• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فلسطین کے خلاف جاری اسرائیلی جارحیت کا آج انیسواں دن ہے۔ مظلوم فلسطینیوں کا خون مسلسل بہہ رہا ہے۔ غزہ کے گلی کوچوں سے اٹھنے والے لاشوں کی تعداد نو سو سے تجاوز کرچکی ہے۔ او۔آئی۔ سی اور عرب لیگ کی فعالیت اور اثر پذیری تو کوئی ڈھکی چھپی نہیں، امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون کا امن مشن بھی کامیاب ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ گو بانکی مون صاحب نے بعض اچھی باتیں بھی کیں۔ جنگ بندی اور مذاکرات پر زور کے علاوہ تنازع کی تہہ تک پہنچنے کی ہدایت بھی کی، تاکہ ہر سال، چھ مہینے بعد اس قسم کی صورتحال پیدا نہ ہو۔ مگر ان سے ایک چوک ہوگئی کہ ظالم و مظلوم کو ایک ہی کھونٹے سے باندھ دیا۔ فلسطین کی جانب سے دفاع میں داغا گیا ایک آدھ میزائیل اور اسرائیل کی طرف سے آگ اور خون کی بارش میں انہیں کچھ خاص فرق دکھائی نہ دیا۔ اسرائیل کی سرکشی اور فلسطین کی بدنصیبی کوئی آج کی بات نہیں۔ یہ قصہ شروع ہوئے 67 برس ہوگئے اور اس سارے عرصے میں دنیائے اسلام کا بس ایک ہی وظیفہ رہا ہے کہ عالمی طاقتوں کو اپیلیں کرتی رہے کہ ظلم کو روکیں اور خود 57 کے 57 مسلم ممالک مع اسلامی تنظیموں کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ نتیجہ سامنے ہے کہ ہماری زبانی کلامی داد فریاد پر مقتدر قوتوں کا ردعمل وہی ہے جسے پنجابی میں گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنا کہتے ہیں۔امریکی ماہر معاشیات الفریڈ مائیک کا قول ہے کہ امریکی معیشت اسرائیل کے کندھوں پرکھڑی، جسے اکثر لوگ معاملہ کی اوور سمپلی فکیشن قرار دیکر ناک بھوں بھی چڑھاتے ہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے بااثر ترین دونوں بنک یعنی بنک آف انگلینڈ اور فیڈرل ریزرو بنک آف دی یو ایس کا تمام تر کنٹرول یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کو کوآرڈی نیٹ کرنے والی تنظیم پر ان کا پورا عمل دخل ہے۔ جس میں سوئٹزر لینڈ کا بینک فار انٹرنیشنل سٹیلمنٹس بھی شامل ہے۔ فی الحقیقت یہ بینک نہیں، دنیا کو مغلوب کرنے کے آلہ ہائے کار ہیں۔ اسرائیل کے ایک مالیاتی ماہر کا قول ہے کہ کسی بھی قوم کے مالی معاملات میرے سپرد کردو، پھر مجھے کوئی پروا نہیں کہ اس کی قانون سازی کون کرتا ہے اور اسرائیل کی یہ مالیاتی فلاسفی اس وقت امریکہ سمیت پورے مغرب میں کارفرما ہے وہ امریکہ جیسے ملک کے انتخابات میں سرمایہ کاری کرکے من پسند نتائج حاصل ہی نہیں کرسکتا، کرتا بھی ہے اور صہیونی سرمایہ سے معرض وجود میں آنے والی حکومتوں کیلئے ظاہر ہے۔ اسرائیل کا مفاد نمبر ون ترجیح ہوگی۔ پھر امریکہ کی ’’ریوالونگ ڈور پالیسی‘‘ بھی صہیونی اثر و رسوخ میں اضافے کا سبب بنتی ہے جو کچھ اس طور کام کرتی ہے کہ بڑے مالی اور صنعتی اداروں کے سربراہ اپنی مدت پوری کرتے ہیں تو اعلٰیٰ حکومتی عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں۔ وہاں سے فارغ ہوتے ہیں تو پھر پرائیویٹ سیکٹر میں آجاتے ہیں۔ علی ہذا القیاس اور اس آمد و رفت سے پرائیویٹ سیکٹر میں نہیں، حکومتی ایوانوں میں بھی ان کے عمل دخل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے جو فی الواقع اسرائیل کے حوالے سے وائٹ ہائوس کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ اسی صہیونی اثر و رسوخ کا کرشمہ تھا کہ فلسطین کے قلب میں اسرائیل کا بیج بویا گیا جو آج پورے خطہ میں دہشت و بربریت کی علامت بن چکا ہے اور جو فلسطینیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہا ہے۔
مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے ایک طرف اسرائیل کی اس قدر باریک بینی اور سائنیٹفک اپروچ اور دوسری جانب مسلم دنیا کا یہ حال ہے کہ اپنے ہی خول میں بند ہیں۔ وسیع و عریض جغرافیائی حدود اور بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال ان ریاستوں نے ناک سے آگے دیکھنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ آگے بڑھنا تو درکنار، مسلسل حالت رجعت میں ہیں۔ ترقی کرتی ہوئی دنیا کے ساتھ قدم ملانے کی صلاحیت سے یکسرعاری۔ ایسے میں اسرائیل اگر اپنے پشت پناہوں کی وساطت سے بلکنائیزیشن) (Balkainzatoکی حکمت عملی پر گامزن ہے تو کچھ حیرت کی بات نہیں۔ سیدھا سا فارمولہ ہے کہ کسی بھی ملک کو بیرونی جارحیت اور خانہ جنگی کے ذریعے یا پھر مذہبی، لسانی اور نسلی جھگڑوں میں ڈال کر اس قدر کمزورکردیا جائےکہ اس کی مرکزیت پارہ پارہ ہوجائے اور چھوٹی چھوٹی ریاستیں معرض وجود میں آجائیں۔ اسرائیل کی اس سوچ کو بعض مغربی تجزیہ نگاروں نے بھی آگے بڑھایا ہے۔ جس کی جھلک ایک ریٹائرڈ امریکی فوجی لیفٹنٹ کرنل الف پیٹرز کی تحریروں میں بھی موجود ہے۔ موصوف کے نزدیک دوسری عالمی جنگ کے بعد معرض وجود میں آنے والی اسلامی ریاستیں اسٹیٹ ہڈ(Statehood )کے معیار پر پورا نہیں اترتیں۔ ان میں مصنوعیت کا عنصر غالب ہے۔ اس لئے ان کی ازسر نو حد بندی کی ضرورت ہے۔ اپنے اس تھیسس میں اس نے عراق، شام، لبنان، ایران، اردن، قطر، سعودی عرب اور پاکستان کو بھی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی بات کی ہے جو اس کے نزدیک ان ممالک میں پھیلی لسانی، نسلی، گروہی اور مسلکی مناقشت کا واحد حل ہے جو نوشتہ دیوار ہے جسے زیادہ عرصہ تک ٹالا نہیں جاسکتا۔ اس کے نزدیک’’ اسٹیٹس کو‘‘ برقرار رکھنے پر اصرار ایسے ہی ہے جیسے طلاق پر تلے ہوئے جوڑے کو ایک ہی اپارٹمنٹ میں رہنے پر مجبور کیا جائے۔
