زیادہ پرانی بات نہیں جب امریکی سراغ رسانوں نے اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں ڈھونڈ نکالا تھا۔ مئی کی ایک گرم رات کو وہ افغانستان سے ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر بلا روک ٹوک ایبٹ آباد ا ٓئے ،آپریشن مکمل کیا اور اسامہ بن لادن کی لاش کو اپنے ساتھ لے گئے۔ ایبٹ آباد آپریشن نے بہت سے سوالات کو جنم دیا تھا کیونکہ پاکستانی عوام کو یہ خوش فہمی تھی کہ وہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہیں اور ان کے انٹیلی جنس ادارے اپنی مہارت میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ ان سوالات نے جس بحث کو جنم دیا وہ بحث کسی منطقی انجام تک نہ پہنچ سکی کیونکہ میڈیا نے اچانک میمو گیٹ ا سیکنڈل کا طوفان اٹھایا اور اس طوفان میں آصف علی زرداری کی حکومت ڈولنے لگی۔ ذرا یاداشت پر تھوڑا زور دیجئے جب میڈیا میں میمو گیٹ سیکنڈل کا طوفان کھڑا ہوا اور کئی سیاسی و صحافتی گورکن حکومت کی قبر کھود چکے تو قبر کو لاش فراہم کرنے کیلئے نواز شریف نے جسٹس افتخار محمد چوہدری کی عدالت میں ایک درخواست دائر کردی جس میں حکومت کیساتھ ساتھ اس وقت کے آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ کو بھی فریق بنادیا گیا۔ یاد کیجئے! ہر شام مختلف ٹی وی چینلز پر زرداری حکومت کے خاتمے کی نوید دی جاتی، ہر صبح مختلف کالموں میں یہ دعوے کئے جاتے کہ یہ حکومت صبح گئی یا شام گئی لیکن اس خاکسار نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ میڈیا خود کو بادشاہ گر نہ سمجھے۔ میں نے اپنے کالموں اور ٹی وی پروگراموں میں بار بار یہ کہا کہ حکومت کے خاتمے کا واحد آئینی راستہ صدر زرداری کا استعفیٰ ہے اور وہ یہ استعفیٰ نہیں دینگے۔ میری زبان بند کرنے کیلئے خفیہ اشاروںپر یہ ا لزام لگادیا گیا کہ مجھے آصف علی زرداری نے ایک بلٹ پروف گاڑی تحفے میں دی ہے لیکن میں نے اس الزام کو نظر انداز کردیا۔ آصف علی زرداری پر کوئی الزام ثابت نہ ہوا لیکن انہوں نے امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی سے استعفیٰ لے کر اور آرمی چیف کو ایک اور ایکسٹینشن دے کر بحران ختم کردیا تھا۔ ان کی حکومت نے اپنی مدت پوری کی۔ نواز شریف کی سیاست اور بڑے بڑے صحافیوں کی صحافت غلط ثابت ہوگئی۔
افسوس کہ اپنے آپ کو بادشاہ گر سمجھنے والوں نے اپنی پچھلی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ وہ یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ پاکستان بدل چکا ہے۔ انہوں نے پاکستان کو مصر اور تھائی لینڈ سمجھنے کی غلطی کی۔ چند ماہ پہلے ہمارے دوست عمران خان نے پرانے پاکستان کے کچھ پرانے سازشی کرداروں کے ساتھ مل کر نئے پاکستان کا نعرہ لگایا تو میڈیا میں پھر سے ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ ٹی وی اینکرز اور کالم نگاروں میں بادشاہ گری کی دوڑ ایک ذہنی بیماری میں بدل گئی اور میرے کچھ پرانے مہربان اس زعم میں مبتلا ہوگئے کہ صرف وہی اس قوم کے اصل مسیحا ہیں۔ حکومت کے خاتمےکی کئی تاریخیں دی گئی، اس مرتبہ بھی میرا یہ عاجزانہ موقف تھا کہ حکومت کے خاتمے کا واحد آئینی راستہ نواز شریف کا استعفیٰ ہے اور نواز شریف کسی صورت استعفیٰ نہیں دیں گے۔ میں نے بار بار یہ عرض کی کہ جنرل راحیل شریف کو ایمپائر سمجھنے کی غلطی نہ کی جائے کیونکہ وہ کسی کے حق میں انگلی نہیں اٹھائیں گے۔ ایک دفعہ پھر یہ الزام لگادیا گیا کہ میں نے اور کچھ دیگر صحافیوں نے نواز شریف سے بھاری رقم بٹور لی ہے۔ الزام لگانے والوں کے پاس میرے تمام بنک اکائونٹس اور جائیداد کی تفصیلات موجود تھیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے جھوٹ بولا کیونکہ وہ مجھے زور زبردستی سے نئے پاکستان کے قافلے میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ میرے علاوہ کچھ دیگر ساتھی بھی اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور ایک دفعہ پھر یہ ثابت ہوگیا کہ میڈیا نہ کل بادشاہ گر تھا نہ آج بادشاہ گر ہے، جو نواز شریف کو گرانا چاہتے تھے وہ بھی ناکام رہے جو عمران خان کو جھکانا چاہتے تھے وہ بھی ناکام رہے البتہ اس ساری لڑائی میں میڈیا نے اپنا بہت نقصان کرلیا۔ حکومت کے خاتمے کی بار بار تاریخیں دینے والے اب کھسیانے بلّے بنے نظر آتے ہیں اور ادھر ادھر سے کھمبے ڈھونڈ کر انہیں نوچ رہے ہیں۔ نواز شریف حکومت دبائو سے نکل رہی ہے لیکن حکومت کے وزیروں کی اکثریت اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کا ناقدانہ جائزہ لینے کے لئے تیار نہیں۔ کچھ وزراء کی رعونت اور تکبر واپس آرہا ہے۔ یہ وز راء اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ عمران خان اور طاہر القادری شایدمستقل طور پر ناکام ہوگئے ہیں۔ وہ یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ حکومت کو بچانے میں ان جماعتوں کا کردار زیادہ اہم ہے جو حکومت سے باہر تھیں۔
اس حکومت کی کارکردگی کا پول وفاقی کابینہ کے پچھلے اجلاس میں کھل گیا جہاں بجلی کے بلوں میں ہونے والی ملک گیر غلطیوں کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی بلکہ وزراء حضرات ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہے۔ دوسری طرف کراچی میں رینجرز کے کردار کے باعث ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں پیدا ہونے والی کشیدگی کی آگ پر پانی ڈالنے کی بجائے کچھ وفاقی وزراء نے پٹرول ڈالا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عمران خان اپنے لانگ مارچ اور دھرنے کی ناکامی کے باوجود ناکامی کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ انہوں نے کراچی کے بعد لاہور میں بھی ایک جلسہ کرڈالا ہے۔ ان کی سول نافرمانی کا اعلان بری طرح ناکام ہوچکا ہے کیونکہ خود ان کے اپنے اہل خانہ اور شاہ محمود قریشی نے بجلی کے بل ادا کردئیے ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں یقین ہے کہ نواز شریف حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرے گی۔ شاہ محمود قریشی کو یقین ہے کہ یہ حکومت جلد ہی اپنے پائوں پر کوئی ایسی کلہاڑی چلائے گی جس کے بعد حکومت کا کھڑے رہنا مشکل ہوجائے گا۔ میں نے پچھلے کالم میں شاہ محمود قریشی کی خاندانی سیاست کے پس منظر میں ان کی موجودہ سیاست پرتبصرہ کیا تھا۔ قریشی صاحب نے میری تمام تر گستاخیوں کے باوجود مجھے فون کیا اور دوستانہ لب و لہجہ برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ آپ جو مرضی لکھیں یہ آپ کا حق ہے لیکن آپ نے یکطرفہ موقف پیش کیا۔ میں نے پوچھا کہ آپ کا کیا موقف ہے؟ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آپ نے یہ تو لکھ دیا کہ میں نے نوا ز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومتوں میں باریاں لیں اور سیاسی وفاداریاں تبدیل کیں لیکن یہ نہیں لکھا کہ جاوید ہاشمی ایک ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کی کابینہ کے وزیر بنے، پھر تحریک استقلال میں گئے، وہاں سے غیر جماعتی الیکشن لڑ کر مسلم لیگ(ن) میں آئے وہاں سے لڑ کر تحریک انصاف کے قافلے میں شامل ہوئے اور پھر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ خفیہ ڈیل کرکے تحریک انصاف بھی چھوڑ دی۔ میں قریشی صاحب کو جواب میں کہہ سکتا تھا کہ میرے کالم کا موضوع جاوید ہاشمی نہیں بلکہ آپ تھے تاہم میں نے ان کی تمام گزارشات کو تحمل سے سنا۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ نے لکھا میں نے ہر دور میں اقتدار کے مزے لوٹے لیکن جناب میں نے تو پیپلز پارٹی کو اس کے دور اقتدار میں چھوڑا اور اس لئے چھوڑا کہ پیپلز پارٹی ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑنا چاہتی تھی۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزارت خارجہ سے استعفیٰ دے کر میں قومی اسمبلی میں آیا میں نے اپنی نشست سے بھی استعفیٰ دیا اور تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی جو اقتدار سے باہر تھی۔ انہوں نے مجھے یاد دلایا کہ اویس لغاری بھی تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے لیکن انہوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ قریشی صاحب یہ کہنا چاہتے تھے کہ ہوسکتا ہے کہ کسی زمانے میں وہ داغی ہوں لیکن انہوں نے عمران خان کو ایک باغی بن کر جائن کیا۔ میں نے ان کے ساتھ ز یادہ بحث نہیں کی کیونکہ وہ اپنا موقف پیش کررہے تھے جو ان کا حق تھا۔ وہ داغی ہیں یا باغی ہیں یہ فیصلہ مجھے نہیں تاریخ کو کرنا ہے ۔ جاوید ہاشمی کے مستقبل کا فیصلہ بھی قریب ہے اور اگر جاوید ہاشمی ضمنی الیکشن جیت کر مسلم لیگ(ن) میں شامل ہوگئے تو پھر شاہ محمود قریشی کا موقف درست قرار پائے گا۔