ڈاکٹر طاہر القادری کو دلی مبارکباد کہ وہ 43دن تک ایئر کنڈیشنڈ اور تمام تر سہولتوں سے آراستہ کنٹینر میں مراقبے کے بعد گزشتہ روز باہر نکلے اور کھلے میدان میں بیٹھے مرد و زن اور بچوں کی خیر و عافیت دریافت کی، اصل لیڈر وہی ہوتے ہیں جن میں دکھاوا نام کی کوئی چیز نہ ہو، شہباز شریف کی طرح نہیں کہ جب سے سیلاب آیا ہے، وہ جاتی عمرا کے محل میں واقع اپنے تھرڈ کلاس (جی ہاں سچ کہہ رہا ہوں) بیڈ روم میں استراحت یا سی ایم ہائوس کے پروٹوکول والے ماحول کے مزے لے رہے ہوں بلکہ وہ روزانہ پنجاب کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سیلاب زدگان کو دلاسا دینے اور ان کے لئے کئے جانے والے امدادی کام کی نگرانی کے لئے ان کے درمیان ہوتے ہیں اور اکثر ’’گوڈوں گوڈوں‘‘ تک پانی میں بھی اتر جاتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ صرف ’’دکھاوا‘‘ ہے عزیزی بلاول نے بھی گزشتہ دنوں سیلاب کے پانی میں اتر کر اس ’’دکھاوے‘‘ کا مظاہرہ کیا۔ لیکن ہمارے طاہر القادری کا تعلق سیلاب زدگان کے ساتھ دکھاوے کا بھی نہیں، چنانچہ وہ محض مجھے اور آپ کو خوش کرنے کے لئے ان کے قریب تک نہیں پھٹکے، ان کا تعلق تو اپنے ادارے کے مظلوم ملازمین، غریب دہاڑی داروں اور معصوم مریدوں کے ساتھ ہے۔ چنانچہ گزشتہ روز انہوں نے سوچا کہ 43دن کے بعد ہی سہی، بارش، طوفانی ہوائوں اور لوکے تھپیڑوں کا مقابلہ کرنے والے اس طبقے کو کم از کم اپنا دیدار ہی کرا دیا جائے، ویسے ہی اتنے دن کنٹینر میں ’’نظر بند‘‘ رہنے کی وجہ سے تازہ ہوا کھانے کوبھی ان کا جی چاہ رہا تھا، موسم بھی خوشگوار تھا، چنانچہ انہوں نے کنٹینر سے باہر قدم رنجہ فرمایا اور جب وہ ان لوگوں کے پاس پہنچے تو اردگرد پھیلے ہوئے ’’انقلاب‘‘ کی بد بو کی وجہ سے انہیں اپنے ناک پر مسلسل رومال رکھنا پڑا۔ اس کے علاوہ قیمتی لباس میں ملبوس طاہر القادری صاحب کے سر پر ایک ملازم چھتری بھی تانے ہوئے تھا، جس پر میڈیا نے طرح طرح کی باتیں بنائیں، اور اس کے جواب میں قادری صاحب نے فرمایا کہ ناک پر رومال انہوں نے بدبو کی وجہ سے نہیں، انفیکشن کی وجہ سے رکھا ہوا تھا اور یہ کہ اس طرح کے اعتراض کرنے والے صحافیوں نے ’’لفافے‘‘ لے رکھے ہیں!
میرے خیال میں طاہر القادری صاحب سے وضاحت میں یہاں غلطی ہو گئی۔ میں انہیں ایک واقعہ سناتا ہوں آئندہ اس قسم کی صورتحال میں وہ اس سے استفادہ فرما سکتے ہیں۔ ایک ارب پتی خاتون ایک یہودی کی دکان پر قالین خریدنے گئی۔ اسے لاکھوں ڈالر کا ایک قالین پسند آیا، مگر جب وہ خریدنے لگی تو اس نے محسوس کیا کہ اس میں سے بدبو آ رہی ہے۔ اس نے دکاندار سے کہا کہ وہ یہ قالین نہیں خرید سکے گی کیونکہ اس میں سے بو آ رہی ہے۔ اس پر یہودی دکاندار نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر رکوع کی حالت میں جاتے ہوئے کہا ’’میڈم آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے بو قالین سے نہیں مجھ سے آ رہی ہے!‘‘ طاہر القادری صاحب بھی ’’لفافہ جرنلسٹوں‘‘ سے کہہ سکتے تھے کہ برادرم، بو باہر کی نہیں یہ میری اپنے اندر کی بو ہے۔ جس کی وجہ سے میں نے ناک پر رومال رکھا ہوا ہے‘‘ اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ بات وہیں ختم ہو جاتی بلکہ پبلک کو یہ پیغام بھی پہنچتا کہ اصلی لیڈر وہ ہوتا ہے جو دوسروں پر اگر الزام تراشی کر تا ہے تو وہ اپنے بارے میں بھی حقیقت بیانی سے بھی کام لے سکتا ہے۔ مگر افسوس قادری صاحب نے اپنی عظمت کے بیان کا یہ زریں موقع ہاتھ سے گنوا دیا!
