• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Chinese Village Inhabited The Cave
رفیع عباسی .....سائنس و ٹیکنالوجی کے دورمیں آج بھی کئی ممالک ایسے ہیں جہاں انسانوں نے غاروں کو آباد کیا ہوا ہے۔ چین میں ایسا ہی ایک گاؤں ہے جہاں لوگ پتھر کے دور جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔

چین کے جنوبی حصے میں دشوار گزار پہاڑوں کے درمیان واقع صوبے گیزو میں ایک غار ہے جہاںسو نفوس پر مشتمل ایک گاؤں آباد ہے۔ یہاں لوگوں کے ساتھ ان کے مویشیوں کا ریوڑ بھی رہتا ہے۔

یہ گاؤں 1949ء میں بسا تھا۔اس کا نام’’ زہونگ ڈونگ‘‘ ہےجسے لوگ مختصر کرکے زہونگ کہتے ہیں ۔ اس گاؤں میںشہری سہولتیں تو ناپید ہیں لیکن دیہی زندگی کی ضرورتیں ضرور ہیں۔

اس کی آبادکاری کے بارے میں بعض لوگوںکا دعویٰ ہے کہ چین میں جب کمیونسٹ انقلاب برپا ہوا تو بہت سے لوگ جان بچانے کیلئے چین کے دور افتادہ علاقوں میں روپوش ہو گئے۔ ان ہی میں سےچین کی میائو قوم کے چند خاندان چھپتے چھپاتے اس دشوار گزار پہاڑی علاقے میں چھپ گئے۔انہیں غار محفوظ پناہ گاہ لگا اور وہ اس میں رہنے لگے۔

یہاں کے کئی رہا ئش پذیر افراد اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ یہاں کئی نسلوں سے آباد ہیں ۔ ان کے آبائو اجداد نے یہاں انتہائی کٹھن حالات میں زندگی گزاری ہے اور موجودہ نسل اس ترقی یافتہ دور میں بھی پتھر کے زمانے جیسی زندگی گزار رہی ہے۔

غار میں آباد یہ گائوں طویل عرصے تک دنیا کی نگاہوں سے اوجھل رہا۔ 2007میں ایک چینی اخبار کے نمائندے نے اس پہاڑی علاقے کا دورہ کیا تو وہ زہونگ کے گائوں بھی گیا۔

اس نے میائو قوم کے بارے میں ایک مضمون ’’دور جدیدکے غار نشین‘‘ کے عنوان سے لکھا ، جس میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ یہ زمانہ قبل از تاریخ کے انسان ہیں جن کی آخری نسل اب ان غاروں میں آباد ہے۔چین کے آثار قدیمہ کے ماہرین نے اس دعوے کو قطعی طور پر مسترد کردیا۔

اس کے بعد ٹیلی ویژن پر زہونگ ڈونگ کے غار نشینوں سے متعلق ایک دستاویزی فلم ٹیلی کاسٹ جب کہ ریڈیو پر ان سے متعلق ایک معلوماتی پروگرام براڈ کاسٹ ہواجس کے بعددنیا بھر کے لوگوں کو گیزو میں واقع غاروں میں انسانی زندگی کے بارے میں علم ہوا۔

بانس کے سرکنڈوں سے بنے ہوئے بغیر سائبان کے مکانات ، رسیوں سے جوڑ کر بنائے گئے ہیں۔ غار کی 160فٹ بلند چھت قدرتی سائبان کا کام دیتی ہے۔یہی وجہ ہے یہاں انہیں بارش، آندھی، طوفان اور دیگر قدرتی آفات سے بھی کوئی خطرات لاحق نہیں ہوتے۔

غار میں سورج کی روشنی اور تازہ ہوا کے حصول کیلئے زیادہ تر گھر اس کے دہانے پر بنے ہوئے ہیں۔ بینچز، بیڈز اور ڈائننگ ٹیبل ان گھروں کی مستقل سجاوٹ ہے۔

ان کے ہر دروازے پر گھر کا نمبر لکھا ہوا ہے جبکہ انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ رکھنے کیلئے درمیان میں بانس کے ڈنڈوں سے احاطے کھینچے گئے ہیں۔

کئی گھروں میں برقی آلات، کپڑے دھونے کی مشین اور ٹی وی بھی موجود ہیں ۔ وہ پتھر کی چکّی پر چاول اور دیگر اناج پیس کر آٹا تیار کرتے ہیں،کپاس کے ریشوں سے کپڑا بنتے ہیں، غار سے باہر کی زمین پر فصلیں اگاتے ہیں، جن میں چاول اور مکئی کی فصل قابل ذکر ہے۔ گلہ بانی ان کا محبوب مشغلہ ہے ۔

غار کے اندر گائے، بھینسوں کی آوازیں ہیلی کاپٹر کی آواز کی طرح گونجتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ انہوں نے غار کے اندر مرغی، گائے، بھینسوں اور دوسرے مویشیوں کی افزائش نسل کے فارم بنائے ہوئے ہیں۔

اپنی غذائی ضرورتیں پوری کرنے کے بعد وہ انڈے، دودھ اور گوشت پہاڑوں کے نیچے واقع قصبات میں فروخت کے لیے لے جاتے ہیں۔
تازہ ترین