• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
6ستمبر 1965 پاکستان کی تاریخ اور عسکری تاریخ کا وہ یادگار دن ہے جب پوری قو م نےمتحد ہو کر فوج کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن کر بھارت کی بزدلانہ جارحیت کا ناصرف دلیری کےساتھ مقابلہ کیا بلکہ دشمن کو شکست دی۔ اپنے سے چھ گنا بڑے ملک اور چھ گنا زیادہ عسکری قوت رکھنے کے باوجود پاکستانی فوج نے صرف جذبہ ایمانی سے اپنے دشمن کو شکست دی۔ ہمارے ہاں 1965کے بعد 1971 تک تو ہر سال یوم دفاع بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا رہا بلکہ کچھ عرصہ تو جنرل ضیاالحق کے دور میں بھی اس دن کے حوالے سے بڑ ی بڑی تقریبات ہوتی رہیں بلکہ فورٹریس سٹیڈیم میں پریڈ اور 7ستمبر کو یوم فضائیہ بھی منایا جاتا رہا اور اسلحے کی نمائش بھی ہوتی۔ اب زیادہ جوش واہگہ بارڈر پر پریڈ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
ہمیں یاد ہے کہ ہر سال اس روز واہگہ بارڈر ، باٹا پور اور کئی دوسرے شہروں میں جہاں سے بھارت کے ساتھ ہماری سرحدیں ملتی ہیں لوگ جوق در جوق جاتے بلکہ اپنے بچوں کو لے جاتے اور انہیں اپنے شہدا کے کارنامے بتاتے۔ لاہور سےشالامار باغ سے جب آپ واہگہ کی طرف روانہ ہوتے تو ایک زمانے میں یہ علاقہ کھلا اور کھیتوں پرمشتمل تھا۔ چنانچہ بی آر بی نہر کے قریب تک جو ہمارے فوجی جوان اور افسر شہید ہوئے ان کی یادگاریں موجود ہیں جہاں پر ان کے کارہائے نمایاں درج ہیں۔ لوگ وہاں جاتے اور تصاویر بنواتے۔یہ یادگاریں دور سے نظرآتی تھیں۔ اب تو کافی تلاش کے بعد ان تک پہنچا جاتا ہے۔ کاش ہم ان یادگاروںکی مناسب دیکھ بھال کریں۔ ویسے تو اس دفعہ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف نے باٹاپور جاکر شہدا کی یادگاروں پر پھول چڑھائے جو ایک اچھی روایت ہے۔ باقی صوبوں کے وزراکو بھی ایسا کرنا چاہئے۔
جن گھرانوں میں کوئی بھی شہید ہوتاوہ گھرانے بڑے فخر سے بیان کرتے پھر لوگ ستمبر کے شہداکے اہل خاندان کو بلاتے۔ ان سے ان کی زندگیوں کے بارے میں پوچھتے۔ مثلاً ہمیں یاد ہے کہ میجر عزیز بھٹی شہید، بریگیڈیئر شامی شہید کے اہل خانہ سے لوگ بہت گرمجوشی سے ملا کرتے تھے۔ ہم نے خود بھی جنگ اخبار میں میجر عزیز بھٹی شہید اور بریگیڈیئر شامی شہید کے اہل خانہ کے کئی مرتبہ انٹریوز کئے۔ ہمیں ایک مرتبہ بیگم عزیز بھٹی مرحومہ نے طفیل روڈ پر اپنے گھر پر بتایا کہ مالی طور پر ہمارے حالات کچھ اچھے نہ تھے لیکن میجر بھٹی اکثر کہاکرتے تھے تم فکر نہ کرو تمہارے حالات بہت اچھے ہو جائیں گے۔ انہیں اپنی شہادت کا پہلے سے علم تھا۔
اسی طرح ہم نے بریگیڈیئر شامی شہید کی بیوہ کابھی دومرتبہ انٹرویو شامی روڈ پر ان کے گھر پر کیا۔ بیگم صاحبہ کے بھائی خالد غیاث پی ٹی وی کے جی ایم سیلز بھی رہے اور انہوں نے پی ٹی وی میں مارکیٹنگ میں ایک نیاانداز دیا تھا۔
اسی طرح ہم نے جنگ ستمبر کے ایک ہیرو کرنل شفقت بلوچ کو ایک مدت تک اپنی نیلی رنگ کی کار میں کینٹ میں گھومتے دیکھا۔ اب ایک عرصہ ہو گیا وہ نظرنہیں آئے۔ ویسے تو ہم نے جنرل اے کے نیازی کو بھی سینٹ جان پارک کینٹ میں اپنا شملہ اونچا کرکے واک کرتے کئی مرتبہ دیکھا مگر وہ مشرقی پاکستان میں قوم کا شملہ نیچا کر آئے۔
ہمیں یاد ہے کہ جب لاہور پر حملہ ہوا تو لاہور یئے ڈنڈے سوٹے لے کر واہگہ بارڈر کی طرف چل پڑے تھے۔ یہ جذبہ ایمانی اور اپنی فوجوں کے ساتھ اظہار یکجہتی تھا۔ جب لاہور کی سڑکوں سے فوجی ٹرک گزرا کرتے تو لوگ جوش و جذبے سے اپنےفوجیوں کا استقبال کرتے اور کھانے پینے کے تھیلے ٹرکوں میں ڈال دیا کرتے۔ اس جوش اور جذبے کو الفاظ کا روپ نہیں دیا جاسکتا۔
ہمارا اپنا تعلق فوجی گھرانے سے ہے۔ میرے والد برٹش آرمی میں کیپٹن تھے اور دوسری جنگ عظیم انڈونشیا اور برما فرنٹ پر لڑی تھی جبکہ ہمارے چچا 1965کی جنگ کے آخری شہید ہیں۔ کیپٹن جرجیس ناگی کے نام پر لاہور کینٹ اور راولپنڈی وسٹیج میں سڑک ہے جس پر لاہور کے کور کمانڈر کا گھر ہے۔ اسی طرح ہمارے ایک اور عزیز نیول کمانڈر احسان ناگی بھی 1965 کی جنگ میں شہید ہوئے۔
آج ہمارے درمیان 1965 کی جنگ میں حصہ لینے والے فوجی جوان اورافسران کی تعدادآٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے۔ چنانچہ ان غازیوں کو تعلیمی اداروں میں بلایا جائے۔ ان سے وہ واقعات سنے جائیں افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کی نسل کو 1965کی جنگ کے بارےمیں کچھ پتہ نہیں۔ ان واقعات پر دھول پڑتی جارہی ہے کہیں یہ تاریخی اور بہادری کے واقعات گہری دھول میں نہ چھپ جائیں۔
اس وقت کے بھارتی فوج کے سربراہ جنرل نیر پرشاد کی یہ خواہش دل میں رہ گئی کہ وہ شام کو جمخانہ کلب میں شراب پیئیں گے۔ البتہ وہ ہماری ایک ڈبل ڈیکر بس جو کہ رات کو بارڈر پر کھڑی رہتی تھی اس کو ضرور پکڑ کر امرتسر لے گئے اور یہ تاثر دیا کہ ہم نےلاہور شہر پر قبضہ کرلیا ہے۔ دوسری طرف باٹا پور فیکٹری سے ہزاروں جوڑے جوتے بھی چوری کرلے گئے۔
نوجوان نسل کو انڈین فلم سٹاروں کا تو پتہ ہے کون کون سے ہیں اورکون سی نئی فلمیں آ رہی ہیں کون سے گانے ہٹ ہیں لیکن انہیں یہ نہیں پتہ کہ کیسے کیسے ہمارے شہدا نے قربانیاں دیں، ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے اپنے جہازوں کو ٹکرا دیا چند سیکنڈ میں بھارت کے چھ جہاز گرا دیئے۔ ایئر کموڈور ایم ایم عالم مرحوم جن کا آخری انٹرویو کرنے کا ہمیں اعزاز حاصل ہے پاکستان کی تاریخ اور ایئرفورس کی دنیا کی تاریخ کا وہ ہیرو جس نے دشمن کے چھ جہاز چند سیکنڈ میں سرگودھا میں گرائے تھےاور پوری جنگ ستمبر میں دشمن کے 9جہاز گرائے۔ ایسا وطن سے پیار اور محبت کرنےوالا انسان جو 1971 کے بعد پھر بنگلہ دیش نہ گیا۔ جو یہ کہتا تھا کہ میں مشرقی پاکستان سے آیا تھا اور جب بنگلہ دیش دوبارہ مشرقی پاکستان بنے گا تو پھر جائوں گا۔ ایک ایسا بنگالی جسے پاکستان کی مٹی سے اتنا پیار تھا۔
حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایم ایم عالم روڈ پر اس ہیرو کے کارنامے اور حیات ِ زندگی کے بارے میں کوئی پتھر نصب کرے گی ہمیں تو وہ آج تک نظر نہیں آیا۔
فلائٹ لیفٹیننٹ یونس شہید ، فلائٹ لیفٹیننٹ سرفراز رفیقی، پھر وِنگ کمانڈر سیسل چوہدری (جو کہ کرسچین تھے) ان لوگوں نے اپنے پیارے وطن کے لئے کیا کچھ نہ کیا اور بھی کرسچین مثلاً کرنل کے ایم رائے اور دیگر نے لازوال قربانیاں دیں۔ جنگ ستمبر پر کئی کتابیں شائع ہوئیں جو آج مارکیٹ میں دستیاب نہیں مثلاً حکومت نے 1966 میں جنگ ِ ستمبر کے بارے میں ایک سرکاری کتاب شائع کی جو آج کہیں نہیں مل رہی۔ اسی طرح عنایت اللہ مرحوم نے فضائیہ کے کارناموں پر کتاب شائع کی۔ اسی طرح ایک اور صاحب نے بڑی صخیم کتاب شائع کی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ستمبر کی جنگ کے وہ تاریخی واقعات جو ناقابل فراموش ہیں ان کو ہائی لائٹ کریں۔ میجر عزیز بھٹی شہید (نشان حیدر) اسی طرح میجر طفیل شہید (نشان حیدر) کیپٹن سرور شہید (نشان حیدر) ۔ راشد منہاس (نشان حیدر) سوار محمد حسین (نشان حیدر)، میجر شبیر شریف (نشان حیدر) ، میجر محمد اکرم (نشان حیدر) لانس نائیک محمد محفوظ (نشان حیدر) ، کیپٹن کرنیل شیرخان(نشان حیدر) ، حوالدار لالک جان (نشان حیدر)
پاک افواج کے موجودہ سربراہ جنرل راحیل شریف کے خاندان میں بھی تین نشان حیدر ہیں۔
آئی ایس پی آر کو ایک بہت صخیم کتاب 1948 سے لے کر اب تک شہید ہونے والوں پر مرتب کرنی چاہئے۔ اگرچہ یہ ایک محنت طلب کام ہے مگر فوج کے پاس تمام ریکارڈ ہے اس کی مدد سے یہ کتاب بمعہ تصاویر مرتب کی جاسکتی ہے۔
پتہ نہیں ہمارے لوگوں میں یہ جذبہ ایمانی اور جوش کیوں کم ہوتا جارہا ہے۔ نصاب میں جنگ ستمبر کے ہیروز کے کارناموں کو شامل کیاجائے۔ صرف قومی نغمے لگانے سے ’’ہم زندہ قوم ہیں ہم پائندہ قوم ہیں‘‘ نہیں بنیں گے بلکہ زندہ قوم کو زندہ رکھنےکے لئے اپنے شہدا اور خصوصاً ستمبر کی جنگ کے شہدا کے ناموں کو زندہ رکھنا ہوگا۔ ان کے کارنامے بیان کرناہوں گے۔ آج بھی ان شہدا کی اولادوں کو تعلیمی اداروں میں مدعو کیاجائے ان کےساتھ شامیں منائی جائیں اور جوابھی حیات ہیں (خدا ان کو لمبی عمر دے) ان کو اعزاز اور عزت کے ساتھ بلایا جائے۔ ان کی آڈیو، ویڈیو ریکارڈنگ کی جائے۔تمام میڈیا سیاسی لوگوں کے انٹرویوز نشر کرنے، ٹیلی کاسٹ کرنے اور شائع کرنے میں تو بہت پیش پیش رہتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان لوگوں کے انٹرویوز کئے جائیں اگر جذبہ ایمانی اور جوش زندہ رکھناہے تو پھر ان ہیروز کے کارناموں کو بھی بار بار بیان کرنا ہوگا۔
آخر میں ہم نشترکالج ملتان کے سابق پرنسپل پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کے نمائندے پروفیسر ڈاکٹر طارق اقبال بھٹہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے بابا علا ئو الدین کی مالی مدد کی اور ڈھیروں دعائیں حاصل کیں۔
تازہ ترین