موصوف کو پاکستان کی جوہری صلاحیت کا بھی شدید دکھ ہے۔ ایبٹ آباد کا واقعہ رونما ہونے سے پہلے کرنل رالف پیٹرز نے امریکی رسالہ آرم چیئر جنرل میگزین Armcheire general magazine میں لکھا تھا کہ اگر ہمارے پاس دو چوائس ہوں … یہ کہ اسامہ بن لادن کو اس کے تمام حواریوں سمیت آپ کے حوالے کیا جاتا ہے اور دوم یہ کہ پاکستان کے ’’غدار اور نمک حرام‘‘ جوہری انجینئروں کو ختم کردو، تو ہمیں دوسرے آپشن پر عمل کرنا چاہئے۔ جو ہماری دیرپا سلامتی کیلئے کہیں زیادہ مفید ہوگا۔ اسلامی دنیا کی تقسیم در تقسیم کے پیچھے عظیم تر اسرائیل Greater Israel کی سوچ بھی کارفرما ہے۔ جس کا جواز وہ الہامی کتابوں سے لاتے ہیں۔ ان کی توجیہ کے مطابق بائیبل نے ان کی سلطنت کی حدود صدیوں سے متعین کررکھی ہیں۔جس میں موجودہ اسرائیل کے علاوہ فلسطین، لبنان، شام، اردن، عراق، کویت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارت، اومان، یمن اور ترکی کا ایک بڑا حصہ شامل ہے۔ اس پس منظر میں عرب دنیا کے اندر جاری توڑ پھوڑ اور ان پر مسلط کی گئی جنگوں کی منطق سمجھ آجانا چاہئے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ ایک اور عجب کہانی بھی ہے اور عالمی ریشہ دوانیوں کی ایک ہلکی سی جھلک انٹیلی جنس کے نام پر تخلیق کی گئی خواہشات کی ایک داستان۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ امریکہ کی نیشنل انٹیلی جنس کونسل نے دسمبر 2004ء میں پیش گوئی کی تھی کہ 2020ء میں خلافت اسلامیہ معرض وجود میں آجائے گی۔ جس کے حلقہ اثر بحر اوقیانوس کے مغرب سے شروع ہوکر ایشائے وسطیٰ اورجنوب مشرق ایشیا تک ہوگا اور یہ ڈیولپمنٹ مغربی جمہوری اور سماجی اقدار کیلئے شدید خطرہ کا باعث ہوگی۔ مذکورہ انٹیلی جنس رپورٹ کا کلاسیفائیڈ حصہ تو ظاہر ہے منظر عام پر نہیں آیا، تاہم اس کا ان کلاسیفائیڈ حصہ میپنگ دی گلوبل فیوچر کے نام سے کتابچہ کی صورت میں چھپ چکا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک موقر امریکی انٹیلی جنس ادارہ کی جانب سے جاری ہونے والی اس رپورٹ میں انٹیلی جنس نام کی کوئی چیز نہیں۔ افسانوی انداز میں لکھی گئی الف لیلوی داستان میں نہ تو عالم اسلام کی تاریخی خلافت کا کوئی ذکر ہے اور نہ ہی جدید خلافت اسلامیہ کی تعمیر و تشکیل میں کار فرماعوامل و عواقب کا کوئی تذکرہ بلکہ اس کا نقشہ بعینہ اس خلافت سے ملتا ہے۔ جس کا اعلان 21جون کو ابوبکر البغدادی نے کیا تھا مگر لگتا ہے کہ لوہا ابھی پوری طرح گرم نہیں تھا۔ ابوبکر البغدادی کا شوشہ وقت سے پہلے منظر عام پر آگیا اور یہ نیم پختہ سی خلافت شاید امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو کچھ زیادہ سوٹ نہیں کرتی۔ اس کی حمایت تو بالواسطہ طور پر القاعدہ کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہوگی کیونکہ ابوبکر البغدادی کی جڑیں القاعدہ میں ہی ہیں۔ اعلان خلافت کے بعد اس نے دانستہ طور پر القاعدہ کو نظر انداز کرنا شروع کیا کیونکہ اب وہ اپنے آپ کو ایمن الظوہری کی ٹکر کی شخصیت سمجھنے لگا تھا۔
تازہ ترین