دراصل ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی جماعت کے کئی چہرے ہیں، ورنہ ایک چہرے سے کہاں کام چلایا جا سکتا ہے؟ ان ملٹی پل چہروں کا ایک فائدہ تو یہی ہے کہ آپ غیر ملکی پریس میں توہین رسالت کے بل کی مخالفت کا ’’سہرا‘‘ اپنے سر باندھ سکتے ہیں اور پاکستان آ کر اس بل کی مخالفت کو اپنے کریڈٹ میں ڈال سکتے ہیں۔ توحید کی بات بھی کر سکتے ہیں اور اپنے مریدوں سے سجدے بھی کروا سکتے ہیں۔ عاشق رسول ﷺ بھی کہلا سکتے ہیں اور رسول کریم ﷺ کی زبان سے (نعوذ باللہ) یہ فرمائش بھی کروا سکتے ہیں کہ ’’طاہر القادری، میرے لئے لاہور مدینہ اور مدینہ لاہور کے پی آئی اے کے ٹکٹ اور لاہور میں قیام و طعام کا انتظام تم نے کرنا ہے!‘‘ اسی طرح آپ دو مختلف مکاتب فکر کے حامل صدیوں پہلے کے اماموں کی شاگردی کا دعویٰ بھی کر سکتے ہیں۔ آپ جب چاہیں کوئی بھی بیان دے سکتے اور پھر اس سے مکر بھی سکتے ہیں۔ آپ اپنے بیوی بچوں سمیت کینیڈا کی شہریت اختیار کر سکتے ہیں اور ’’بلاوا‘‘ آنے پر ’’لندن‘‘ میں عمران خاں سے پروگرام طے کر کے اسلام آباد کے کنٹینر میں بیٹھ کر پاکستانی عوام کے مسائل بھی حل کر سکتے ہیں۔ ایک چہرے پر کئی چہرے سجانے کا کوئی ایک فائدہ ہو تو بتایا جائے۔ جن کا ایک چہرہ ہوتا ہے ان بچاروں کو تو بس اسی ایک پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے!
اور اب چلتے چلتے آپ کو ایک دلچسپ بات بتاتا جائوں۔ طاہر القادری صاحب کے دھرنے میں گزشتہ جمعرات کو جو ’’ڈانس پارٹی‘‘ منعقد ہوئی اور جس میں قادری صاحب نے بھی اگرچہ حسب توفیق فنِ رقص میں اپنے کمال کا مظاہرہ کیا۔ مگر اس میں میلہ اگر کسی نے لوٹا تو وہ بیلے رقص کرنے والے صاحب تھے، میں نے انہیں رحیق عباسی سمجھا جو پارٹی کے اعلیٰ عہدیدار ہیں۔ مجھے خود بھی حیرت تھی کہ اتنے معقول آدمی کو ’’بھرے میلے‘‘ میں بیلے رقص میں اپنے فن کا سکہ جمانے کی کیا ضرورت تھی۔ چنانچہ مجھے اس وقت خوشی ہوئی جب منہاج القرآن کے ایک کارکن نے مجھے فون کر کے بتایا کہ جناب وہ رقاص رحیق عباسی نہیں بلکہ ایک نوجوان جس کا نام راجہ ندیم تھا۔ یہ رقص اس نے کیا تھا چنانچہ میں نے یہ وضاحت اپنے کالم میں شائع کر دی مگر ’’بریکنگ نیوز‘‘ یہ ہے کہ بیلے ڈانسر نہ تو رحیق عباسی تھے نہ راجہ ندیم تھا بلکہ ’’برادرم حامد میر کے مطابق یہ صاحب فن، عمر ریاض عباسی تھے، جو پارٹی کے مرکزی ترجمان ہیں!
میں ایک بار پھر قائل ہو گیا ہوں کہ لیڈروں کا ایک چہرے سے کام نہیں چل سکتا۔ ضروری ہے کہ ان کے ایک چہرے پر کئی اور چہرےبھی سجے ہوئے ہوں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئیں!