔ انقلاب میں سب سے زیادہ قربانیاں لیڈر کو دینا ہوتی ہیں۔1917ء کے انقلاب میں لینن اپنی ذات کے بجائے عوام کا سب سے زیادہ خیال رکھتا تھا۔
جناب عمران خاں ایک سیاسی قوت ہیں، مگر اُن کا مزاج سیاسی کم اور آمرانہ زیادہ ہے۔ اُن کی خواہشات میں توازن اور استقامت کا فقدان ہے۔ اُن کا موقف یہ رہا ہے کہ وہ ایسی انتخابی اصلاحات چاہتے ہیں جن میں عوامی مینڈیٹ پر شبخون مارا نہ جا سکے۔ اُن کا مطالبہ جائز ہے اورانہی کے دبائو پر ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے جو انتخابی اصلاحات پر کام کرے گی اور اُمید کی جاتی ہے کہ میڈیا اور سول سوسائٹی عمران خاں کے موقف کی حمایت کرے گی۔ اس امر کا بھی امکان ہے کہ آئین میں ترمیم کے ذریعے حکومت کی آئینی مدت چار سال مقرر ہو جائے اور یوں تین سال بعد ہی انتخابات کا مرحلہ آ جائے اور تحریک انصاف کو قسمت آزمانے کا جلد موقع مل جائے۔ حکومت نے عمران خاں کو فری ہینڈ دینے کا ایک دانش ورانہ فیصلہ کیا ہے۔ اس اچھی فضا میں یوم آزادی کے موقع پر ایک تماشا لگانا داخلی سلامتی کو دائو پر لگانے کے مترادف ہو گا۔ میرا حسن ظن ہے کہ تحریک انصاف کے جہاندیدہ اور بالغ نظر افراد معاملے کو حد سے آگے جانے کی اجازت نہیں دیں گے کہ نظام کے تلپٹ ہو جانے سے اُن کے اپنے مفادات پر کاری ضرب پڑ سکتی ہے۔ مجھے ایک معاصر انگریزی روزنامے میں شائع شدہ یہ تجویز بے حد پسند آئی ہے کہ ہمیں یوم آزادی کے موقع پر یوم تشکر اور یوم دعا مناناچاہیے۔ یوم تشکر اس لیے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنی آزادی کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائی۔ یوم دُعا اُن کے لیے جو شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے سامنے سینہ تانے کھڑے ہیں اور اپنے عزیز وطن کی خاطر جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ غزہ میں فلسطینیوں کا جس طرح قتل عام ہو رہا ہے‘ اس میں وطن کی اہمیت اور آزادی کی قدر و قیمت اہل پاکستان کے سینوں میں اُترتی جا رہی ہے۔14؍اگست کویوم تشکر اور یوم دُعا ہماری طرف سے وطن کے لیے سب سے بڑا خراج عقیدت ہو گا۔
تازہ ترین