اگلے دن شام کو لاؤنج میںٹیلی ویژن دیکھتے ہوئے میرے بیٹے سخی عثمان نے یکدم سوال پوچھا ، بابا یہ ا سکرپٹ رائٹر کون ہوتا ہے ؟ میں نے بڑی حیرت سے بیٹے کی طرف دیکھا اور سوچا کہ تیسری جماعت کے اس بچے کو اس اصطلاح کا خیال کہاں سے آگیا !پھر خیال آیا کہ ہو نہ ہو یہ پچھلے دو تین ہفتوں سے پاکستانی نیوز چینلوں کچھ زیادہ دیکھنے کا نتیجہ ہوسکتا ہے ۔ اب میں نے عام فہم زبان اور انداز میں اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ بیٹا اسکرپٹ رائٹر وہ ہوتا ہے جو کوئی کہانی ، ڈرامہ یا فلم لکھتا ہے اور اسی اسکرپٹ رائٹر کا لکھا ہوا یہی فلم یا ڈرامہ بعد میں مختلف کرداروں پر پکچرائز کرکے پلے کیا جاتا ہے ۔ میرے اس جواب پر حیران ہونے کی باری اب سخی عثمان کی تھی ۔ کہنے لگا بابا یہ فلم ، ڈراموں اور اس طرح کے دوسرے شوز میںمختلف کردار جو ڈائیلاگ بولتے ہیں کیا وہ ان کے اپنے لکھے ہوئے نہیں ہوتے؟ میں نے کہا نہیں بیٹا وہ تو بس مجبورِ محض ہوتے ہیں۔ اپنی طر ف سے ایک جملہ تو کیا زیر زبر تک بھی تبدیل نہیں کرسکتے ۔ یہ سارا کام اسکرپٹ رائٹر کا ہی ہوتا ہے۔
چونکہ ہم بھی فارغ بیٹھے ہوئے تھے اس لئے وقت گزاری اور بیٹے کو ایجوکیٹ کرنے کی غرض سے اس ٹاپک کی مزید وضاحت شروع کردی اور اسے بتایا کہ ا سکرپٹ رائٹنگ کے عمل میں سب سے پہلا کا م ـ"One Liner"کا لکھنا ہوتا ہے ، اس کا مطلب چند پیراگرافس یا چند صفحات پر مشتمل ایک کہانی لکھنا ہوتا ہے ۔ دراصل تمام ا سکرپٹ اسی کہانی کے اوپر کھڑا کیا جاتا ہے ۔"One Liner"لکھے جانے کے بعد اس کو مختلف قسطوں یا Episodesمیں تقسیم کیا جاتا ہے ۔اگلا مرحلہ کرداروں کے تخلیق کرنے کا ہوتا ہے ۔ کہانی کی ضرورت کے مطابق مختلف قسم کے کردار تخلیق کئے جاتے ہیں ۔ اس سارے کام کے بعد ڈرامے یا فلم کا تفصیل کے ساتھ باقاعدہ اسکرپٹ تحریر کیا جاتا ہے جس میں مختلف Scenesکے مناظر سے لے کر ڈائیلاگ تک ہر چیز تفصیلاً لکھی جاتی ہے۔
’’بابا عام طور پر یہ اسکرپٹ کون سے لوگ لکھتے ہیں ‘]، اس سوال کے جواب میں ہم نے انہیں بتایا کہ ا سکرپٹ رائٹر مختلف قسم کے ہوتے ہیں ۔ ان میں کچھ توبہت ہی پروفیشنل قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور بڑی محنت سے اسکرپٹ تحریر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لوگ ا سکرپٹ رائٹنگ کا بڑا بھاری معاوضہ بھی لیتے ہیں ۔ ان پروفیشنل لوگوں کے علاوہ کچھ نان پروفیشنل یا ’’شوقیہ فنکار‘‘ ٹائپ اسکرپٹ رائٹر بھی ہوتے ہیں ۔ ان لوگوں کے ا سکرپٹ کئی دفعہ بڑے ہِٹ بھی ہوجاتے ہیں مگر زیادہ تر ان کے اسکرپٹ کا مقدر پٹنا ہی ہوتا ہے ۔تیسری قسم میں وہ اسکرپٹ رائٹر ہیں جو کہ باقاعدہ طور پر اس پروفیشن سے وابستہ تو نہیں ہیں مگر وراثتی طور پرنسل در نسل اس کام پرطبع آزمائی کرتے آرہے ہیں ۔ اسکرپٹ رائٹروں کی یہ قسم عام طور پر معاوضہ لینے کی بجائے معاوضہ دینے کو زیادہ ترجیح دیتی ہے (یہ اور بات ہے کہ بعض اوقات معاوضہ دینے میں ڈنڈی مارنے کی شکایات بھی عام ہیں )۔ ان کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ بڑے مستقل مزاج قسم کے اسکرپٹ رائٹر ہوتے ہیں ۔ خدانخواستہ اگر ایک اسکرپٹ ناکام بھی ہوجائے تو اسے چھوڑ کر کسی نئے اسکرپٹ پر کام شرو ع کردیتے ہیں ۔ ان خصوصیات سے کسی حد تک یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان اسکرپٹ رائٹرز کو جب بھی اپنے مطلوبہ کردار مل جاتے ہیں یہ جَھٹ سے اسکرپٹ پہ کام شروع کردیتے ہیں۔ ان کے اسکرپٹس کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کے اسکرپٹس کے کردار بڑے ہی تابعدار ، سمجھدار اور سعادت مند قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔یہ کردار اپنے اسکرپٹ رائٹر کے لکھے ہوئے ہر جملے کو اس کی صحیح روح کے مطابق ادا کرکے خوب داد ِتحسین وصول کرتے ہیں۔ان اسکرپٹ رائٹروں کی ایک اور خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ ’’ٹو اِن ون‘‘ہوتے ہیں ، مطلب یہ کہ اسکرپٹ رائٹنگ کے ساتھ ساتھ ڈائریکشن کا کام بھی یہ خود انجام دیتے ہیں ۔ میرا لیکچر سنتے سنتے ایسے لگا کہ سخی عثمان شاید بور ہورہا ہے، تو میں نے اس کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لئے پوچھا کہ بیٹے سن رہے ہو ناں؟کہنے لگا ہاں جی بابا میں سُن رہا ہوں ، اسکرپٹ رائٹر وں کے بارے میں تو مجھے کافی آگاہی ہوچکی ہے اور اب مجھے پلیز یہ بتایئے کہ ایک اچھے اسکرپٹ کے اندر کن کن خوبیوں کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے ؟"Good Question"،بیٹے میں یہاں بتانا چاہوں گا کہ ایک اچھے اسکرپٹ کے اندر مندرجہ ذیل خوبیوں کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے ۔
1۔ایک اچھے اسکرپٹ کی سب سے پہلی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس کی زبان سادہ ، سلیس اور عام فہم ہو۔گالم گلوچ اور بدزبانی سے تو بالکل پرہیز کرنا چاہئے۔ طرز ِ تخاطب بھی بہت شائستہ اور مہذب ہونا چاہئے،اوئے، او،وغیرہ جیسے طرزِ تخاطب سے حد درجہ اجتناب کرنا چاہئے۔ 2۔زبان کے ساتھ ساتھ اسکرپٹ کے کرداروں کی طرف سے کسی قسم کی Loose Talkقطعاً نہیں ہونی چاہئے ۔3۔ایک اچھے اسکرپٹ کے لئے ضروری ہے کہ وہ حقیقت کے قریب ترین لگے ۔ اسکرپٹ رائٹر کبھی بھی اپنے اداکاروں کی زبان سے ایسے جملے ، بیانات اور مطالبات نہ کروائے جو کسی الف لیلوی داستان کا حصہ معلوم ہوں ۔ 4۔اسکرپٹ بہت زیادہ لمبا نہیں ہونا چاہئے، اس کی لمبائی ایک مناسب حد تک ہونی چاہئے اور تمام Episodesمیں بھی ایک توازن ہونا چاہئے۔ 5۔اسکرپٹ کے تمام کرداروں کو ایک ہی دفعہ Introduceنہیں کروانا چاہئے۔ہر کردار کو موقع کی مناسبت سے اسکرپٹ میں لانچ کرنا چاہئے۔اس سے ایک تو حاضرین کی دلچسپی اور سَسپنس برقرار رہتا ہے اوردوسرا اسکرپٹ پٹنے سے بچ جاتا ہے ۔ 6۔ایک اچھے اسکرپٹ کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ اداکار جب کوئی جملہ یا ڈائیلاگ بولے تو ایسا لگے کہ یہ جملہ یا ڈائیلاگ اداکار کا اپنا تخلیق کردہ ہے ۔کسی بھی صورت میں یہ محسوس نہ ہو کہ اداکار اسکرپٹڈ جملہ بول رہا ہے ۔ اگر ایسا ہوا تو حاضرین فوراً پلے سے اپنی دلچسپی ختم کردیں گے۔ 7۔ایک اچھے اسکرپٹ کی ایک اور خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں کرداروں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔اس سے کئی دفعہ حاضرین میں کنفیوژن پیدا ہوتی ہے اور کھیل میں دلچسپی بھی کم ہوجاتی ہے ۔کاسٹ شدہ اداکاروں کے علاوہ ’’ایکسٹراز‘‘کی تعداد بالکل ایک حد سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے کیونکہ یہ’’ ایکسٹراز ‘‘کئی دفعہ اصل کرداروں کو بھٹکا کر سارے اسکرپٹ کا بیڑہ غرق کردیتے ہیں ۔ 8۔بعض کرداروں میں یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ عین ڈائیلاگ ڈیلور کرنے کے وقت جملہ بھول جاتے ہیں ۔ ایک اچھے اسکرپٹ کے اندر اس چیز کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اصل کردار کے ساتھ ایک ضمنی کردار بھی اسکرپٹ کے اندر ضرور شامل کرنا چاہئے تاکہ مناسب موقع پہ یہ ضمنی کردار اصل کردار کو لقمہ دے سکے۔ 9۔پرُانے معیار کے مطابق ہر اسکرپٹ میں کوئی نہ کوئی اخلاقی سبق یا کوئی نہ کوئی مقصدیت ضرور ہونی چاہئے۔مگر فی زمانہ یہ ضروری نہیں رہا۔ کئی دفعہ بغیر کسی اخلاقی سبق یا مقصدیت کے محض انٹرٹینمنٹ کی غرض سے بھی اسکرپٹ لکھے اور چلائے جاتے ہیں ۔مگر یاد رہے کہ ڈانس بھنگڑا اور اس قسم کی دوسری چیزیں ان انٹر ٹینمنٹ کی غرض سے لکھے جانے والے اسکرپٹس کے اندر ہونی بہت ضروری ہیں ۔ 10۔ایک اچھے اسکرپٹ کے اندر کسی کردار کو کبھی بھی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہئے۔ اسکرپٹ رائٹر کا یہ اخلاقی فرض ہے کہ جس طرح ایک مناسب اور باعزت طریقے سے اور مناسب موقع پر ہر اداکار کی اپنے اسکرپٹ کے اندرانٹری کرواتا ہے بالکل اسی طرح اس کی باعزت Exitکا خیال رکھے ۔ یہ نہ ہو کہ انٹری کرواکے اسے بے یارومدد گار چھوڑ کر بھول جائے اور وہ ’’جھلوں‘‘کی طرح Exitوالادروازہ تلاش کرتاپھرے۔
’’سخی عثمان‘‘، دروازے پر یہ آواز سنتے ہی میرا بیٹا بھاگ کے باہر نکل گیا کہ شاید اس کا دوست اسے بلانے کے لئے آیا تھا کیونکہ قریبی پارک میں ان کے فٹ بال کھیلنے کا وقت ہوچکا تھا۔