ناصر اقبال .....راول پنڈی کے وسط میں واقع پُرانے چوبارے ،گلیاں اور عمارتیں ظاہر کرتی ہیں کہ کسی دَور میں یہاں مسلمان، ہندو، سِکھ، عیسائی اور دوسرے مذاہب کے لوگ مِل جُل کر رہتے تھے اور ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کرتے تھے۔
راول پنڈی کے سید پوری گیٹ میں حویلی سجان سنگھ موجود ہےجس کی اندرونی اور بیرونی جانب کی گئی لکڑی کی کشیدہ کاری میں لوہے کی جالیاں اور دوسری دھاتیں استعمال ہوئی ہیں۔ اس تاریخی عمارت کی بحالی کے لیے حکومت نے کبھی کوئی دِل چسپی نہیں لی۔
اس حویلی کواُس وقت کی معروف کاروباری و سیاسی شخصیت، سردار رائے بہادر سجان سنگھ نے تعمیر کروایا تھا۔ اس کی تعمیر 1890ء میں شروع ہوئی اور 1893ء میں مکمل ہوئی۔
اس شان دار حویلی کو بھابڑا بازار اور سید پوری گیٹ کی تنگ و تاریک گلیوں سے گزرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔اس کا رقبہ 24,000 مربّع فٹ ہے۔ یہ تعمیر کے وقت 45کمروں پر مشتمل تھی۔
رائے بہادر سجان سنگھ نے یہ حویلی اپنی اور اپنے خاندان کی رہائش کے لیے بنائی تھی لیکن پھر رہائشی ہیڈکوارٹر کے طورپر استعمال کرنے کے لیے اسے ایک سِکھ جنرل کے حوالے کر دیا۔ حویلی کی دو منزلیں سپاہیوں کے زیرِ استعمال تھیں، جو یہاں سے باہر کے حالات کا جائزہ لیتے تھے۔
سبحان سنگھ کے خاندان کا لکڑی کا کاروبار تھا ۔ حویلی کے دروازے اور کھڑکیوں کی تعمیر کے لیے لکڑی برطانیہ سے منگوائی گئی تھی۔ لکڑی کے ڈھانچے میں لوہے کا استعمال کیا گیا۔
یہ حویلی وسطی ایشیا اور یورپی آرٹ کی بھی عکّاسی کرتی ہے۔بعض تاریخ داں کہتے ہیں کہ اس حویلی کی دیواروں کی تعمیر میں ایک خاص قسم کا مواد استعمال ہوا تھاجن میں انڈے اور مختلف دالیں شامل ہیں۔
مٔورخین کے مطابق، شام کے وقت اس حویلی کے صحن اور بالکونیوں میں مور ناچتے اور شیر گھوما کرتے تھے جب کہ حویلی میں بجنے والی کلاسیکل موسیقی ماحول کو سحر انگیز بنا دیتی تھی۔
حویلی میں فراہمیٔ آب کا اپنا نظام تھا اور ایک گہرے کنویں سے 30عدد چھوٹی چھوٹی نالیوں کے ذریعے پوری حویلی کو پانی فراہم کیا جاتا تھا جو آج بھی حویلی میں موجود ہے۔
یہ چار منزلہ حویلی گلی کے دونوں اطراف کو ایک پُل (چھتی) کے ذریعے ملاتی ہے۔ اس کا بیرونی حصّہ قلعہ نُما ہے، جب کہ اس کے درمیان سے ایک گلی گزرتی ہےجس کے دائیں اور بائیں جانب واقع بالائی حصّے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور دونوں اطراف بڑے بڑے دروازے ہیں، جو کہ اصل حالت میں آج بھی موجود ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد اس حویلی میں کشمیری مہاجرین کو آباد کیا گیا۔ بعدازاں، جنرل (ر) ضیاء الحق نے یہ حویلی ان سے خالی کروائی اور اسے معروف ایٹمی سائنس داں، عبدالقدیر خان کے حوالے کر دیا، تاکہ وہ یہاں سائنس کالج فار گرلز بنائیں لیکن بعض وجوہ کی وجہ سے یہ منصوبہ بھی مکمل نہ ہو سکا۔
سابقہ حکومتوں نے اس حویلی کو فاطمہ جناح ویمن یونی ورسٹی کا حصّہ بنانے اور لڑکیوں کے لیے فنِ تعمیر اور فنونِ لطیفہ کا ادارہ بنانے کی کوشش کی لیکن بعض وجوہ کی وجہ سے یہ منصوبے پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔
آج کل یہ حویلی نیشنل کالج آف آرٹس کے زیرِ استعمال ہے اور اسے فیلڈ کالج بنایا گیا ہے، جب کہ فاطمہ جناح یونی یورسٹی کے پاس اس کی اونر شپ ہے۔